Abdul Hanan Raja.Column

فرنگ کی رگ جاں اور پنجہ یہود

عبد الحنان راجہ
موساد کے سابق چیف دانی یاتوم نے اسرائیلی روزنامہ میں لکھے گئے ایک مضمون میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شاید موسیٌٰ اور ہارونٌ کا رب ہم سے ناراض ہے، کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کم و بیش 170ملین ڈالر کی لاگت سے تیار کیا جانے والا دنیا کا جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل مرکاوا ٹینک ( اسرائیلی ساختہ) ایک آر پی جی راکٹ سے تباہ ہو جائے۔ آگے لکھتے ہیں کہ محسوس یوں ہوتا ہے کہ کوئی پوشیدہ طاقت ان کے ساتھ ہے کہ دنیا کی مضبوط عسکری قوت کا حامل ملک اپنے اختتام کی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے !!! ایک قرآن، ایک نبیؐ کے ماننے والی امت کے ایک طبقہ پر قیامت صغریٰ کہ لاشیں بے گور و کفن، ہر گھر میں صف ماتم، کہ جنازے اٹھانے والے بھی تھک ہار چکے اور زمین شہدا کے خون سے رنگین، اشکوں کا سیل رواں اور ہر سو شام غریباں، تو دوسری طرف مسلم حکمرانوں کی بے حسی۔ اقتدار پر فائز طبقہ کی عیاشیاں اور چہروں کی رونقیں دیکھ کر محسوس ہی نہیں ہوتا کہ غزہ کے مسلمان ظلم اور کرب کا شکار ہیں۔ ایک طرف امت کا جسد واحد فالج زدہ ہو چکا تو دوسری طرف ہم اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی مغربی تنظیموں سے انصاف کی آس لگائے بیٹھے ہیں حالانکہ اقبال نے دہائیوں قبل آگاہ کر دیا تھا کہ
تیری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
یہودیوں کا جادو امریکہ سمیت بیشتر مغربی اور کچھ مسلم ممالک پر چل رہا ہے مگر اس پر کڑھنے کی بجائے اپنے اندر مقابلے کا جذبہ اور قوت پیدا کرنی چاہیے، ہر چند کہ طوفان الاقصیٰ، غزہ کے مظلوموں کی دہائی اور دنیا بھر کے ذی روح انسانوں کا ضمیر اسرائیل کو ٹھکانے لگا رہا ہے اور دنیا بھر کے عوام کا بیدار ہوتا ضمیر اسرائیلی وجود کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ سروں پر کفن باندھے حماس کے مجاہدین امت کی بے ضمیری کا قرض اپنے خون سے اتار رہے ہیں۔ بچوں کے لاشے، خواتین کی آہیں اور پیاس سے نڈھال زخمیوں کی آہیں تو مسلم ممالک کے حکمرانوں کا ضمیر نہ جھنجھوڑ سکیں مگر شاید ایشیا و یورپ میں لاکھوں کے احتجاج ہی مردہ او آئی سی کو طاقت فراہم کر سکے۔ اسرائیل کی بالا دستی اور آئرن ڈوم کا زعم تو حماس کے سربکف مجاہدین نے پہلے روز ہی توڑ دیا اور کم و بیش پانچ عشروں سے عربوں کے اذہان پہ نقش اسرائیلی بالادستی کا بت پاش پاش کر دیا اب تو یہودی سرمایہ دار بھی دھڑا دھڑ ملک چھوڑ کر دیگر ممالک میں جائے پناہ کی تلاش میں، مگر انسانوں کا بیدار ہوتا ضمیر ان کو کسی سمت چین نہیں لینے دے رہا اور ان ممالک کے عوام بلا تفریق قوم و مذہب ان کے ناپاک وجود کو اپنی سرزمین پر قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اسرائیلی جارحیت اور کھلی بربریت کی امریکی حمایت کے بعد کمزور ممالک بالخصوص عربوں کو جان اور مان لینا چاہیے کہ دنیا صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے۔ اقوام متحدہ طاقتور ممالک کی لونڈی اور غیر مسلم ناجائز ریاست کی پناہ گاہ جبکہ او آئی سی اپنی کمزوریوں کی وجہ سے اپنا وقار اور اعتماد کھو چکی ہے، نہ جانے عرب ممالک مادی آسودگی کے باوجود کیوں جدید علوم و فنون سے دور ہیں، وہ کیوں عسکری قوت نہیں بننا چاہتے، اس بات سے انکار نہیں کہ جذبہ ایمانی مسلمان کا زیور مگر عربوں کی عسکری پس ماندگی جارحیت مزاجوں کی عقل ٹھکانے لگانے میں رکاوٹ، ان حالات میں مسلم ممالک کی ذمہ داری کیا ہے اس کو جذباتیت کی بجائے زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر سمجھنا چاہیے۔ مسلم حکومتیں اسرائیل کا معاشی مناقطعہ کیوں نہیں کرتیں۔ مسلم ممالک کے مادی وسائل، اعلی دماغ، جفا کش افرادی قوت اور قدرت کی بے پناہ فیاضیاں یہ سب مشترکہ طور یا او آئی سی کے پلیٹ فارم سے کیوں مجتمع نہیں ہو پا رہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت کے حصول میں رکاوٹ کیا ہے، حکمران طبقات کی ذہنی پس ماندگی، کرپشن اور عیاشیاں شاید انہیں اس نہج پر سوچنے نہیں دیتی۔ کیا مسلم ممالک روز مرہ استعمال کی لا تعداد مصنوعات بین الاقوامی معیار کے مطابق متعارف کرا کے سات ارب سے زائد آبادی کو اپنی مارکیٹ نہیں بنا سکتے؟۔ صرف عسکری میدان میں مقابلہ ہی جہاد نہیں تعلیم و تربیت اور علوم و فنون کے ساتھ معاشی و صنعتی مسابقت بھی اسی زمرہ میں آتی ہے۔ غزہ کی موجودہ صورتحال پر جنگ زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد کا کہنا تھا کہ 75 سالہ قضیہ کا منصفانہ حل اقوام عالم کی ذمہ داری تھی مگر وہ اس میں بری طرح ناکام رہے۔ آج عزہ میں آتش و آہن کا بازار گرم، لاتعداد لاشیں تدفین، ہزاروں زخمی ادویات اور بچے خوراک کے منتظر ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ حالات ہماری سوچ سے بھی زیادہ گھمبیر کہ اسرائیل نے امدادی کارکنان کا بھی وہاں پہنچنا ناممکن بنا دیا ہے۔ اس سے قبل کہ انسانی المیہ جنم لے عالمی برادری کو غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے ٹھوس اور واضح موقف اختیار کرنا چاہیے کہ اقوام متحدہ اگر ایک ملک کی جارحیت کو نہیں روک سکتی تو اس تنظیم کا قیام بے سود ہی۔ نامور مذہبی سکالر و طالب اقبال ڈاکٹر علی وقار کا کہنا تھا کہ ہماری نوجوان نسل کو شاید نہیں معلوم کہ اسرائیلی پناہ گزین کی حیثیت سے ارض فلسطین پر آئے اور پھر ریشہ دوانیوں اور مسلم ممالک کی بے حمیتی کے باعث قابض ہو گئے۔ دوئم قومیت پرستی نے مسلم امہ کے وجود کو نقصان پہنچایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کم از کم وہ اور ان کا ملک محفوظ ہے۔ مسلمانوں کی اسی سوچ سے عراق، شام، لبنان، افعانستان اور فلسطین برباد ہوئے۔ عظمت رفتہ کے لیے مسلم حکمرانوں کو امت کے تصور پر آنا ہو گا۔ او ائی سی کو روایتی تنظیم کی بجائے نیٹو کی طرز پر عسکری اتحاد میں تبدیل اور تنظیم اپنی کرنسی میں تجارت کو فروغ دیکر اپنے وجود کو جائز ثابت کر سکتی ہے ۔ اس میں دو رائے نہیں اسرائیل کا قیام امت مسلمہ کے قلب میں خنجر کی طرح ہے۔ نظام مدارس شعبہ امتحانات کے ناظم معروف مذہبی سکالر پروفیسر عین الحق بغدادی نے ایک جملے میں اپنا اور قوم کا درد سمو دیا کہ رقبہ، آبادی کے لحاظ سے معمولی اور وجود کے اعتبار سے ناجائز ریاست بڑی بڑی مملکتوں کے سروں پر جوتے رسید کر رہی ہے۔ فلسطینی مسلمانوں بارے اقبال نے کیا خوب کہا
ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ کیوں حق نہیں اہل عرب کا
مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور
قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رطب کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button