ColumnImtiaz Aasi

انتخابات منصفانہ ہو ں گے؟

امتیاز عاصی
عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی سیاسی جماعتوں نے انتخابی اتحاد کے لئے سر جوڑنا شروع کر دیئے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس امر کی شائد ہے سیاسی جماعتوں میں اتحاد کئے بغیر کسی ایک جماعت کا اقتدار میں آنا مشکل ہے۔ البتہ ذوالفقار علی بھٹو نے چاروں صوبوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم کی۔ بلوچستان میں نیب کی حکومت کے خاتمے کے بعد نواب اکبر خان بگٹی کے تعاون سے پیپلز پارٹی کی صوبے میں اکثریت سے حکومت قائم ہوئی۔ آصف علی زرداری پنجاب میں قدم مضبوط کرنے کی خاطر جنوبی پنجاب میں جوڑ توڑ پر لگے ہیں جبکہ سندھ میں مسلم لیگ نون اور ایم کیو ایم یکجا ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی اقتدار میں آنے کے بعد بمشکل ساڑھے تین سال اقتدار میں رہنے کے بعد عدم اعتماد کا شکار ہوئی اور عمران خان کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ عمران خان نے وزارت عظمیٰ سے ہٹنے کے بعد جو کھیل کھیلا اسے شہرت کی بلندیوں پر لے گیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ اسے پرواز کرنے کو کہا گیا تھا پر کاٹ دیئے گے تھے اس نے کچھ زیادہ ہی توقعات لگالی تھیں۔ وہ سائفر تک محدود رہتا تو بات بن سکتی تھی۔ عمران خان کے وہ ساتھی جو ہمہ وقت ساتھ رہنے کا دم بھرتے تھے اسے چھوڑ گئے۔یہ علیحدہ بات ہے پی ٹی آئی کا ووٹ بنک بدستور موجود ہے بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا ہوگا پر تحریک انصاف کو لیڈ کرنے والا قید خانے میں ہے۔ سیاسی رہنمائوں کو ساتھ رہنے سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔ نواز شریف کے ساتھ جو لوگ ہیں وہ ایسے نہیں ہیں انہیں اس بات کی قومی امید تھی اسے وطن واپس لایا جائے گا ۔عمران خان کو امید تھی میاں نواز شریف کبھی وطن واپس نہیں لوٹے گا۔ نواز شریف کو سیاست کرتے عشرے ہو چکے ہیں سیاست میں قدم رکھنے کے تھوڑے عرصے بعد اسے وزارت مل گئی ۔ رفتہ رفتہ اس نے سیاسی میدان میں ایسے قدم جمائے وہ وزارت اعلیٰ سے وزارت عظمیٰ تک پہنچ گیا۔ جب کبھی مشکل وقت آیا وہ اپنی سیاسی حکمت عملی کے بل بوتے پر ملک چھوڑ گیا۔ عربوں سے اس نے ایسے تعلقات استوار کئے جنہوں نے اسے اپنا مہمان بنا لیا۔ میاں نواز شریف نے دائرے میں رہتے ہوئے اداروں سے کھنچاتانی کی وہ اس حد تک نہیں گیا کہ واپسی کا کوئی راستہ نہ رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عوام کا مقبول ترین لیڈر ہونے کے باوجود عمران خان نے اقتدار میں واپسی کے سارے راستے بند کر لئے ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کسی سیاسی جماعت کی اتنی زیادہ خواتین جیلوں میں ہیں یا اس جماعت کے رہنمائوں اور ورکرز کو خصوصی اور فوجی عدالتوں کا سامنا ہے۔ آخر یہ سب کچھ کیوں ہوا۔ یہ سب عمران خان اور اس کے بعض طالع آزمائوں ساتھیوں کی سیاسی نا پختگی کا ثمر ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ اور لیول پلینگ فیلڈ کے خدشات سے اس بات کا قومی امکان ہے آنے والے انتخابات متنازعہ رہیں گئے۔ سیاسی جماعتوں کو اقتدار کے ساتھ ملکی سالمیت پیش نظر رکھنا چاہیے ملک ہے تو ہم ہیں پھر بعض اداروں کو تختہ مشق بنا لینا اچھی بات نہیں۔ سیاست دانوں کو یہ بات ذہین نشین رکھنی چاہیے سیاسی عمل میں اداروں کا عمل دخل کرانے والے سیاست دان ہیں۔ جنرل ضیاء الحق شہید نے مارشل لاء لگایا تو ایئر مارشل اصغر خان اور بعض دوسرے سیاست دانوں نے انہیں مداخلت کے لئے خطوط تحریر کئے تھے۔ لوگ بہت جلد ماضی کو بھلا دیتے ہیں حالانکہ ماضی تو مستقبل کے ساتھ چلتا ہے۔ ایک بات ضرور ہے اس بار سیاست دانوں میں زبردست رن پڑے گا۔ آصف علی زرداری جنہیں سیاست میں جوڑ توڑ کا بادشاہ کہا جاتا ہے کی اصل سیاست کا وقت گیا ہے۔ وہ پنجاب میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتے گاڑتے اپنے صوبے سے آئوٹ نہ ہو جائیں ۔ طالع آزماء ساتھیوں کی علیحدگی کی بعد وکلاء کو پارٹی ٹکٹ دینے کا عمران خان کا فیصلہ احسن اقدام ہے جس سے ایوان میں پی ٹی آئی ا رکان کی تعداد حوصلہ فزاء ہونے کی امید کی جاسکتی ہے ۔ سیاست
تو اسے کہتے ہیں ایک کے بعد دوسرا وزارت عظمیٰ کا منصب پانے کی امید لئے وطن لوٹا ہے۔ عوام کی خدمت کا دعوی کرنے والوں نے سترہ ماہ کے اقتدار میں عوام کے ساتھ جو کیا وہ ہماری سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ مہنگائی کم کرتے کرتے اپنے مقدمات ختم کرکے چلتے بنے۔ اب عوام کو خوشحالی کے نئے خواب دکھائے جا رہے ہیں۔ ہم عمران خان کو ناتجربہ کار اور ناکام سیاست دان تصور کرتے ہیں البتہ اس کام میں وہ بازی لے گیا۔ غریب عوام کے ذہن ایسے بدلے ہیں روایتی سیاست دانوں کو جان کے لالے پڑے ہیں بلکہ یوں کہئے انہیں الیکشن لڑنے کا حوصلہ نہیں ہو پا رہا ہے۔ الیکشن کی تاریخ آ چکی ہے اب الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول کا اعلان کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے اس وقت ملک کو سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے باعث غیر ملکی سرمایہ کار رک گئی ہے۔ ملک کے ساتھ بڑے بڑے ادارے مالی مسائل کا شکار ہو چکے ہیں۔ پی آئی اے جیسا ادارہ مفلوج ہو گیا ہے۔ ملک کی معاشی حالت کا یہ عالم ہے ہوائی اڈوں کو آئوٹ سورس کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ سیاسی حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کا کیا دھرا ہے۔ انتخابات میں عوامی رائے کا احترام نہ کیا گیا تو ہمارا ملک ایک مرتبہ پھر عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا لہذا سمجھ داروں کو سوچ سمجھ کر قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ آزمائوں کو بار بار آزمانے سے ملک کے مسائل حل نہیں ہوں گے، ہمارا ملک جو پہلے ہی معاشی مسائل سے دوچار ہے کہیں ایسا نہ ہو معاملات ہاتھ سے نکل جائیں لہذا ملک و قوم کی بقاء اسی میں ہے انتخابات کو ہر حال میں منصفانہ بنایا جائے۔ نظریہ ضرورت کے تحت وجود میں آنے والی جماعتوں کو اخبارات میں امیدواروں کے لئے اشتہار دینے پڑتے ہیں۔ صدر مملکت کا نگران وزیراعظم کے نام مراسلے میں سیاسی وابستگیاں اور وفاداریوں کے بدلنے پر تشویش کا اظہار اس امر کا غماز ہے آنے والے انتخابات انتخابات متنازعہ رہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button