Ali HassanColumn

انتخابات کا قومی کھیل

علی حسن
جیسے بچے بچپن میں کھیل کود میں مشغول رہ کر اپنا وقت گزارتے ہیں اور وہ لوگ جن کے گھروں میں دانے وافر ہوتے ہیں، اپنے وقت کو گزارنے کے لئے کوئی نہ کوئی شوق اختیار کرتے ہیں، مشغلہ اپناتے ہیں اسی طرح پاکستان میں سیاستدانوں کی اکثریت مشغلہ کے طور پر سیاست کو اپناتے ہیں حالانکہ سیاست کے مضمون کی الف ب سے بھی انہیں واقفیت نہیں ہوتی ہے۔ امور مملکت کی ابجد سے بھی انہیں واقفیت نہیں ہوتی ہے، حد تو یہ ہے کہ اکثریت نے آئین پاکستان کو مطالعہ بھی نہیں کیا ہوتا ہے، لیکن کیا کیجئے، وہ سیاست کا شوق اس لئے رکھتے ہیں کہ گھر میں دانے بہت، وقت وافر۔ ایسے لوگوں کی سیاست شوق اور اس شوق کا میدان انتخابات ہوتے ہیں۔ پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ لوگ میدان میں کود پڑیں گے۔ نئی نئی صف بندی ہو رہی ہے۔ نئے نئے حلقوں میں تعارف اور تعلق بڑھایا جا رہا ہے۔
آصف علی زرداری اپنے پورے زور و شور سے سرگرم ہیں۔ انہوں نے تو یہ اعلانات بھی کر دئیے ہیں کہ وہ لاہور سے وزیر اعظم منتخب نہیں ہونے دیں گے۔ یہ بھی کہا گیا کہ نواز شریف وزیر اعظم نہیں ہوں گے۔ انہوں نے ضلع گھوٹکی میں مہر قبیلہ کے سردار کے گھر پر جلسہ کیا۔ ن لیگ نے ضلع ہالہ کے مخدوموں کے علاقے میں سیاسی پیادوں سے چال چلی ہے۔ جہاں سے پولس کے ایک ریٹائرڈ افسر بشیر میمن کو سندھ ن لیگ کا صدر نامزد کیا گیا ہے۔ صدر کے عہدے پر مقرر پرانے سیاست داں شاہ محمد شاہ کو صوبائی صدارت سے ہٹا کر مرکز میں نائب صدر نامزد کر دیا گیا ہے۔ ن لیگ سمجھتی ہے کہ بشیر میمن ہالہ میں مخدوموں کا مقابلہ کر سکیں گے اور صوبہ میں ن لیگ کو منظم کر سکیں گے۔ بشیر میمن محکمہ پولس میں کامیاب شہرت رکھنے والے افسر ضرور تھے، ایف آئی اے میں اس وقت سربراہ تھے جب نواز شریف کے خلاف پانامہ کے معاملات کی انکوائری ہو رہی تھی اور جو رپورٹ تیار کی گئی تھی اسے سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا تھا، جس کی بنیاد پر نواز شریف کے خلاف فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں دسویں جلد اس وقت کھولی نہیں گئی تھی، اسے بعد میں کھولنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ بشیر میمن اس بیان کے بعد کہ انہیں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے نواز شریف کے خلاف مقدمہ سازی کی ہدایت کی تھی لیکن انہوں نے ہدایت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ بشیر میمن کا یہ بیان انہیں ن لیگ کے شریف خاندان کی آنکھوں کو تارا بنا گیا۔ نواز شریف کی چار سالہ خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے واپس آنے کے وقت بشیر کو نواز شریف کا خیر مقدم کرنے والی کمیٹی کا سربراہ نامزد کیا گیا۔ خیر مقدم کا انتظام ضرور کیا گیا لیکن وہ کوئی بہت زیادہ کامیاب نہیں رہا۔
ہالہ میں درگاہ کے گدی نشین مخدوم خاندان سن پچاس کی دہائی سے منتخب ایوانوں میں ہالہ کی نمائندگی کرتے آئے ہیں۔ مخدوم محمد زمان طالب المولی کئی مرتبہ صوبائی اور قومی اسمبلی میں نمائندگی کرتے رہے تھے۔ ان کی زندگی میں ہی ان کے بڑے صاحبزادے امین فہیم بھی سیاست میں اپنے والد کے جان نشین بن گئے تھے۔ اور والد کے انتقال کے بعد گدی نشین بھی مقرر ہوئے اور سیاست کی گدی پر بھی ان کے جانشین بن گئے۔ امین فہیم کے ساتھ ساتھ مخدوموں نے ضلع ہالہ کی تمام نشستوں پر بھائیوں کر مقرر کر دیا اور وہ منتخب ہونے لگے۔ گزشتہ ایوانوں میں قومی اسمبلی میں امین فہیم کے بڑے بیٹے جمیل الزمان قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ایک بھائی سعید الزمان، دوسری پر رفیق الزمان منتخب ہوئے تھے۔ ہالہ ضلع کے بلدیاتی اداروں پر بھی مخدوم برادران کا قبضہ ہے۔
مخدوم امین فہیم کو اپنی زندگی کے آخری انتخاب میں ہالہ کی کاروباری شخصیت عبدالرزاق میمن سے پالا پڑ گیا تھا ۔ رزاق کا تعلق میمن برادری تھا۔ میمن ہالہ میں تما م کاروبار پر چھائے ہوئے ہیں۔ مخدوم فہیم کو انتخاب میں مشکل پیش آئی اور وہ بہت ہی محدود ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہو سکے تھے۔ رزاق نے نتائج کو چیلنج کر دیا تھا اور امین فہیم کو الیکشن ٹربیونل میں فیصلہ اپنے حق میں حاصل کر نے کے لئے پاپڑ بیلنا پڑے تھے۔ بشیر اور رزاق ایک ہی میمن برادری سے تعلق ضرور رکھتے ہیں لیکن رزاق سیاست میں طاق تھے۔ بشیر ان کے مقابلہ میں سیاسی دائو پیچ سے واقف نہیں ہیں۔ بشیر پولس ملازمت کرتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ کاروبار بھی کرتے رہے۔ دور سے سیاست کا شوق بھی رکھتے رہے لیکن دیہی سندھ کی سیاست میں پیسے میں برتری بھی طاقت میں شمار ہوتی ہے۔ مخدوم حالانکہ سیاست اپنی جیب سے نہیں کرتے ہیں۔ اپنے مریدوں پر اکتفا کرتے ہیں اور مرید مرشد کی عزت بچانے کے لئے پیسہ لگاتے رہے ہیں۔ اپنے گزشتہ رکنیت کے دور میں مخدوم برادران کو موٹر وے کی تعمیر کے سلسلے میں آئی ہوئی سرکاری رقم میں خورد برد کے الزامات کی رسوائی بھی سہنا پڑی لیکن وہ الزامات اب تک سرکاری فائلوں میں ہی دفن ہیں، عدالتوں کے کمروں کی ہوا انہیں نہیں دکھائی گئی ہے۔ لیکن ان الزامات سے ان کے مریدوں پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ مرید تو یقین رکھتے ہیں کہ مرشد کچھ غلط نہیں کر سکتا ہے۔ بہر حال مخدوموں کو اب پھر میمنوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شاہ محمد شاہ اپنی جسمانی کمزوری کی وجہ سے انتخابات پر بہت زیادہ اثر انداز نہیں ہو سکیں گے لیکن ان کے حلقے سے وابستہ لوگ میمنوں کے کیمپ میں ہی موجود رہیں گے۔ انتخابات بشیر میمن کی انتظامی اور سیاسی صلاحیتوں کو امتحان ہوں گے۔
بشیر میمن نے پیر پگارو سے بھی ملاقات کر کے انہیں نواز شریف کا پیغام پہنچایا ضرور ہے لیکن سندھ میں جی ڈی اے کی تھیلی میں ن لیگ کو دینے کے لئے بظاہر کچھ بھی نہیں ہے۔ ماضی میں نواز شریف کا سندھ میں سیاسی رویہ کچھ اتنا زیادہ قابل تعریف نہیں رہا ہے کہ سیاسی شخصیات ن لیگ کا حصہ بن کر لیگ کو ایک بات پھر آزمائیں۔ ن لیگ کا یہ اعلان بھی کہ ایم کیو ایم کے ساتھ انتخابی اتحاد ہوگا۔ ایم کیو ایم کے امین الحق نے یہ کہہ کر تردید کر دی کہ انتخابی اتحاد نہیں ہوگا بلکہ نشستوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا جائے گا۔ ایم کیو ایم سندھ میں جہاں جہاں بھی اپنے آپ کو قابل ذکر سمجھتی ہے، سیاسی مبصرین اسے اس کی خوش فہمی سمجھتے ہیں۔ ایم کیو ایم نے اپنے ووٹروں کے لئے کوئی ایسا قابل ذکر کام نہیں کیا جس کی بنیاد پر اس کے نام نہاد ووٹر جوق در جوق اس کے امیدوار یا اس کے حمایت یافتہ امیدوار کی حمایت کریں۔ ساری خوش فہمیوں یا غلط فہمیوں کو اندازہ انتخابات میں ہو جائے گا۔
صوبہ سندھ میں انتخابات میں ایک ایسی علت پیدا کر دی گئی ہے کہ امیدوار انتخابات اپنے پیسے اور طاقت کی بنیاد پر لڑتے ہیں۔ گزشتہ کئی انتخابات میں یہ ہی دیکھنے میں آیا ہے اور اسی وجہ سے ’’ ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ کا نعرہ کام کرتا دیکھا گیا ہے۔ زرداری کا علی گوہر مہر سے ملاقات اور جلسہ کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ سردار محمد بخش مہر پیپلز پارٹی میں شامل ہیں۔ لیکن زرداری نے علی گوہر کو بھی پارٹی میں شامل کر لیا ہے۔ محمد بخش اور علی گوہر کے درمیان تعلقات طویل عرصہ سے کشیدہ ہیں۔ محمد بخش قبیلہ کی سردار ی کو اپنی میراث سمجھتے ہیں۔ ان کے والد مرحوم غلام محمد مہر ہی سردار تھے۔ محمد بخش کی کمسنی میں علی گوہر نے قبیلہ کے معاملات کی دیکھ بھال کے لئے سرداری کی پگڑی اپنے سر پر رکھ لی تھی۔ جب محمد بخش نے مطالبہ کیا کہ وقت آگیا ہے کہ ان کی پگڑی ان کے سر پر رکھی جائے تو علی گوہر نے انکار کر کے تنازع کھڑا کر دیا۔ محمد بخش کی ہم شیرہ علی گوہر کی زوجہ ہیں اس کے باوجود تعلقات کشیدہ ہیں۔ مہر برادران میں مرحوم علی محمد خان مہر ایسی شخصیت تھے جنہوں نے دو بار پیپلز پارٹی کا ٹکٹ واپس کر دیا تھا اور اپنی ذاتی حیثیت میں ایک دفعہ تو محترمہ بی بی مرحومہ کی زندگی میں ہی، منتخب ہوتے رہے تھے۔ انہیں مشرف حکومت نے وزیر اعلیٰ بھی مقرر کیا تھا۔ عمران خان کی حکومت میں وہ وفاقی وزیر بھی مقرر ہوئے تھے۔ زرداری علی گوہر اور محمد بخش کے درمیان رنجش کو کیسے دور کرا نے میں کیا کرتب دکھاتے ہیں، یہ دیکھنا ہوگا۔ لیکن حقیقت تو یہ ہی ہے کہ اب پورے ضلع گھوٹکی سے پیپلز پارٹی کے ہی نامزد امیدوار بظاہر کامیاب ہوتے نظر آتے ہیں۔ دوسرے اضلاع میں بھی پیپلز پارٹی کے متوقع امیدواروں سے مقابلہ کرنے کے لئے پیسے اور طاقت میں مضبوط امیدوار بظاہر نظر نہیں آتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو چند نشستوں کے علاوہ پورا سندھ ہی پیپلز پارٹی کا ہم رکاب ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button