Abdul Hanan Raja.Column

کینسر، اسکی اقسام اور علاج

عبد الحنان راجہ
کینسر کی جسمانی اقسام کا علاج تو شوکت خانم کینسر ہسپتال سمیت کئی معروف ہسپتالوں میں ہو رہا ہے۔ اس مرض کی اولین تشخیص سے لیکر آج تک کم و بیش ہر مریض کے اعصاب پر بم بن کر ہی گرتا ہے مگر صد شکر کہ میڈیکل سائنس نے ترقی کی اور عمران خان پاکستان جیسے پس ماندہ ملک کہ جہاں صحت کی بنیادی سہولیات کا بھی فقدان تھا میں سٹیٹ آف دی آرٹ کینسر ہسپتال بنانے اور پھر اسے کامیابی سے چلانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ علاج متوسط کو تو چھوڑئیے طبقہ امرا کے بس سے باہر تھا اور اب بھی ہے۔کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے پر ملنے والے شہرت کو انہوںنے سماجی خدمات کے لیے وقف کیا۔طلبہ اور عوام نے اس سماجی منصوبہ میں بھرپور ساتھ دیا اور کپتان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ ہسپتال کے انتظامی امور میں عدم مداخلت اور امیر و غریب کے لیے یکساں پالیسی نے اسے کامیابی کی طرف گامزن کیا اور میری دانست میں عطیات کا بہترین مصرف شوکت خانم کینسر ہسپتال میں ہوتا ہے۔گزشتہ چند ماہ سے ہسپتال کے معاملات کو قریب سے دیکھنے کا موقع مل رہا ہے کہا جا سکتا ہے کہ علاج کی بہترین سہولیات سے زیادہ اس کا نظام قابل تقلید کہ یہاں مرض کے علاج کا تصور ہے۔ ہسپتال کی طرف سے مالی اعانت پر علاج والوں کو بھی وہی سہولیات میسر جو لاکھوں ادا کرنے والوں کو اور میری دانست میں عمران خان کی یہ سماجی خدمت ہی انکی مقبولیت کی وجہ کہ ہزاروں غریبوں اور مریضوں کی دعائیں انکے ساتھ۔ اگر وہ سماجی خدمات کے سلسلہ سے ہی منسلک رہتے تو اس میدان میں بڑے سنگ میل عبور کر سکتے تھے۔کینسر کی دوسری قسم معاشرتی و روحانی کینسر کی تو تاحال تشخیص ہی ممکن نہ ہو سکی تو علاج کیونکر کہ تشخیص والے خود بھی اس مرض میں مبتلا، اس کے لیے ہمارے نظام انصاف اور پارلیمان کا حال دیکھ لیجیے،اب بھلا مریض کیسے مرض کا علاج کر سکتا ہے۔ اب اگر اپنے کردار اور معاشرے کے احوال پر نظر ڈالیں تو اس کے قابل علاج ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، کچھ استثنیٰ کے
ساتھ معاشرے کے تمام طبقات چاہے وہ سیاسی ہوں یا عوام، بیوروکریٹ ہوں یا ملازم، ججز ہوں یا وکلا، صنعت کار ہوں یا کاشت کار، عالم ہوں یا طالب علم، اہل صحافت ہوں یا اہل تجارت سبھی کسی نہ کسی طور روحانی کینسر کا شکار اور یہ جسمانی کینسر کی طرح بذریعہ ادویات علاج کی حدود سے نکل چکا اور اب آپریشن کا متقاضی، مگر مجھ سمیت کوئی بھی اپنے آپ کو اس مرض کا گرفتار نہیں سمجھتا۔ جس طرح کینسر جسم میں خاموشی سے حملہ آور ہوتا اور پھیلتا چلا جاتا ہے بالکل اسی طرح روحانی کینسر پہلے پہل فرد کے اخلاق کو تباہ اور فوری روحانی علاج نہ ہو تو پھر معاشرے کے لیے ناسور بن جاتا ہے۔ ذرا سوچئے کہ کیا ہمارے روز مرہ معاملات میں جھوٹ، بہتان، حسد بدعنوانی، تکبر، بے حیائی، ظلم، دھوکہ دہی، اور ناانصافی غالب نہیں۔ یہی اخلاقی رزائل ہی تو روحانی کینسر ہیں جنہوں نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس نے روحوں کو قریب قریب مردہ اور اتنا بے حس کر دیا کہ کوئی بد اخلاقی بری لگتی ہے اور نہ اسرائیلی و بھارتی بربریت کا رنج ہوتا ہے۔ سیل فون استعمال کرنے والا ہر کس و ناکس محسوس و غیر محسوس طریق سے جھوٹ، بہتان اور افواہوں کے ابلاغ میں حصہ دار، حتیٰ کہ عائلی و خاندانی رشتے حسد اور تنگ دلی کا شکار ہو کر رہ گئے۔ مگر بدقسمتی کہ ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہو پا رہا۔ اہل تصوف کے ہاں تو ان کا شافی علاج ہے۔ مگر یہ شفا خانے پردہ اخفا میں ہیں کہ شاید بد تہذیبی کی یلغار نے انہیں اس پر مجبور کر دیا ہے، اس میں شک نہیں مسلم امہ پر ایسے ادوار آتے رہے۔ عہد غزالی کو ہی لے لیجئے اس میں بھی سیاسی انتشار، اخلاقی انحطاط جوبن پر اور مسلکی انتہا پسندی کا دور دورہ، اخلاقی عیوب نمایاں ہونا یا کرنا معیوب نہ تھا، آج کا دور بھی طرز جدید کے ساتھ اس سے مماثل ۔ خود امام غزالی نے اس پر متعدد معرکعتہ الارآ کتب تالیف کیں، احیائے العلوم اور منہاج العابدین، جبکہ اس پر ابو طالب مکی کی قوت القلوب اور علامہ راغب اصفہانی کی مکارم الشریعہ بھی اخلاقی و روحانی کینسر کا شافی و کافی علاج مگر شرط یہ کہ، مریض آمادہ بر علاج ہو۔شک نہیں کہ روحانی افکار و تربیت دلوں کو زندہ اور معاشرے کی زندگی و احیا کے لیے سیاسی افکار کی تطہیر لازم ہوتی ہے۔کسی عارف نے کیا خوب کہا کہ جسم پر موت وارد ہو تو دنیا اور اگر موت دل پر وارد ہو تو اللہ سے دور کر دیتی ہے ۔ اسی لیے علامہ نے بھی کہا تھا کہ دل مردہ، دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ، کہ یہی ہے امتوں کے نقش کہن کا چارہ۔جس طرح جسمانی کینسر کے علاج کے شفا خانہ موجود ہیں تو اسی طرح روح اور دل اگر کینسر زدہ ہو تو اس کا علاج زندہ دل والوں کے ہاں ہی ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام نے اس کی خوب تطبیق کی کہ دل اگر بینا اور زندہ ہو تو جسم پر موت بھی دل کو مردہ نہیں کر سکتی اور یہی وجہ ہے کہ کئی صدیاں گزر جانے کے باوجود اہل دل جنہیں عرفا اور صوفیا کہا جاتا ہے کا ذکر موجود۔ ماضی قریب تک خانقاہیں اسی مرض کے علاج کے لیے بکثرت موجود تھیں مگر وقت کے ساتھ یہ بھی روبہ زوال ہونے لگیں، مگر صد شکر کہ کہیں نہ کہیں دور اسلاف کی یاد تازہ ہوتی نظر آتی ہے۔ابوا ڈریم کے ڈائریکٹر خرم شیراز اور برادرم صغیر خان کی معیت نے سالک ا باد میں اہل ذکر کی مجلس نصیب کی تو قلب و روح ذکر الٰہی سے مسرور توانا و شاداں ہوئے۔ پیر گل بادشاہ نے یہاں الگ ہی بستی بسا رکھی ہے۔ مدارس علم قائم ہیں اور حلقات ذکر جبکہ وسیع رقبہ پر زیر تعمیر جامعہ اور مسجد درگاہ کی عظمت کو چار چاند لگاتی نظر آتی ہے۔ یقین مانیے کہ یہی روحانی کینسر کا علاج ہے اگر نفس آمادہ بر علاج ہو تو !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button