Abdul Hanan Raja.Column

کیوں چپ ہے اسی شان سے پھر چھیڑ ترانہ

عبد الحنان راجہ
وہ لمحات کتنے قابل فخر، پرجوش اور ناقابل فراموش کہ جب یونیفارم میں پہلی بار اس کا سامنا اپنے والدین سے ہوا ہو گا۔ باپ اس وقت کتنا پر فخر اور ماں نے کتنی بلائیں لی ہوں گی اور پھر جب ہاتھ خالصتا فوجی انداز میں والدین کو سیلوٹ کے لیے اٹھے تو اللہ اکبر۔ اس وقت اپنے والدین کو خراج عقیدت گزارنے کا شاید یہی سب سے دلفریب انداز۔ انسان کی زندگی میں وہ لمحات بھی آتے ہیں کہ جب وہ اپنے لخت جگر کو کیڈٹ کی وردی میں دیکھتا ہیں اور قدرت نے کئی ایک کے نصیب میں انہی کو پرچم میں لپٹا جسد خاکی بھی دیکھنا مقدر کیا ہوتا ہے، مگر وہ لمحات بڑے جاں گسل، مگر عباس علمدار کی خاندان رسالت سے وفا اور شہزادہ علی اکبر کی شہادت کی ادا ہی پاک فوج کے ہر جوان کے پیش نظر۔ طلحہ سے میجر طلحہ تک کے سفر میں تو انسانی مگر شہادت کے سفر میں حسینی جذبات ہی پنہاں ہوتے ہیں۔ گزشتہ محرم الحرام اور ماہ اگست کا مہینہ ہر دو لحاظ سے منفرد کہ ایک شہدائے کربلا کی یاد میں تو دوسرا شہدائے وطن کی یادوں سے موسوم۔ محرم اور اگست کی تپتی دوپہر کہ جب شہید طلحہ منان کا پرچم میں لپٹا جسد خاکی وصول کیا۔ لسبیلہ کے دور افتادہ اور پس ماندہ علاقوں میں پاک فوج کے جوان لیفٹیننٹ جنرل سرفراز کی زیر قیادت جبکہ ان کے ہمراہ ڈی جی کوسٹ گارڈز میجر جنرل امجد حنیف، بریگیڈئیر محمد خالد، پائلٹ میجر سعید، کو پائلٹ میجر طلحہ اور نائیک مدثر فیاض سیلاب زدگان کے لیے جاری امدادی کارروائیوں میں مصروف اور اسی دوران مرتبہ شہادت پہ فائز ہوئے. آج بھی بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑ اور وادیاں ان عظیم مجاہدوں کے جذبہ خدمت سے معمور ہیں۔ ہمیں ہیلی کے لاپتہ ہونے کی خبر رات 9بجے کے قریب ملی، اس کے بعد ایک ایک لمحہ مصدقہ خبر کے انتظار میں گزارنا کتنا کرب ناک کہ اس کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ گھر میں اعزا اور قریبی احباب جبکہ ٹیلی فونز کا تانتا۔ اگلے روز سہ پہر کو تمام کی شہادت کی تصدیق کے بعد موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیفس جنرل ساحر شمشاد جو اس وقت لیفٹیننٹ جنرل تھے، شہید میجر طلحہ کے گھر ان کے والد گرامی کو شہادت کی مبارک دینے آئے تو فرط عقیدت سے ان کے ہاتھ سلامی کو اٹھے۔ شہید کے والد عبدالمنان اور انکے اہل خانہ کے عزم و ہمت کو دیکھ کر انہوں نے خراج تحسین پیش کیا۔ یہ درست کہ شہادت عظیم مرتبہ مگر جدائی کا دکھ گوشت پوست کے انسان کو بہرحال سہنا پڑتا ہے۔ ان کی والدہ، زوجہ اور اہل خانہ نے کس طرح جھیلا اس کا اظہار تو ممکن نہیں مگر انہیں ہمہ وقت صبر و رضا کا پیکر پایا کہ یہ امام حسینؓ کی کربلا میں قربانیوں کا پرتو ہی تو ہے کہ جس نے امت اور پاک فوج کے جذبات کو زندہ رکھا ہوا اور بقول اقبالؒ ’’ شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن‘‘ تو ہر بندہ مومن کے دل میں اس کی آرزو تو بہر حال رہتی ہی ہے مگر اس کو پا لینا یقیناً مقدر، نہ صرف شہید کے لیے عظمت و رفعت، عزت و سرفرازی اور رحمت و مغفرت کے دروازے کھل جاتے ہیں بلکہ اس کے والدین اور اہل خانہ بھی حامل درجات، کیوں نہ ہوں کہ وہ اللہ کے ارشاد لن تنالو البر حتی تنفقوا مما تحبون کے مصداق بن جاتے ہیں اور والدین کے لیے اولاد سے بڑھ کر کون سی شے محبوب ہو سکتی، سو وہ اسے خدا کے حضور پیش کر کے تحبون کے زمرہ میں آ جاتے ہیں اور یہ بات تو روز اول سے ہی والدین کے ذہن کے نہاں خانے میں ہوتی ہے کہ جب وہ اپنے جوان کو پاک فوج یا سیکیورٹی ادارہ جات کے لیے بھیجتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ پاک فوج کے جوانوں نے دشمنوں سے سامنا ہو یا دہشت گردوں سے یا وطن والوں کے لیے قربانی کا موقع، کبھی نقد جاں سے گریز کیا اور نہ مشکل سے مشکل ترین حالات میں پیچھے ہٹے کہ بدر و حنین اور کربلا کے ریگزاروں سے شہادت کے لیے اٹھنے والے جذبات بفضل تعالیٰ آج بھی زندہ و توانا بس ہمیں ان کی آبیاری کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کی آبیاری کیسے کہ قوم کے نونہال اہل مغرب اور اقوام غیر کو اپنا ہیرو بنانے کی بجائے اپنا مستقبل اسلاف کی عظمت و کردار کو بنائیں۔ اس کے لیے تین طبقات ذمہ دار، اولا والدین، دوسرا اساتذہ و نظام تعلیم اور تیسرا حکومت۔ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ اور گھر کا ماحول، کہ گھر میں اگر قرآن اور صاحب قرآں سے دوری رہے اور ہمہ وقت انڈین کلچر، تو ابو نصر فارابی، ابن سینا، محمد بن قاسم، محی الدین ابن العربی، امام غزالی، مولائے روم، اور آج کل معروف نام ارطغرل غازی، صلاح الدین ایوبی، علامہ اقبالؒ و دیگر تو پیدا ہونے سے رہے۔ اساتذہ اپنے کردار اور نظام تعلیم اپنے نصاب سے حسینی فکر پیدا کر سکتے ہیں مگر چند جامعات کے احوال جاننے کے بعد مجھے یہ کہنے میں ذرا باق نہیں کہ ہم اب بھی یزیدی فکر کے ہی زیر اثر اور کم و بیش تمام شعبہ جات اسی نظام میں جکڑے جا چکے ہیں۔ شہدائے کربلا کے ایام ہوں یا اپنے وطن کے جانبازوں کے، ان کو رسمی طور پر منا لینا کافی ہے نہ شافی، کہ یزیدی فکر اور اس کے نظام کے چنگل سے اپنے آپ کو نکالنا ہو گا، ہر فرد کو، خاندان کو اور پھر معاشرے کو، کہ تحریک پاکستان سے لیکر استحکام پاکستان کے شہدا تک، کہ انہوں نے قربانیاں اس لیے تو نہ دیں کہ مملکت کے باسی افلاس کی چکی میں پسے، غریب بھوک کی آگ میں جلے اور طبقہ اشرافیہ اپنی عیاشیوں میں مست رہے۔ انہوں نے جانوں کا نذرانہ اس لیے نہیں پیش کیا کہ آئے روز اس وطن کے شہری دہشت گردی سے مریں تو کبھی سیلاب سے۔ کیا تقدیر نے اس لیے چنوائے تھے تنکے، اس مملکت خداداد کو جو 27ویں کی مقدس شب میں عطا ہوئی، ہزاروں کا لہو اس کے قیام اور لاکھوں کا اس کے استحکام میں بہا۔ بیرونی دشمن تو آگ لگا نہ سکا تو پھر کہنے دیجیے کہ آگ ہم نے اگر لگائی نہیں تو بجھنے بھی نہ دی۔ لیفٹیننٹ سرفراز و میجر طلحہ منان شہید، نائیک مدثر جیسے ہزاروں کا خون نفرت، تعصب، جہالت، انتہا پسندی، مفاد پرستی، ظلم، افلاس، ناانصافی، غربت اور اس سے بڑھ کر صدیوں قبل یزید کا قائم کردہ نظام گرانے اور حسینی نظام رائج کرنے کے لیے ہی تو گرتا ہے۔ اب ہم نے سوچنا ہے شہیدوں کے لہو کی لاج رکھنی ہے یا۔۔۔؟ اختتام مفکر کے اس پیغام سے:
اے قوم وہی پھر ہے تباہی کا زمانہ
اسلام ہے پھر تیر حوادث کا نشانہ
کیوں چپ ہے اس شان سے پھر چھیڑ ترانہ
تاریخ میں رہ جائے گا مردوں کا فسانہ
مٹتے ہوئے اسلام کا پھر نام جلی ہو
لازم ہے کہ ہر فرد حسین ابن علی ہو !!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button