ColumnNasir Naqvi

سموگ حملہ۔۔۔۔۔ خطرے کی گھنٹی

ناصر نقوی
پنجاب دارالحکومت لاہور ہی نہیں پورا پنجاب موسمی اثرات، تبدیلی اور آلودگی کے باعث سموگ کی لپیٹ میں ہے جس سے حکومت اور عوام دونوں پریشان ہیں۔ حکومتی دعویٰ تھا کہ وہ خصوصی اقدامات سے اس حملے کو ناکام بنا دے گی لیکن عوامی، صنعتی اور ٹریفک کی بے ضابطگیوں نے سموگ کو اس حد تک پروان چڑھایا کہ حکومت کو ایمرجنسی نافذ کر کے نہ صرف تعلیمی ادارے چار روز کے لیے بند کرنے پڑ گئے بلکہ بازار، ریسٹورنٹ، سینما گھر بند کر کے ٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے دفعہ 144کا نفاذ کرنا پڑا، نگران حکومت نے ’’ سموگ حملے‘‘ سے بچنے اور اس کے نقصانات کے ازالے کے لیے صنعتی علاقوں میں دھواں دار ایندھن استعمال کرنے، شہر کی پرانی دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو بھاری جرمانے کے ساتھ چالان بھی کئے۔ بڑی تعداد میں فیکٹریاں بھی سیل کی گئیں اور لاکھوں کروڑوں کے جرمانے بھی وصول کیے گئے لیکن تمام کوششیں ناکام اس لیے ہوئیں کہ عوامی سطح کا وہ تعاون اور ذمہ دارانہ رویہ نہیں مل سکا جس کی توقعات کی جا رہی تھی۔ لہٰذا زندہ دلوں کے شہر لاہور نے آلودہ ترین شہر ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا، اس اعزاز کے لیے دشمنوں نے بھی مدد کی لیکن اپنوں کا حصّہ بھی کم نہیں، ازلی دشمن بھارت میں پاکستان کے مقابلے میں چار گنا زائد فصلوں کی باقیات کو جلایا گیا جس کے دھویں نے آزادی سے پاکستانی سرحد عبور کر کے ہمارے سرحدی علاقوں کو گھیر لیا، چونکہ پنجاب ہمارا ہو کہ بھارت کا، دونوں جانب زرعی سرگرمیاں دوسری علاقوں سے بہت زیادہ ہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ ’’ دھویں‘‘ کو سرحد پار کرنے کے لیے ویزا نہیں لینا پڑتا ہے اور نہ ہی اس پر کسی قسم کی پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ ہوا کے دوش پر اس کا سفر ہوتا ہے۔ یوں رکاوٹ بھی ناممکن، پھر سوچنا ہو گا کہ ممکنات میں کیا کچھ ہو سکتا ہے اس لیے کہ دنیا بھر کی موسمی تبدیلیوں کے موجودہ دور میں سب سے زیادہ متاثر ’’ پاکستان‘‘ ہی ہوا ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے امن و چین سے نہ صرف خود رہنا چاہتا ہے بلکہ اپنے ہمسائے اور خطے کو بھی پُرامن دیکھنے کا خواہشمند ہے لیکن بھارت اور بھارتی حکومتوں کی سوچ ہمیشہ منفی رہی، حالانکہ مسئلہ پاک بھارت دونوں کا مشترکہ ہے چونکہ پاک بھارت تعلقات میں زیادہ تر سرد مہری پائی جاتی ہے اس لیے مل کر کوئی کام کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ’’ لمحہ موجود‘‘ میں سموگ ایک ایسا حملہ آور دشمن بن گئی ہے جس نے زندہ رہنے کے لیے سانس لینا بھی مشکل بنا دی ہے۔ یوں پورے پنجاب میں سانس اور امراض چشم کے مسائل کھڑے ہوگئے ہیں جبکہ لاہور سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ وجہ ایک ہی ہے کہ یہ سنجیدہ مسئلہ محض بیان بازی یا حکومتی اقدامات سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عوامی آگاہی سے تعاون حاصل کیا جائی۔ وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے سموگ کے آغاز سے پہلے ہی اقدام کرنے کے لیے ’’ ریڈ الرٹ‘‘ جاری کر دیا تھا۔ لیکن جس قدر بھی انتظامات کئے گئے ان سے مثبت نتائج نہیں نکل سکے۔ مسئلہ اجتماعی مفادات کا ہے، اس لیے ازالہ بھی اجتماعی سوچ اور مشترکہ کارروائی سے کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت لاہورکا ایئر کوالٹی انڈیکس 383ریکارڈ کیا گیا ہے جبکہ دنیا بھر کے آلودہ ترین شہروں میں بھارتی دارالحکومت دہلی کا دوسرا نمبر ہے لیکن تیسرا شہر ہمارا ہی کراچی ہے۔ جس کا ایئر کوالٹی انڈیکس 191ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں آلودہ شہروں میں لاہور اور کراچی ہی کبھی اوّل کبھی دوئم ہوتے رہتے ہیں کیونکہ ان دونوں شہروں میں صنعتی زون یعنی فیکٹریاں زیادہ ہیں۔ بلکہ آبادی کے باعث ٹریفک بھی بہت زیادہ ہے۔ اسی لیے محسن نقوی نے ماحول دوست بسوں کا استعمال پنجاب کے بڑے شہروں میں کرنے کے لیے خصوصی منصوبہ ’’ لانچ‘‘ کر دیا ہے۔ یقینا اسی طرح کے مختلف پراجیکٹ کراچی اور دوسرے اہم شہروں میں بھی شروع ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ لاہور شہر آلودہ ترین ہونے کے باوجود اس قدر بیماریوں کی زد میں نہیں آیا جس قدر پنجاب کے شہر سرگودھا کے شہری متاثر ہوئے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ وہاں کے شہریوں میں قوت مدافعت کم ہے کیونکہ سرگودھا میں دمہ، سانس، گلے اور پھیپڑوں کے مریضوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس صورت حال کو محفوظ بنانے کے لیے بھی منصوبہ بندی کرنی ہو گی۔
حکومت پنجاب اور وزارت صحت نے آگاہی مہم کے ذریعے شہریوں کو ایک مرتبہ پھر ماسک کے استعمال کی ہدایت کر دی ہے بلکہ یہ بھی تاکید کی جا رہی ہے کہ سموگ حملے کے اثرات سے بچنے کے لیے سبزیوں اور پھلوں کا استعمال بغیر دھوئے نہ کریں اور پینے کا پانی ابال کر استعمال کریں۔ اس تاکید اور آگاہی کا مقصد اس بات کی یقین دہانی کرانا ہے کہ نومبر سے فروری تک سردی کے باعث درجہ حرارت گرنے سے نزلہ، زکام کی علامات ظاہر ہو جاتی ہیں۔ اس لیے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار رہیں کیونکہ سموگ ایسے خطرے کی گھنٹی ہے جس کا مطلب ہے کہ موسمی تبدیلی میں کوئی شخص بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق اس موسمی تبدیلی میں امراض قلب، سانس ،دمے اور شوگر کے مریضوں کے ساتھ ساتھ بزرگوں اور بچوں کا خاص طور پر خیال رکھا جائے کیونکہ آلودگی سے بچے اور بوڑھے زیادہ متاثر ہوتے ہیں کیونکہ ان میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے۔
سموگ اور آلودگی کا مسئلہ دنیا بھر کے لیے خاصا گھمبیر ہے، تاہم پاکستان اور بھارت جیسے ترقی پذیر زیادہ آبادی والے ممالک کے لیے مشکلات زیادہ ہیں اس کے ازالے کے لیے ماحول کو انسان دوست بنانا ہو گا اس مصیبت کا مستقل حل زیادہ سے زیادہ شجر کاری ہے لیکن صرف درختوں سے بھی مثبت نتائج اسی وقت حاصل کئے جا سکیں گے جب ماحول میں بنیادی تبدیلیوں کی اقدامات پر سختی سے عمل ہو گا۔ دونوں ممالک میں فصلو ں کی باقیات سے اس طرح فائدہ نہیں اٹھایا جاتا جس طرح یورپ اور دیگر ممالک میں اٹھایا جاتا ہے لہٰذا فصلوں کو جلانا ایک معمول کا کام سمجھا جاتا ہے حالانکہ ماحول کی بہتری کے لیے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر پابندی کی ضرورت بھی ہے اسی طرح فیکٹریوں سے خارج ہونے والے دھویں کا تدارک اور دھواں بنانے والے ایندھن کا استعمال بھی کم از کم کرنا ہو گا اگر پاک بھارت حکومتیں اس اہم مسئلے پر مشترکہ لائحہ عمل بنانے کے لیے اکٹھا نہ بیٹھ سکیں تو اس کا مطلب ’’ خودکشی‘‘ کرنا ہو گا۔ ترقی پذیر ممالک میں مختلف شعبوں کی طرح ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے بھی ایسا تحقیقاتی کام نہیں کیا جا رہا جیسا ترقی یافتہ ملکوں کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ وجوہات وسائل کی کمی بلکہ ’’ تھنک ٹینک‘‘ کا رجحان نہ ہونا ہے ہم تو اس حوالے سے تحقیق اور قومی تجویز کے سلسلے میں انتہائی کمزور ہیں حالانکہ قوموں کی ترقی میں تحقیق اور اس سے حاصل کردہ نتائج ہی اہم ترین ہوتے ہیں لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم دوسرو ں کی تحقیق سے بھی استفادہ حاصل کرنے کا جذبہ نہیں رکھتے۔ ہمارے ذمہ دار اور حکومتیں ’’ ڈنگ ٹپائو‘‘ پالیسی کی عادی ہیں اسی لیے عالمی سطح پر بھی ماحولیاتی آلودگی اور موسمی تبدیلی کا ڈھنڈورا ہمیں کچھ نہیں سکھا سکا اور ہم سب سے زیادہ مالی اور جانی نقصان میں پھنس گئے۔ تنقید کی جائے تو جواب میں محدود وسائل اور اَن گنت مسائل کا بہانا بنایا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں موسمی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کی نشاندہی اور ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے راستے تلاش کیے جا رہے ہیں کیونکہ نظام قدرت اور انسانی کوتاہیوں سے انسان اور انسانی زندگی کی بقاء کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ کنگز کالج لندن کی تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی سے متاثرہ علاقوں میں اعصابی نظام سانس، دل کی شریانوں اور ذہنی امراض یعنی ڈیپریشن کے خطرات بڑھ جاتے ہیں جس سے نہ صرف انسانی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں بلکہ معاشی معاملات پر بھی بھاری اثر پڑتا ہے یہی نہیں تحقیق میں یہ بات بھی پتہ چلی ہے کہ فضائی آلودگی کی شرح جن علاقوں میں زیادہ پائی جاتی ہے وہاں طویل المعیاد امراض بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اگر اس سلسلے میں ماضی کا جائزہ لیا جائے تو صرف دو سال قبل عالمی ادارہ صحت نے اس خدشے کا اظہار کر دیا تھا کہ فضائی آلودگی انسانی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے اور اس سے سالانہ 70لاکھ انسانی جانیں وقت سے پہلے موت کی وادی میں چلی جائیں گی لہٰذا وقت کی ضرورت ہے کہ فوری طور پر مثبت اقدامات سے انسانی جانوں کو محفوظ بنایا جائے۔ پاکستان میں عام طور پر دسمبر سے فروری تک موسمی تبدیلی سے نزلہ، زکام کے مریضو میں اضافہ ہوتا ہے لیکن اس سال فضائی آلودگی کی زیادتی سے یہ سلسلہ نومبر سے شروع ہو چکا ہے حکومتی اقدامات اور ہدایات اپنی جگہ ، عام لوگوں کو بھی احتیاطی تدابیر کی آگاہی میں مہم چلانی ہو گی کیونکہ اس اجتماعی مسئلے کا حل بھی مشترکہ کوششوں سے ہی نکالا جاتا سکتا ہے اس لیے کہ ہمارے وسائل یقینا محدود اور مسائل لامحدود ہیں اس موسم میں ہر فرد اور ہر خاندان کو اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے خصوصی طور پر بزرگوں اور بچوں کا خیال رکھنا ہو گا جبکہ حکومتی سطح پر بھی فضائی آلودگی کے سدباب کے لیے نہ صرف نئے اقدامات کرنے ہوں گے بلکہ ان پر عمل درآمد کے لیے منصوبہ بندی کی بھی اشد ضرورت ہے اسی طرح پاک بھارت حکمرانوں کو بھی اپنے شہریوں کو اس مشکل اور دائمی امراض سے چھٹکارا دلانے کے لیے سرجوڑ کر بیٹھنا ہو گا کب، کیسے؟ اس کا فیصلہ بھی ریاستی حوالے سے انسانی مفاد میں کرنا ہو گا ورنہ آنے والے وقت میںحالات مزید بگڑیں گے اور سنجیدہ اقدامات کے باوجود مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا یہ کام اگر چند سال پہلے عالمی ادارہ کی نشاندہی پر کر لیا جاتا تو آج دونوں ممالک میں شہریوں کی زندگیوں سے کھلواڑ نہ ہوتا، لیکن ابھی بھی وقت ہے۔ آئندہ نسلوں کو صاف و شفاف فضا دینے اور آلودگی سے جان چھڑانے کے لیے برصغیر میں واضح حکمت عملی مشترکہ طور پر بننی چاہیے کیونکہ یہ انسان، انسانیت اور پاکستان بھارت کا مشترکہ مسئلہ ہے اس سے آنکھیں چرانا کسی قومی جرم اور انسان دشمنی سے کم ہرگز نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button