Abdul Hanan Raja.

دل گرفتگی بھی ایک نعمت ہے

عبد الحنان راجہ
رمضان المبارک کا آغاز اس بار سفر میں اور دوران سفر جہاں بہت سے تجربات کا سامنا رہتا ہے وہیں تحریر کی نوک پلک درست کرنے کا موقع بھی میسر رہتا ہے. طالب علم سماجیات کے ہوں یا روحانیات کے فلسفی ہوں یا تاریخ دان، ماضی میں اسفار سبھی کے علم کا اہم مآخذ رہے. اسلاف کی یہ روایت کسی نہ کسی طور اب بھی زندہ، کہ دوران سفر مختلف الخیال افراد اور اہل علم و دانش سے حدود آداب میں رہتے ہوئے اختلافی ابحاث ذہن کے بند دریچوں کو کھولتی ہیں اور اہل فہم و دانش سے گفت و شنید اور ان سے علم کے موتی چننے کا موقع بھی دستیاب ہوتا ہے. ہماری بدقسمتی کہ ہم جس سماج کا حصہ ہیں وہاں جہل کو علم پر فوقیت، مگر یہاں جہل سے میری مراد ان پڑھ ہونا نہیں. بلکہ میرے سمیت کئی ایک کے نزدیک ہر وہ فرد جاہل ہی متصور کیا جاتا ہے کہ جسے اقدار و روایات اور معاشرے کے دیگر خصوصاً کمزور طبقات کے جذبات کا احساس نہ ہو. جو اگر تاجر ہے تو رمضان المبارک میں ناجائر منافع خوری، ذخیرہ اندوزی کو برا خیال نہ کرتا ہو. اور انتظامی ذمہ داری پر ہے تو اپنے فرائض کے عہدہ برا نہ ہوتا ہو. خریدار ہے تو ضرورت سے زائد خریداری کرتا ہو اور اگر سیاسی کارکن ہے تو امداد کے نام پر مستحق افراد کی عزت نفس مجروح. کتنی بدقسمتی کہ دیار غیر اور نظام کفر میں مسلم دنیا کے مقدس مہینہ میں بنیادی اشیائے خورونوش خصوصی گنجائش کے ساتھ مقدار وافر میں دستیاب مگر ہمارے ہاں ہر بار اور ہر سال حکومت ان اشیا کے نرخوں کو قابو میں رکھنے کی لاحاصل کوشش کر رہی ہوتی ہے اور مقتدران کو سستی شہرت کی معقول وجہ میسر آ جاتی ہے جبکہ انتظامی افسران کو بھی اپنی کارکردگی رپورٹ کو بہتر بنانے کا نادر موقع دستیاب ہوتا ہے. اگر دستیابی نہیں تو عام شہری کو رمضان سے پہلے کے نرخوں کی. شاید ہم جیسا کند ذہن اس فلسفہ کو نہیں سمجھ پاتا یا اعلیٰ ترین دماغ کہ جنہیں عوامی ٹیکسوں پر سرکاری نوکری کے ساتھ ہر قسم کی آسائشات میسر وہ کیوں اس دھوکہ بازی سے خود نکلتے ہیں اور نہ عوام کو نکلنے دیتے ہیں. سیاست کے شہ دماغوں کے ذہنوں میں ہر سال ہونے والی گراں فروشی کی مصنوعی لہر کو مستقلا روکنے کے طریق کیوں کر نہیں آتے. چین اور سعودی عرب سے ہم امداد تو لیتے ہیں کاش اس مرض سے ہمیشہ کے چھٹکارا کی دوا بھی لے لیتے. کیوں ہر بار رمضان پیکجز کے نام پر لوگوں کو بھکاری بنایا جاتا ہے اور نام نہاد سستے بازاروں و یوٹیلیٹی اسٹورز میں بے چارے لوگوں کی لمبی قطاریں لگتی ہیں. حقیقت تو یہ ہے کہ ایک مائنڈ سیٹ ہے جو اس کے ذریعے امیر اور غریب کے مابین فرق کو قائم رکھنا چاہتا ہے اور بدقسمتی ہماری کہ رمضان المبارک اس کے لیے بہترین موقع.دل گرفتی کی پہلی وجہ تو عوامی اور خالصتا انتظامی نا اہلی تو دوسری وجہ بھی معقول اور میرے نزدیک کے پی اسمبلی تو اسی دن اپنا اخلاقی جواز کھو بیٹھی تھی جس دن حریف خاتون رکن اسمبلی کے ساتھ نہ صرف بدتہذیبی بلکہ اس سے آگے اس کی عزت کی بولی لگ رہی تھی. خاتون حریف ہو یا حلیف ہماری روایات، اقدار اور مذہب میں اسے جو مقام حاصل ہے وہ سب کو معلوم، بلکہ پختون روایات تو اس سے آگے کچھ اور کہتی ہیں کہ ان کے ہاں تو خاتون مقدس بھی ہے اور محترم بھی. بدقسمتی یہ کہ یہ سب سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے ہوا کہ جس کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا جو کہ نامور علمی خانوادہ سے تعلق رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے اجداد کی مذہبی، اخلاقی اور علمی روایات کے آمین. پی ٹی آئی کو یہ اعزاز کہ اسے قبولیت بھی ملی بے پناہ مقبولیت بھی. مگر قیادت کو شاید زعم خود پسندی تھا کہ وہ اس سیاسی نعمت کو زیادہ دیر سنبھال نہ سکی. قیادت میں فراست، تدبر اور اعتدال کی عدم دستیابی نے عوامی جذبات کی حامل اس تحریک کو اس حال تک پہنچا دیا کہ اسے ایک ایسی جماعت میں آئینی پناہ لینا پڑی کہ جو کبھی سیاسی تھی نہ پارلیمانی. پرکشش شخصیت کے حامل کپتان کی سیاسی مقبولیت سے انکار نہیں کہ گھسے پٹے اور بدبودار سیاسی نظام میں وہ تازہ ہوا کا جھونکا، مگر اقتدار میں آ کر ٹھوکر کھا کے ایسے گرے کہ اب سنبھلنا مشکل. اب کسی سطح پر دبی آواز میں رائج نظام کے خلاف بات تو کرتے ہیں مگر اس کو تبدیل کرنے کی کوشش کی اور نہ نظام تبدیلی کی جد و جہد والوں کا ساتھ دیا. کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو مثبت سمت بروئے کار لاتے تو معاشرتی اخلاقیات اور سیاسی روایات ہی کچھ اور ہوتیں. مگر کے پی اسمبلی میں جو کچھ خاتون رکن اسمبلی کے ساتھ ہوا یہ اس ناکامی کا عملی مظاہرہ تھا. مقبولیت انہیں نصیب ہوئی اور اگر وہ اس نعمت کو تحمل، بردباری، برداشت اور اعتدال کے ساتھ استعمال میں لاتے تو 2028تک ان کو اقتدار سے باہر کرنا بدعنوانی میں گھرے سیاست دانوں کے بس میں نہ تھا.اقتدار کے باوجود الفاظ کے چنائو کا ہنر اور گفتگو میں احتیاط و آداب سے گویا وہ شناسا ہی نہ تھے. اب ان کو اس حال میں دیکھ کر دکھ ہوتا ہے. اس لیے بھی کہ عوام ایک بار پھر معاشی بھیڑیوں کے شکنجے میں آ گئے. بدعنوانی میں جنہوں نے شہرت کمائی ایک بار پھر خزانوں کی کنجیاں انہی کے ہاتھوں میں. مگر میں اسے کہنہ مشق روایتی سیاسی دانوں کی کامیابی کی بجائے فریق دوئم کی نااہلی گردانتا ہوں کہ جن کے غلط سیاسی فیصلوں نے ملک کو اس حال تک پہنچایا. اب وہ پابند سلاسل اور جماعت سیاسی فہم و فراست سے عاری غیر سیاسی افراد کے ہاتھوں میں. باوقار، وفادار اور سیاسی سوجھ بوجھ کے حامل کارکنان میں کسی کو قیادت نہ سونپنا سمجھ سے بالا تر، بہرحال قصہ طویل ہو گیا اس سے اتفاق اور اختلاف کی گنجائش بہر حال قارئین کے پاس ہے. مگر یہ آداب کے دائرہ میں ہو تو حسن وگرنہ شر اور انتشار جیسا کہ اب نظر آ رہا ہے اور نئی اسمبلیوں میں کے پی اس میں بازی لے گئی. تا دم تحریر صوبائی اسمبلی پر لگنے والے اس بد نما داغ کو کسی نے صاف کرنے کی کوشش نہیں کی کہ ایسے داغوں کو صاف کرنے کے لیے بھی ظرف اور عالی کردار درکار، مگر آہ !!! وہ تو اب یاد ماضی. اور یاد ماضی عذاب ہے یا رب، دل گرفتگی ایک اجتماعی وجہ کہ! افسوس صد افسوس کہ یہ رمضان اس حال میں آیا کہ غزہ پر اسرائیلی بربریت پوری سفاکیت سے جاری اور ہر سو بیہمانہ قتل عام. کہاں گئی عالمی برادری اور کہاں کی امت مسلمہ، کہ ہم تو انواح اقسام کے دستر خوان افطار سجاتے پھریں اور مادی وسائل سے مالا مال مسلم ممالک کے ہوتے ہوئے غزہ کے بچے غذائی قلت سے مریں. اسرائیل اگر مجرم ہے تو ملزم ہم بھی ہیں.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button