ColumnTajamul Hussain Hashmi

یتیم بچوں کا رمضان

تجمل حسین ہاشمی
یوم یتامیٰ منانے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی ( آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن) نے پہلی بار ترکی کی معروف سماجی مددگار تنظیم آئی ایچ ایچ کی تجویز پر اپنے وزرائے خارجہ کی کونسل کے 40ویں سیشن جوکہ 9تا 11دسمبر 2013بمقام کوناکرے (گنیا) میں قرارداد نمبر 1/40-ICHAD، آرٹیکل نمبر 21میں منعقدہ کیا گیا، جس میں فیصلہ کیا کہ تمام اسلامی ممالک میں 15رمضان المبارک کو یتیم بچوں کے دن کے طور پر منایا جائے۔ اس دن یتیم بچوں کی فلاح و بہبود، کفالت اور عملی اقدامات کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے تمام ممبر ممالک کی حکومتیں، سول سوسائٹی اور رفاہی ادارے اس مقصد کیلئے بھرپور آواز اٹھائیں گے۔ اس تجویز کو دنیا بھر کے یتیم بچوں کی کفالت اور فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں نے نہ صرف سراہا بلکہ اس پر عمل بھی کیا۔ اسی کارخیر کا حصہ بنتے ہوئے پاکستان میں یتیم بچوں کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے والے رفاہی اداروں نے ایک فلاحی ادارے کے پلیٹ فارم سے ملک بھر میں یوم یتامیٰ منانے کا فیصلہ کیا اور اسے مزید موثر اور مفید بنانے کیلئے 15رمضان کو سرکاری سطح پر منانے کی کوششوں کا آغاز کیا، تاکہ حکومتی سرپرستی مل جانے کے بعد اس کے ثمرات ملک میں بسنے والے ہر یتیم اور بے سہارا تک پہنچائے جاسکیں۔ سینیٹ آف پاکستان نے 20مئی 2016کو ملک بھر میں بھی ہر سال 15رمضان المبارک کو لاوارث و یتیم بچوں کے دن کے طور پر منانے کیلئے ایک متفقہ قرارداد منظور کی۔ جس کو بعد ازاں 29مئی 2018کو قومی اسمبلی میں بھی متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ قرآن و احادیث پاک میں یتیم بچوں کے ساتھ حسن سلوک کے واضح احکامات ہیں۔ اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ انصاف پر قائم رہو اور جو بھلائی تم کرو گے وہ اللہ کے علم سی چھپی نہ رہ سکے گی۔ (النسائ، 127)۔ رسول اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے، پھر اپنی شہادت والی اور درمیان والی انگلی سے اشارہ فرمایا اور انہیں کشادہ کیا۔ ( صحیح بخاری) لیکن اس وقت سب سے زیادہ اسلامی ممالک میں ان بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، کئی سالوں سے ایشیائی ممالک خاص کر اسلامی ممالک میں ایسی فضا پیدا کی گئی جس نے ان کے معاشی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس کی وجہ سے دہشت گردی اور افراتفری میں اضافہ ہوا۔ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں روزانہ کی بنیاد پر دس ہزار بچے یتیم ہوتے ہیں، سال 2040میں 600ملین بچے پانی سے محروم ہوں گے، ان کی زندگیوں کو شدید خطرات درپیش ہوں گے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ نومولود بچوں کی اموات خطرناک حد تک پہنچ گئی ہیں۔ افغانستان، شام، عراق، یمن، فلسطین اور پاکستان دہشت گردی کا شکار ہیں، جس کی سے وجہ سے یتیموں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، موسمی تغیرات اور کرونا جیسی وبائوں سے دنیا بھر میں معاشی صورتحال خراب ہوئی، قیمتوں میں عدم استحکام آیا جس سے معاشی خوف پیدا ہوا۔ دولت کی عدم تقسیم میں اضافہ ہوا، ہمارے ملک میں سرمایہ دارانہ نظام ناکام ہوچکا ہے، سرمایہ دارانہ نظام میں مارکیٹ فری ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں مارکیٹ کو طاقتور سیاسی اور کاروباری حلقوں نے جکڑ رکھا ہے ، جس سے دولت کی تقسیم میں فرق ہے۔ صدقہ زکٰوۃ اور فلاحی کاموں میں مالیاتی مشکلات ہیں۔ فلاحی اداروں کو فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔ ایسی غیر یقینی صورتحال میں مافیاز اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔ کئی اداروں نے غریبوں، یتیم بچوں کے نام پر فنڈز اکٹھے کرنے کو کاروبار بنالیا ہے۔ روزانہ ہوٹر لگا کر چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے، ان کا حساب اور احتساب کرنے والا کوئی نہیں۔ معاشی عدم استحکام سے غیر تربیتی اداروں اور افراد کی چاندی ہو جاتی ہے اور اس سے غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ احتسابی عمل میں رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔ بظاہر وصولیت زیادہ ہونے کے بعد کم ظاہر کی جاتی ہیں۔ ایسے فلاحی اداروں کو سرکاری اداروں کی پست پناہی حاصل بھی ہوتی ہے، ہمارے ہاں تو رجسٹر فلاحی ادارے بھی اس لوٹ مار کو حق سمجھتے ہیں، خاص کر رمضان المبارک میں فنڈ ریزنگ دنیا بھر میں کی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں فنڈز اکٹے کرنے کا کوئی مضبوط نظام نہیں، چند سو دے کر وکیل کی خدمات سے لاکھوں یتیم اور غریب بچوں کی حق تلفی کی جاتی ہے۔ ہماری حکومت کا کوئی خاص چیک اینڈ بیلنس نہیں، جو چاہے جو مرضی کرے۔ ان کیخلاف آج تک کوئی ایکشن نظر نہیں آیا۔ فلاحی اداروں نے اپنی گرفت مضبوط کی ہوئی ہے، ان کے آگے حکومتیں بے بس نظر آتی ہیں۔ حکومت کے پاس کوئی میکنزم نہیں۔ ہمارے ہاں ریاستی ادارے بھی فنڈز اکٹھے (زکٰوۃ) کرتے ہیں، کئی سو مساجد ، درگاہیں اور افراد سے زکٰوۃ وصول کرتے ہیں، اس کے بعد بھی یتیم، غریب، مسکین بچے بنیادی ضروریات سے محروم ہیں، حالانکہ انسانی بنیادی حقوق کی ذمہ دار ریاست ہے۔ جب ریاست عوامی حقوق کا تحفظ نہیں کرے گی تو پھر فلاحی ادارے کا احتساب مشکل ہوگا۔ یتیم بچوں کا دن ان کے احساس کا دن ہے، یتیموں کی محرومی کو معاشی مضبوطی ہی ختم کر سکتی ہے۔ حکومتوں کی پالیسیوں میں یتیم بچوں کیلئے کچھ نہیں ہے، ماسوائے دو ٹائم کھانے اور رہائش۔ ہمارے ہاں اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں، حکومتی پالیسی ان کو سکول تک نہ لا سکی تو باقی ان یتیموں کا کیا بنے گا جن کا سہارا فلاحی ادارے ہیں؟ ملائیشیا ایسا ملک ہے جہاں سب سے زکٰوۃ دی جاتی ہے، افراد کی بھر پور فلاح کی جاتی ہے، امریکہ میں انسانیت کیلئے اربوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں اربوں روپے کے مالک طاقتور حلقے فلاحی کاموں سے دور بھاگتے ہیں، جلسوں میں بنیادی سہولتوں جوکہ نہ ہونے کے برابر ہیں، ان کو ترقی کہہ کر عوام کو تسلی دیتے ہیں۔ بنیادی ضروریات کی اشیاء پر قبضہ ان سیاسی افراد اور اداروں میں بیٹھے ان اہلکاروں کا ہے جو سبسڈی، زکٰوۃ کو ہضم کر رہے ہیں اور عوام مہنگائی سے پس رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button