ColumnImtiaz Aasi

جوڈیشل کمیشن کون بنائے؟

امتیاز عاصی
عجیب تماشا ہے حکومتی اداروں پر جج صاحبان نے الزام لگایا ہے اور حکومت ہی جوڈیشل کمیشن بنائے گی؟ کبھی ایسا ہوا ہے جس ادارے پر الزام ہو اسی ادارے کو کنٹرول کرنے والے تحقیقاتی کمیشن قائم کریں۔ ہمارا ملک کس طرف جا رہا ہے آئین اور قانون کی باتیں سبھی کرتے ہیں جب عمل کرنے کی بات ہو تو آئین اور قانون بھول جاتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں سپریم کورٹ نے ججز تقرری کیس میں فیصلہ دیا تھا جس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا ان تین چیزوں پر کسی قسم کا سمجھوتہ ہوا تو سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ وہ تین چیزیں پارلیمانی نظام ، اسلامی شناخت اور آزاد عدلیہ تھی اور عدلیہ میں ججوں کی تقرری ایگزیکٹو کی بجائے جوڈیشری کی صوابدید ہونی چا ہے۔ تعجب ہے ججوں کے بیڈ رومز میں کیمرے لگائے گئے۔ کسی کے بھائی کو اغوا کیا گیا اور دھمکیاں دی گئیں جوڈیشل کمیشن حکومت بنائے گی حالانکہ دیکھا جائے تو جوڈیشل کمیشن بنانا چیف جسٹس آف پاکستان کا اختیار ہے نہ کہ حکومت کو بنانا چاہیے۔ حال ہی میں چیف جسٹس آف پاکستان جناب قاضی فائز عیسیٰ نے بھٹو ریفرنس کی سماعت خود کرکے فیصلہ دیا ذوالفقار علی بھٹو سے ناانصافی ہوئی تھی ۔ اہم بات یہ ہے بھٹو کیس کی سماعت کرنے والے جج صاحبان نے اس بات کا اعتراف کیا تھا ان پر دبائو تھا وہ دبائو کس کا تھا ۔ ظاہر ہے ایگزیکٹو کا ہی دبائو تھا جس نے ججوں کو بھٹو کے خلاف فیصلہ دینے پر مجبور کیا تھا۔ ہم آزاد عدلیہ کی بات کرتے ہیں عدلیہ حکومت کا اہم ستون ہوتا ہے لیکن ججوں کو دھمکیاں ملیں تو تحقیقاتی کمیشن حکومت بنائے واہ جی واہ۔ جج صاحبان کو درپیش معاملہ آج کا نہیں ہے بلکہ انہیں اس قسم کے مسائل کا گزشتہ دو تین سالوں سے سامنا ہے۔ وزیراعظم اور چیف جسٹس آف پاکستان کے درمیان ہونے والی میٹنگ میں طے پایا ہے ججوں کی شکایت کا جائزہ لینے کے لئے وفاقی کابینہ سے کمیشن کی منظوری لی جائے گی۔ کالم تحریر کرنے تک حکومت نے جوڈیشل کمیشن کا اعلان نہیں کیا تھا ۔ جج صاحبان کو حکومتی اداروں کی طرف سے دھمکیاں خطرے کی گھنٹی ہے ایک طرف کہا جاتا ہے ہماری عدلیہ آزاد ہے دوسری طرف ججوں کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے ایسے میں عوام کو انصاف کی فراہمی کیسے ممکن ہے۔ ہمارے سامنے جسٹس (ر) شوکت صدیقی کیس کی مثال ہے ایک حکومتی ادارے کے سربراہ نے ان سے ملاقات کرکے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے کی خواہش ظاہر کی انکار کرنے پر انہیں ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے یہی چھ جج صاحبان سابق چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطاء بندیال سے اسی سلسلے میں ملے تھے نہ جانے کسی مصلحت کے تحت سابق چیف جسٹس نے اس اہم معاملے کو التواء میں رکھا۔ بادی النظر میں دیکھا جائی تو چیف جسٹس جناب فائز عیسیٰ نے گیند حکومت کی کورٹ میں ڈال دی ہے حالانکہ ججوں کی شکایت کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس صاحب کو بنانا چاہیے تھا۔ ججوں کی شکایت کے بعد ملک بھر کی وکلاء تنظیموں نے اس کے خلاف مذمتی قرار دادیں منظور کیں اور آزاد کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا لیکن معاملے کو طول دینے کے لئے حکومت کو جوڈیشل کمیشن بنانے کے لئے کہہ دیا گیا ہے۔ حکومت اٹارنی جنرل کی مشاورت سے جوڈیشل کمیشن کے ٹی او آر بنائے گی جس کے بعد کسی من پسند سابق جج کو کمیشن کی سربراہی سونپ کر معاملے کو سرد خانے میں ڈال دیا جائے گا۔ کئی سو سال پہلے پیغمبر اسلام نبی کریم ٔ نے فرمایا تھا جن قوموں میں انصاف نہیں ہوتا وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ ہماری تباہی میں کون سی کسر باقی ہے معاشی لحاظ سے ہم دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔ ہوائی اڈے آئوٹ سورس کرنے پڑ رہے ہیں قومی اثاثے رہن رکھے جا رہے ہیں جس کے بعد عوام کو انصاف فراہم کرنے والوں کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے تو عوام کو انصاف کیسے ملے گا۔ وزیراعظم اور چیف جسٹس کے مابین ملاقات میں جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا معاملہ جمعہ کے روز کابینہ کے ہونے والے اجلاس میں رکھنے کا عندیہ دیا گیا لیکن اس روز کابینہ اجلاس بعض وجوہات کی بنا نہیں ہو سکا۔ قارئین کو یاد ہوگا جنرل پرویز مشرف کے دور میں سپریم کورٹ کے ججز کو یرغمال بنایا گیا تو اس کے خلاف وکلاء برادری اور سول سوسائٹی سراپا احتجاج بن گئی تھی ۔ وکلا کی بحالی کے لئے یہ تحریک اس قدر زور دار تھی جنرل مشرف کو جج صاحبان کو بحال کرنا پڑا جس کے کچھ عرصے تک عوام میں کچھ اس طرح کا تاثر تھا عدلیہ بالکل آزاد ہوچکی ہے اور بغیر کسی دبائو کے عدالتوں میں فیصلے ہو رہے ہیں ۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران ججوں سے جو کھلواڑ ہوتا چلا آرہا ہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو عدلیہ ابھی تک یرغمال ہے لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں ہو گا عدلیہ ہر دور میں دبائو کا شکار رہی ہے ۔ جس روز عدلیہ آزاد ہوئی ملک کے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو جسٹس ایم آر کیانی، جسٹس رستم سدوا اور جسٹس کیکائوس جیسے ججوں نے منصفی کی اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں۔ سوال ہے جن ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو شکایت کی ہے وہ مستقبل میں کیا آزادانہ فیصلے کر سکیں گے؟ چلیں حکومت جوڈیشل کمیشن قائم کر دے گی کیا کمیشن جن اداروں نے جج صاحبان کو دھمکیاں دی انہیں طلب کر سکے گا؟ اگر طلب نہیں کرے گا تو الزامات کی تحقیقات کیسے ہو گی۔ اگر اداروں کے لوگ کمیشن کے روبرو پیش ہو بھی جائیں تو عوام کے سامنے ان کی کیا ساکھ رہ جائے گی؟ ہمارا ملک تبھی درست سمت میں چل سکتا ہے جب تمام ادارے اپنی حدود میں رہتے ہوئے فرائض کی انجام دہی کریں تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے گزشتہ چند سالوں کے دوران بعض اداروں کی طرف سے سیاسی امور میں بے جا مداخلت سے بہت سے مسائل نے جنم لیا ہے۔ سوال ہے کیا اتحادی اور کمزور ترین حکومت عدلیہ کی آزادی اور ججوں کے تحفظ کے لئے اداروں کو اپنی حدود میں رہنے کا حکم دے سکے گی؟ بہر کیف جوڈیشل کمیشن کے قیام کے بعد حکومت کے بااختیار ہونے قضیہ کھل جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button