Ali HassanColumn

مقام عبرت ہے

علی حسن
وہ کرسی پر گم سم بیٹھے ہوا میں گھورتے رہتے ہیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد بس اتنا بولتے ہیں کہ میں نے سائن نہیں کئے تھے ۔ ان کے منہ سے مسلسل رال ٹپک رہی ہوتی ہے جسے صاف کرنے کے لئے اہل خانہ نے ایک ملازم رکھا ہوا ہے جو وقفہ وقفہ سے ان کی گردن میں بندھے ہوئے نیپکن کو تبدیل کر تا رہتا ہے۔ یہ قصہ ایک ایسے صاحب سنا رہے تھے جو تقریبا تین ماہ قبل لندن میں پاکستان نے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز سے ملاقات کے لئے ان کے گھر گئے تھے۔ ان صاحب کو شوکت عزیز کو اس حالت میں دیکھ کر افسوس ہوا اور انہوں نے اپنے جس دوست کو قصہ سنایا اس نے کہا کہ انہیں خیال آتا ہے کہ انہوں نے ان سے ملاقات نہ کی ہوتی۔ شوکت عزیز کو فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے اس وقت ’’ امپورٹ‘‘ کیا تھا جب انہیں ایک وزیر خزانہ کی ضرورت تھے۔ شوکت عزیز، ماہر معاشیات نہیں تھے۔ وہ تو صرف ایک فنڈ منیجر کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی زیادہ سے زیادہ قابلیت پاکستان میں ایک وقت میں قائم سٹی بینک کے سربراہ سے زیادہ نہیں تھی۔ مشرف کو ماہر معاشیات کی ضرورت بھی نہیں تھی کیوں کہ انہیں کون سا معیشت کو کھڑا کرنا تھا۔ ضیاء کی طرح مشرف کو بھی افغان جنگ کہ وجہ سے امریکہ ڈالر دے رہا تھا۔ مشرف بھی امریکہ کے پیسے پر کھیل رہے تھے۔ امریکہ کے لئے جنگ لڑنے کی وجہ سے پاکستان نے تو بہت عرصہ قبل سے اپنے ملک کی پیداواری صلاحیت کو صفر کر لیا ہے۔ برآمد نہ ہونے کے برابر ہو گئی ہے اور در آمد پر اس حقیقت کے باجود انحصار بڑھ گیا ہے کہ ملک کے پاس زر مبادلہ کی ضرورتیں بھی مانگے تانگے سے پوری کی جاتی ہیں۔ امریکہ افغانستان میں ایک ایسی لڑائی لڑ رہا تھا جو وہ عملا ہار چکا تھا لیکن اسے اپنی شکست تسلیم کرنے میں عار تھا۔ بہر حال وزیر خزانہ کے بعد جس مشرف نے بلوچستان کے سیاست دان ظفر اللہ جمالی کو وزیر اعظم تھے، کابینہ سے نکالا دیا تو شوکت عزیز ان کا متبادل ٹھہرا تھا۔ ورنہ شوکت عزیز کا پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے کیا کام۔ انہیں تو ایک کھٹ پتلی سے زیادہ کی حیثیت نہیں تھی جسے مشرف کے اشاروں پر ناچتا تھا۔ شوکت عزیز اور چودھری شجاعت حسین اس لحاظ سے ایک دوسرے کا سایہ تھے کہ دونوں ہی مشرف کے کارکن تھے۔
شوکت عزیز سے ایسی کیا غلطی سر زد ہوئی جس کی وجہ سے وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی پکڑ میں آگئے۔ ان کا جوان اکتالیس سالہ بیٹا عابد شوکت کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے انتقال کر گیا تھا ۔ شوکت عزیز نے ان کے علاج پر بہت پیسہ خرچ کیا۔ ان کے پاس لندن جیسے شہر میں جائیدادوں کی کمی نہیں ہے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ بیٹے کی میت کو وہ ٹکٹکی باندھے اس وقت تک دیکھتے رہے تھے جب تک میت کو تدفین کے لئے اٹھایا نہیں گیا۔ چودھری شجاعت نے اپنی کتاب ’’ سچ تو یہ ہے‘‘ میں اسلام آباد میں قائم لال مسجد میں ہونے والے آپریشن کے واقعہ کی تفصیل لکھی ہے۔ سوشل میڈیا پر جن صاحب سے شوکت عزیز کی حالت زار بیان کی ہے وہ کہتے ہیں کہ جس وقت لال مسجد آپریشن کا آغاز ہونے والا تھا جس کے لئے مسجد کے روح رواں غازی رشید بھی آمادہ ہو گئے تھے لیکن وہ کہتے تھے کہ تمام خواتین اور افراد کو دن کی رو شنی میں حکام کے حوالے کر دیا جائے گا لیکن حکام کو رات میں ہی آپریشن کرنے کی جلدی تھی۔ انہیں صبح تک کا انتظار قبول نہیں تھا۔ شوکت عزیز کو جب صبح کے بارے میں کہا گیا تو موصوف نے فرمایا تھا کہ اب دیر ہو گئی ہے۔ میں تو اپنی بیٹیوں کے ساتھ قلفی کھانے جا رہا ہوں۔ اور وہ چلے گئے تھے۔ اس کے بعد آپریشن کیا گیا، بہت زیادہ گولیاں چلائی گئیں۔ دوسری صبح خواتین کی سوختہ لاشیں بھی ملی تھیں۔ شائد آپریشن کی تحریری اجازت شوکت عزیز نے ہی دی تھی۔ ’’ سچ تو یہ ہے ‘‘ میں لکھا ہوا ہے کہ ’’ ان ہی دنوں اسلام آباد میں چینی مساج سینٹر سے چینی عملہ کے اغوا کا معاملہ بھی بڑا عجیب و غریب تھا۔ ایک روز صبح ملازم نے مجھے جگایا اور کہا کہ چینی سفیر لوزا ہوئی آئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ فوری طور پر آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ملازم نے بتایا ، ہم نے انہیں کہا کہ چودھری صاحب اس وقت آرام کر رہے ہیں لیکن ان کا اصرار ہے کہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ ان فوری طور پر چودھری صاحب سے ملنا ضروری ہے۔ میں نے کہا، اچھا انہیں اندر بٹھائو میں آتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد جب میں ان سے ملنے کے لئے ڈرائنگ روم میں آیا تو میں نے محسوس کہا کہ چینی سفیر اور ان کے ساتھ آنے والا عملہ غیر معمولی طور پر مضطرب ہے۔ میں نے پوچھا خیریت تو ہے کیا بات ہے، آپ لوگ بہت گھبرائے ہوئے ہیں۔ چینی سفیر نے کہا ہم رات دو بجے سے مارے مارے پھر رہے ہیں لیکن ابھی تک حکومت کے کسی ذمہ دار آدمی سے ہمارا رابطہ نہیں ہو سکا۔ ہم مجبور ہو کر آپ کے پاس آئے ہیں۔ پھر چینی سفیر نے بتایا کہ مساج سینٹر کے عملے کو لال مسجد کے لوگوں نے پہلے مارا پیٹا اور پھر اغوا کر لیا۔ میں نے کہا کہ یہ تو بڑے افسوس کی بات ہے، کچھ کرتے ہیں۔ ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے، کہ چینی سفیر کو چین کے صدر کا فون آیا۔ چینی سفیر نے صدر سے بات مکمل کرنے کے بعد مجھے بتایا کہ صدر صاحب پوچھ رہے ہیں، کیا پیش رفت ہوئی ہے۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہم یہاں آپ کے پاس بیٹھے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں۔ دن نکل آیا تھا میں نے غازی عبدالرشید سے ٹیلی فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ آپریٹر کے پاس چونکہ ان کا ڈائریکٹ نمبر نہیں تھا، اس لئے رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ پھر میں نے صحافی حامد میر کو فون کر کے پوچھا کہ کیا ان کے پاس غازی عبدالرشید کا ڈائریکٹ ٹیلی فون نمبر ہے۔ میں ابھی آپ سے ان کی بات کراتا ہوں۔ اس کے کچھ دیر بعد ہی غازی عبدالرشید کا فون آگیا۔ میں نے ان سے کہا کہ جامعہ حفصہ کے طلبا نے چینی مساج سینٹر کے چینی باشندوں کو مارنے پیٹنے کے بعد اغوا کر لیا ہے۔ چین ہمارا دوست ملک ہے اور ہر مشکل اور نازک موقع پر اس نے ہمارا ساتھ دیا ہے۔ اگر چین جیسے دوست ملک کے باشندوں کے ساتھ یہاں اس طرح کا سلوک ہوگا تو وہ ہمارے بارے میں کیا سوچیں گے۔ غازی عبدالرشید نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے طلبا کو اس طرح کی کوئی ہدایت جاری نہیں کی، وہ اپنے طور پر گئے ہوں گے۔ میں نے انہیں کہا کہ یہ وقت اس طرح کی باتوں کو نہیں۔ آپ جامعہ حفصہ والوں سے کہیں کہ فوری طور پر چینی باشندوں کو رہا کر دیں۔ میری اس بات پر غازی عبدالرشید نے کہا، ٹھیک ہے، کل صبح تک چینی باشندے رہا ہو جائیں گے۔ میں نے کہا کہ کل تک بہت دیر ہو جائے گی۔ چینی باشندوں کی رہائی کے لئے جب میں غازی عبدالرشید سے یہ گفتگو کر ر ہا تھا تو چینی سفیر کو دوسری بار اپنے صدر کا فون آیا۔ انہوں نے چینی باشندوں کی خیریت دریافت کی تھی۔
چینی سفیر نے کہا کہ صدر اس واقعہ سے سخت مضطرب ہیں۔ وہ جلد از جلد چینی باشندوں کی رہائی چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم ہائوس سے شوکت عزیز کو ساتھ لے کر میں ایوان صدر پہنچا۔ ایوان صدر میں اس وقت جنرل حامد جاوید اور باقی سٹاف بھی موجود تھا۔ میں نے صدر مشرف سے کہا کہ غازی عبدالرشید کہتے ہیں کہ محفوظ راستہ دینے کی صورت میں وہ مسجد میں موجود باقی خواتین اور بچوں کو ساتھ لے کر باہر آجائیں گے۔ میں نے کہا بے گنا شہریوں کی جان بچانے کے لئے ہائی جیکروں سے بھی مذاکرات کرتے ہیں۔ عورتوں اور بچوں کی زندگیاں بچانے کے لئے آپ ان کو ہائی جیکر ہی سمجھ لیں۔ ایوان صدر سے بالکل مایوس ہو کر جب میں واپس آیا تو لال مسجد کے قریب ایک جگہ پریس کانفرنس کی اور اس معاملے میں اپنی بے بسی ظاہر کی۔ اس دوران بار بار ہمیں کہا جا رہا تھا کہ جلدی کریں یہاں سے نکلیں، آپریشن شروع ہونے والا ہے۔ ہم لوگ وہاں سے نکل کر ابھی اگلے چوک تک ہی پہنچے تھے کہ دھماکوں کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ آپریشن شروع ہو چکا تھا۔ شوکت عزیز تو اپنے کئے کی سزا بھگت رہا ہے۔ جنرل مشرف بھگت کر چلا گیا۔ انہیں ایک ایسی بیماری نے پکڑ لیا تھا کہ وہ بستر پر زندہ لیٹے رہتے تھے، ان کی تیماردار نرس صرف اتنا کہتی تھی ’’ جنرل بول نہیں سکتا ہے‘‘۔ حکمران جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں حالانکہ ایسا ہوتا نہیں ہے۔ حکمرانی کرنے والا ہر شخص اسی ذہنی خناس کا شکار ہوا اور عبرت کا سامان بن گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button