ColumnHabib Ullah Qamar

گجرات فسادات سے متعلق ہولناک انکشافات

حبیب اللہ قمر
بھارتی شہر احمد آباد گجرات میں ہونے والے فسادات کو اکیس برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ اس کیلئے کتنی ہی قانونی لڑائیاں لڑی گئیں، ہزاروں متاثرین حصول انصاف کی خاطر در در کی ٹھوکریں کھا کر خاموش ہو کر بیٹھ گئے لیکن گجرات کی سابق وزیر مایا کوڈ نانی سمیت بڑے بڑے سیاستدان اور پولیس افسر جو فسادات کے اصل منصوبہ ساز تھے اس وقت آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں اور دندناتے پھر رہے ہیں لیکن کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ممکن بنانے کیلئے قانون کو توڑا مروڑا گیا اور جن ہاتھوں میں نظم و نسق کی ذمہ داری تھی سیاسی آقاں نے انہیں ہی یہ ذمہ داری سونپ دی کہ نہتے مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث دہشت گردوں کو بچانے کیلئے جس طرح چاہیں قانون سے کھلواڑ کریں اور اس کی دھجیاں اڑائیں۔ جن دنوں گجرات میں فسادات ہو رہے تھے آر بی سری کمار گجرات میں ڈائریکٹر جنرل پولیس کی ذمہ داری نبھا رہے تھے اور خفیہ محکمہ کے سربراہ تھے۔ جب انہوںنے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ یہ فسادات منظم منصوبہ بندی کے تحت کروائے جارہے ہیں، سرکاری مشینری استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے اور سیاستدان، سرکاری افسران اور پولیس عہدیداران سبھی گجرات کی نریندر مودی حکومت کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں تو انہوںنے اس پر مضبوط آواز بلند کی اور ریاستی وزیر اعلیٰ کو للکارتے ہوئے فسادیوں کو بے نقاب کرنے کی مہم شروع کی جس پر انہیں انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا، ان کیخلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور تبادلوں کی اذیت سے گزرنا پڑا تاہم وہ حق اور سچ بیان کرنے سے باز نہیں آئے اور آج تک گجرات فسادات کے حوالہ سے قانونی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ آر بی سری کمار نے اس سلسلہ میں انگریزی میں Gujrat Behind The Curtainکے نام سے ایک کتاب بھی لکھی جس کا اردو ترجمہ ’’ پس پردہ گجرات‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس میں انہوںنے گجرات فسادات سے متعلق تمام حقائق بیان کئے اور لکھا کہ جس طرح انہوںنے مسلمانوں کا سفاکانہ انداز میں قتل عام اور دلخراش واقعات دیکھے اسی وقت میں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اس تشدد اور خون ریزی کے بارے میں بی جے پی حکومت کو گھنانے کردار کو ضرور بے نقاب کروں گا۔ گجرات فسادات کے حوالہ سے یہ رپورٹیں بھی ذرائع ابلاغ کی زینت بن چکی ہیں کہ مسلمانوں کے قتل عام میں جن سرکاری افسروں نے مودی حکومت کا ساتھ دیا انہیں بعد ازاں اہم عہدوں سے نوازا گیا اور ایوارڈ دے کر مظلوم مسلمانوں کی بے بسی کا مذاق اڑایا جاتا رہا جبکہ دوسری جانب ان فسادات میں ریاستی حکومت کے مجرمانہ کردار کی شہادت جن تین آئی پی ایس افسران آر بی سری کمار، راہل شرما اور سنجیو بھٹ نے کھل کر دی تھی انہیں زبردست انتقامی کارروائیوں کا سامنا رہا ہے ۔
بھارت میں مسلم کش فسادات کی آگ بھڑکانا اور ہندو انتہاپسندی کا سلسلہ نیا نہیں ہے۔ اگر ہم ماضی کا جائزہ لیں تو انڈیا میں ہندو انتہا پسندی نے 1926ء میں اس وقت زور پکڑنا شروع کیا جب آر ایس ایس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب آزادی کی چنگاریاں شعلہ بن کر ہندوستانی مسلمانوں کو جذبہ جہاد سے سرشار کر رہی تھیں اور مسلمان خصوصاً علمائے کرام برطانوی سامراج کے خلاف سینہ سپر ہوکر انگریزوں کی گولیوں کا نشانہ بن رہے تھے تو ایسے نازک وقت میں اسلامی شناخت کی سرکوبی، مسلم مائوں، بہنوں کی عصمتیں پامال کرنے اور برطانوی اقتدار کی خاطر مسلمانوں کے قتل و خون کا نظریہ پروان چڑھایا گیا۔ یہی وہ دور تھا جب بھگوا جھنڈا بنانے کے بعد ترانہ تیار کیا گیا اور ملیچھ ، زانی، غیرملکی اور ڈاکوسے تشبیہ دیکر مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کرنے کا آغاز کیا گیا۔ 1934ء میں اسی آر ایس ایس نے گاندھی کے خلاف ملک گیر تحریک چلائی اور تیس ہزار تنخواہ دار فوجیوں کی ایک خونی جماعت پی ایس پی کے نام سے تشکیل دی جس کے اہلکاروں نے ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔1985ء اور1986ء میں علی گڑھ کی مائوں، بہنوں کی عصمتوں کو تار تار کیا گیا۔1987ء میں ملیانہ اور 1989ء میں قتل عام کے دوران بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ 1992ء میں مسلمانوں کی عظمت کی نشانی چارسو سالہ پرانی بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا۔ اسی طرح2002ء میں گجرات فسادات کے دوران ہزاروں ماں ، بہنوں اور بیٹیوں کواپنی ہوس کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، مالیگائوں، مکہ مسجد، ناندیڑ، ممبئی ٹرین دھماکوں اور سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس میں ہندو انتہا پسند تنظیمیں ملوث رہیں اور پھر مظفر نگر میں بدترین مسلم کش فسادات کا سانحہ بھی پیش آیا جس میں بیسیوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ بھارتی پولیس، آئی بی، سی بی آئی اور دیگر تحقیقاتی ایجنسیاں اور ادارے جنہوں نے حالات کو کنٹرول کرنا اور امن و امان برقرار رکھنا ہوتا ہے ان میں بھی بڑی تعداد میں ہندو انتہا پسندانہ ذہنیت کے لوگوں کی بھرمار ہے جس کی وجہ سے نہ تو وہ صحیح رپورٹیں پیش کرتے ہیں اور نا ہی مسلمانوں کے تحفظ کیلئے خاطر خواہ انتظامات کئے جاتے ہیں۔
بھارتی حکومت، خفیہ ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ہندو انتہا پسندوں کی موجودگی کی وجہ سے ہی ہندوستان میں مسلم کش فسادات آج تک رک نہیں سکے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ مسلم نوجوان جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں کوئی ان کی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سالہا سال تک ان کی ضمانتیں نہیں ہوتیں اور دوسری طرف کرنل پروہت جیسے دہشت گردوں کو جیل میں بھی حاضر سروس سمجھتے ہوئے تنخواہیں دی جاتی رہی ہیں اور اگر بی جے پی لیڈر کسی کیس میں تحقیقات کے دوران بے نقاب ہو بھی جائیں تو چارج شیٹ بد ل دی جاتی ہے اور اصل مجرموں کا نام ہی اس میں سے نکال دیا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں مسلم کش فسادات کیسے رک سکتے ہیں؟ آپ دیکھ لیں بابری مسجد سانحہ میں ملوث تمام مجرموں کو کس طرح کلین چٹ دے دی گئی ہے؟ جب ہندوستانی عدالتیں ایسے فیصلے دیں گی تو پھر لازمی بات ہے ہندو انتہا پسند مسلمانوں کے قتل عام سے کیونکر باز آئیں گے۔ بھارتی ایجنسیوں اور پولیس کے کردار سے متعلق ہندوستانی جنرل ضمیر الدین شاہ نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں بھارتی اداروں کے گھنائونے کردار کو بخوبی بے نقاب کیا گیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ بھارتی فورسز اہلکار فسادات کے دوران ان علاقوں میں ہندو انتہا پسندوں کا ساتھ دیتے رہے جہاں وہ مسلمانوں کا گھیرائو کر کے ان کا قتل کر رہے تھے۔ اگر کسی جگہ انہوںنے اپنے تئیں کچھ ’’ رحم دلی‘‘ کا مظاہرہ کیا بھی تو یہ کہ وہ محض خاموش تماشائی بن کر کھڑے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ہم احمد آباد شہر کے اوپر پرواز کر رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ پورے شہر میں جگہ جگہ آگ لگی ہوئی ہے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ جب ہم پہنچیں گے تو ہمیں گاڑیاں، مجسٹریٹ، پولیس گائیڈ اور سیل فون ملیں گے لیکن وہاں ہمارے ایک بریگیڈئیر کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔
جنرل ( ر) ضمیر الدین شاہ کہتے ہیں کہ ان کی زیر نگرانی بھارتی فوج نے سہولیات ملنے کے بعد صورتحال پر جلد کنٹرول کر لیا تھا تاہم اگر یہ سب کچھ انہیں پہلے مل جاتا تو سیکڑوں مسلمانوں کی جان بچائی جاسکتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ سرکاری سرپرستی تھی جس کی وجہ سے احمد آباد گجرات میں ہزاروں مسلمان تہہ تیغ کر دئیے گئے۔ اس وقت بھی جب سے بھارت میں نریندر مودی کی حکومت برسراقتدار آئی ہے مسلم کش فسادات میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور آر ایس ایس، وشواہندو پریشد، بجرنگ دل اور ابھینو بھارت جیسی ہندو انتہا پسند تنظیموں کو کھل کھیلنے کے مواقع مل گئے ہیں۔ کبھی بابری مسجد کی طرح دیگر تاریخی مساجد شہید کرنے کے اعلانات کئے جاتے ہیں، قرآن پا ک کی بے حرمتی ، شان رسالت ؐ میں گستاخیاں کی جاتی ہیں تو کبھی گائے ذبیحہ کے نام پر جگہ جگہ مسلم کش فسادات پروان چڑھانے کی کوششیں کی جاتی ہیں لیکن اس سے بھارتی مسلمانوں میں تیزی سے بیداری کی لہر پیدا ہو رہی ہے اور وہ یہ بات سوچنے پر مجبور ہور ہے ہیں کہ جب حکومت کی طرح ہندوستانی عدالتیں بھی مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہیں تو پھر ان کیلئے بھی قربانیوں و شہادتوں کا راستہ اختیار کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔ ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے آئے دن ڈھائے جانے والے بدترین مظالم سے ایک بار پھر بھارتی مسلمانوں میں دو قومی نظریہ بیدا ہورہا ہے۔ ہندو انتہا پسند اگر اپنی مذموم حرکتوں سے باز نہ آئے تو وہ وقت دور نہیں جب بھارت کو اپنی سرزمین پر ایک مرتبہ پھر سے قیام پاکستان جیسی صورتحال سے دوچار ہونا پڑے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button