ColumnHabib Ullah Qamar

خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور تحریک آزادی کشمیر

حبیب اللہ قمر
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت والی دفعات ختم ہونے کے چار سال مکمل ہونے پر آج پانچ اگست کو غاصب بھارت کے خلاف یوم سیاہ منایا جائے گا اور تاریخی ہڑتال کی جائے گی۔ اس موقع پر کشمیر سمیت دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں اور ملکوں کے مردہ ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی جائے گی۔ حریت کانفرنس کے مرکزی قائدین نے کشمیری قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ پانچ اگست کو عام ہڑتال کریں تاکہ دنیا پر بھارت کے غیر قانونی اقدامات کی حقیقت واضح ہو۔ حریت کانفرنس، جے کے ایل ایف، جموں کشمیر ڈیموکریٹک فریڈم موومنٹ اور دوسری تنظیموں کا کہنا ہے کہ پانچ اگست کو یوم سیاہ کے طور پر منانے سے کشمیریوں کی جانب سے عالمی برادری کو پیغام جائے گا کہ بی جے پی کی ہندو انتہا پسند حکومت کی طرف سے تحریک آزادی کشمیر کے خلاف کی جانے والی سازشوں اور ہتھکنڈوں سے کشمیریوں کی جدوجہد کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ پانچ اگست2019ئ کو آج کے دن ہی مودی سرکار نے آئین کے آرٹیکل370اور35اے کو ختم کیا تھا ۔ ان دفعات کے تحت مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی جو بھارتی مذموم عزائم کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ تھیں تاہم انہیں منظم منصوبہ بندی اور سازش کے تحت ختم کر دیا گیا۔ آج ان دفعات کو ختم ہوئے چار سال مکمل ہو چکے ہیں۔ 2019ء اگست کے آغاز میں ہندوستانی وزیر داخلہ امیت شاہ نے راجیہ سبھا میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل370اور35اے ختم کرنے کا بل پیش کیا جس پر اپوزیشن میں شامل جماعتوں نے شدید احتجاج کیا تاہم بعد میں بھارتی صدر نے اس پر دستخط کر دیئے۔ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے مقبوضہ وادی کو دو حصوں میں تقسیم اور وادی کشمیر کو لداخ سے الگ کر دیا گیا۔ لداخ کو بھارتی زیر انتظام وفاق کا علاقہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس کی اپنی الگ قانون ساز اسمبلی ہو گی۔ بھارتی آئین کا آرٹیکل370اور35اے ختم کر کے لاکھوں کی تعداد میں غیر مسلم شہریوں کی کشمیر میں آباد ہونے کی راہ ہموار کی گئی جنہیں باقاعدہ طور پر زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہونے کے مواقع سرکاری سرپرستی میں فراہم کئے جارہے ہیں۔ بھارت کا یہ اقدام خطہ کے امن کو تار تار کرنے کے مترادف تھا۔
مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی جداگانہ خصوصی حیثیت ختم کر کے اسرائیلی طرز پر کشمیریوں کو اقلیت میں بدلنے کیلئے یہ انتہائی اقدام اٹھایا گیا۔ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت والا آرٹیکل35اے بھارتی آئین کے آرٹیکل370کا حصہ تھا۔ اس آرٹیکل کی وجہ سے جموں کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دیا گیا تھا۔ آرٹیکل35اے کے مطابق کوئی شخص صرف اسی صورت میں جموں کشمیر کا شہری ہو سکتا تھا اگر وہ یہاں پیدا ہوا ہو۔ کسی بھی دوسری ریاست کا شہری جموں کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا تھا، اسی طرح نہ وہ یہاں کا مستقل شہری بن سکتا اور نہ ہی ملازمتوں پر حق رکھتا تھا۔ یہی آرٹیکل35اے جموں کشمیر کے لوگوں کو مستقل شہریت کی ضمانت دیتا تھا۔ آرٹیکل370کے مطابق یہ طے تھا کہ تین معاملات بھارت کی مرکزی حکومت کے پاس رہیں گے جن میں سکیورٹی، خارجہ امور اور کرنسی شامل ہیں جبکہ اس کے علاوہ باقی تمام اختیارات جموں کشمیر حکومت کے پاس رہیں گے۔ اس آرٹیکل کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کی جموں کشمیر کے حوالے سے ان قراردادوں کی رہی سہی اہمیت بھی ختم کرنے کی کوشش کی گئی جن کے مطابق جموں کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیا گیا اور پاکستان اور بھارت کو کہا گیا تھا کہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے رائے شماری کا حق دیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت والی دفعات ختم کرنے سے قبل انڈیا کے بدنام زمانہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے کشمیر کے خفیہ دورے کر کے وہاں فوجی کمانڈروں، ریاستی گورنر اور ہندو انتہا پسند تنظیموں کے عہدیداران سے ملاقاتیں کر کے ہوم ورک مکمل کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ امیت شاہ کی سربراہی میں نئی دہلی میں میٹنگیں ہوئیں اور پھر یہ سارا منصوبہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے رکھا گیا جس کی منظوری ملتے ہی5اگست کو اسے راجیہ سبھا میں پیش کر دیا گیا۔ قبل ازیں بھارتی فوج نے یہ شوشہ اڑایا کہ ہندوستانی ایجنسیوں نے رپورٹ دی ہے کہ کشمیری مجاہدین مبینہ طورپر ہندو یاتریوں اور سیاحوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اس لئے وہ فوری طور پر یہاں سے نکل جائیں۔ اس دوران 38ہزار تازہ دم فوج منگوا کر کشمیر کے حساس علاقوں میں تعینات کی گئی اور پھر70ہزار مزید فوج بلانے کا حکم نامہ جاری کر دیا گیا۔ بھارتی حکومت نے سرکاری سرپرستی میں ہندو یاتریوں اور سیاحوں کو وہاں سے نکالا اور پھر جس دن یہ نیا بل پارلیمنٹ میں پیش کرنا تھا اس رات پورے کشمیر میں دفعہ 144اور کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ بھارتی فوج نے اس موقع پر کشمیریوں میں زبردست خوف و ہراس پھیلایا اور یہ افواہیں اڑائیں کہ حالات بہت زیادہ خراب ہونے والے ہیں اس لئے وہ گھروں میں راشن اور پٹرول وغیرہ جمع کر لیں۔ بھارتی فوج کی جانب سے کنٹرول لائن پر بھی ماحول خراب کیا گیا اور وادی نیلم سمیت مختلف علاقوں میں نہتے شہریوں پر کلسٹر بم پھینکے گئے جس سے متعدد کشمیری شہید و زخمی ہوئے۔ کلسٹر بم گرانا جنیوا کنونشن اور دیگر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، اس پر پاکستان کی طرف سے شدید احتجاج کیا گیا اور یہ معاملہ اقوام متحدہ سمیت دوسرے بین الاقوامی فورمز پر اٹھایا گیا لیکن جس طرح عالمی دنیا کی جانب سے انڈیا کی جارحیت پر دبائو بڑھانا چاہیے تھا وہ دیکھنے میں نہیں آیا بلکہ جموں کشمیر کی متنازعہ حیثیت والی دفعات ختم کرنے پر بھی بین الاقوامی طاقتوں نے کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت والی دفعات میں یہ باتیں شامل تھیں کہ ہر کشمیری دوہری شہریت رکھتا تھا۔ جموں و کشمیر کی اسمبلی کی مدت کار چھ سال ہوتی ہے جبکہ ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی اسمبلیوں کی مدت پانچ سال ہوتی ہے۔ انڈیا کی پارلیمنٹ جموں و کشمیر کے سلسلہ میں بہت محدود دائرے میں قانون بنا سکتی تھی۔ یہ وہ باتیں ہیں جو خصوصی حیثیت والی دفعات میں شامل تھیں جن کی وجہ سے انڈیا آج تک کشمیر میں صحیح معنوں میں مسلم اکثریتی آبادی کے تناسب کو تبدیل نہیں کر سکا تھا لیکن آرٹیکل370ختم کرنے کے بعد اب مودی حکومت کو اس حوالہ سے کھلی چھوٹ مل گئی ہے اور بھارت سرکار مسلسل جموں کشمیر کی مسلم آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی سازشیں کر رہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں جب سے خصوصی حیثیت والی دفعات ختم کی گئی ہیں اس وقت سے کشمیر کی ساری قیادت جیلوں میں قید یا گھروں میں نظربند ہے۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ اور جماعت اسلامی جیسی تنظیموں پر پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔ ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے سرگرم کشمیریوں کو زبردستی اغوا کر کے ٹارچر سیلوں میں ڈالا جاتا رہا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ بھارتی حکومت اور فوج نے کشمیری تاجروں کی معیشت بری طرح برباد کر کے رکھ دی ہے اور انہیں دو سال کے عرصہ میں کھربوں روپے مالیت کا نقصان ہوا ہے۔ کشمیریوں کے پھلوں کے باغات، فصلیں اور املاک بڑے پیمانے پر تباہ کر دی گئی ہیں۔ سیکڑوں کشمیری ایسے ہیں جن کی آنکھوں کی بینائی چھین لی گئی ہے۔ بھارتی فوج کشمیریوں کیخلاف کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کر رہی ہے اور جگہ جگہ سے اجتماعی قبریں برآمد ہو رہی ہیں۔ گزشتہ چار برسوں میں خاص طور پر کشمیری قوم پر سخت آزمائشیں اور مشکل حالات پیش آئے ہیں۔ مسلسل کرفیو جیسی پابندیوں سے کشمیریوں کی زندگیاں اجیرن بنادی گئی ہیں۔ اس عرصہ میں قتل و غارت گری اور معیشت کی بربادی کے ایسے خوفناک واقعات پیش آئے ہیں کہ جنہیں سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ بھارتی فوج اور حکومت کشمیریوں کو تحریک آزادی سے دور کرنے کیلئے مظالم ڈھانے کے سبھی ہتھکنڈے آزما رہے ہیں لیکن کشمیری صبر و استقامت کا پہاڑ بن کر بھارتی دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں اور میدانوں میں برسر پیکار ہیں۔ کشمیر کی تحریک آزادی جس قدر عروج پر پہنچ چکی ہے اسے طاقت و قوت کے بل بوتے پر ختم کرنا کسی صورت ممکن نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button