ColumnRoshan Lal

سی پیک اور ہماری خوشحالی کے خواب

روشن لعل
چینی صدر شی جن پنگ نے جب اپریل 2015ء کے اپنے دورہ پاکستان کے دوران سی پیک معاہدے پر دستخط کیے اس وقت ہمیں ملک کی معاشی خوشحالی کے انتہائی مسحورکن خواب دکھائے گئے تھے۔ سی پیک معاہدے کے نوبرس بعد ہماری معاشی حالت یہ ہے کہ ہمارے بیرونی قرضے جو2023ء کی آخری سہ ماہی شروع ہونے پر 129.7بلین امریکی ڈالر تھے وہ دسمبر 2023میں 1.5بلین ڈالر اضافہ کے بعد 131.2بلین ڈالر ہو گئے۔ ان بیرونی قرضوں میں سی پیک کی مد میں چین سے لیے گئے قرضے کا حجم تقریبا 68.91بلین امریکی ڈالر ہے۔ یہ بات کوئی راز نہیں کہ ملک پر واجب الادا قرضوں کی ادائیگی کی غرض سے مزید قرض لینے کے لیے ہم آئی ایم ایف کے سامنے مسلسل ہاتھ پھیلائے کھڑے رہتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ سی پیک کے افتتاح کے موقع پر ہمیں جو خواب دکھا ئے گئے تھے ہم ان سے کتنا دور کھڑے ہیں۔ اس موقع پر کہنے اور لکھنے کو بہت کچھ ہے مگر نہ جانے کیوں جی چاہتا ہے کہ کچھ نیا لکھنے کی بجائے یہاں وہ باتیں دہرائی جائیں جو سی پیک شروع ہونے پر لکھے گئے اپنے کالم میں بیان کی تھیں۔
جو باتیں اس وقت لکھے گئے کالم میں بیان کیں وہ کچھ یوں تھیں ۔۔۔۔۔۔ ہمیں یہ بتایا جارہا ہے کہ سی پیک کی مد میں چائنہ کی 46ا رب ڈالر کی سرمایہ کاری سے عنقریب ہمارے ملک کی کایا پلٹ جائے گی۔ چین کی سرمایہ کاری کو یوں پیش کیا جارہا ہے کہ شاید یہاں دودھ اور شہد کی نہریں نہ بہہ سکیں مگر بہت جلد ہمارا ملک اس سے ملتی جلتی ترقی کے قریب پہنچ جائے گا۔ گوکہ یہ خواب بہت سہانے ہیں مگر انہیں دیکھتے ہوئے حقائق کے تیز، سفاک اور ناگوار سوتی اثرات رکھنے والے الارم کی آواز اس طرح کانوں کے ذریعے دماغ تک پہنچتی ہے کہ اس کے سپر سونک اثر سے خوشحال مستقبل کی جھلکیاں دکھانے والا آئین ہی کا یک چکنا چور ہو جاتا ہے۔ سہانے خوابوں کے درپردہ خوفناک حقیقت اصل میں یہ ہے کہ چائنہ کی طرف سے دی جانے والے 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں سے صرف دس فیصد حصہ حکومت چین کا اور باقی ماندہ 90فیصد پرائیویٹ سیکٹر کاہے۔ جہاں چینی سرمایہ کاری کے دس فیصد حصے سے خوش آئند توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں وہاں باقی نوے فیصد کے بارے میں یہ گمان بھی کیا جاسکتا کہ اس کا حشرنندی پور پاور پراجیکٹ کے لیے کی جانے والی چین کی پرائیویٹ کمپنیوں کی سرمایہ کاری جیسا ہو سکتا ہے۔
چین کی بھاری سرمایہ کاری کے ذریعے شروع ہونے والے جن منصوبوں کی تفصیل پیش کی گئی ہے ان میں سب سے اہم پاک چائنہ اکنامک کاریڈور ہے۔ پاک چائنہ اکنامک کاریڈور کی اہمیت کیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ پنجاب کے علاوہ ملک کے تینوں صوبوں کے یہ اعتراضات سامنے آرہے ہیں کہ اس کا تبدیل شدہ نقشہ اس طرح سے تیار کیا گیا ہے کہ چین کے بعد اس کا سب زیادہ فائدہ صوبہ پنجاب کو پہنچے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اس شاہراہ کے روٹ کو اپنے اپنے صوبوں میں سے بھی گزارنا چاہتے ہیں انہیں یہ توقع ہے کہ اگر اس منصوبے کا گزر ان کے علاقوں سے بھی ہوگا تو پنجاب کی طرح ان کی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہو سکیں گے۔ پاک چائنہ اکنامک کاریڈور کے نام سے تعمیر ہونے والی ریل اور سڑک پر چین سے چلنے والی گاڑیاں تو اس ملک کا تیار کردہ مال گوادر کی بندرگاہ کے ذریعے پوری دنیا کو برآمد کرنے کے لیے لے جائیں گی مگر کیا ہمارے پاس چائنہ کی طرح کا کوئی ایسا برآمدی مال ہے جسے ہم اکنامک کاریڈور کے ذریعے باہر کی دنیا کو بھیج کر قیمتی زرمبادلہ حاصل کر سکیں۔ نہ تو فی الوقت ہمارے پاس ایسا برآمدی مال ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس طرح کا مال بنانے کی صلاحیت حاصل ہونے کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔ اگر اس طرح کا مال ہمارے پاس ہوتا تو جو سڑکیں پہلے سے موجود ہیں ان سے ہی کام چلایا جا سکتا تھا۔ اگر فی الوقت ہمارے پاس اس اکنامک کاریڈور کے ذریعے برآمد کرنے کے لیے کوئی مال نہیں تو پھر اس سے ہمیں کیا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے؟ ہمارا فائدہ صرف اتنا ہی ہے جنتا کسی محصول چونگی پر بیٹھے چونگی محرر کو ہو تا ہے ۔ تو بس سمجھ لیجئے کہ خوشحالی کے خواب دکھا کر اگر ہمیں یہ کہا جارہا ہے کہ ہمارا بیٹا عنقریب ڈی ایم جی گروپ کا سی ایس پی افسر تعینات ہونے والا ہے تو یاد رہے کہ وہ چونگی محرر سے زیادہ کچھ نہیں بن سکے گا۔ تو جناب چونگی محرر کی جو بھی آمدن ہوگی اور اس سے جس قدر خوشحالی بھی ممکن ہو سکے گی وہی ہمارا مقدر ہوگی۔
چینی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران توانائی بحران کے حل کے لیے کوئلے سے تیار ہونے والی بجلی کے کارخانے لگانے کے معاہدے بھی کیے گئے ہیں۔ ان معاہدوں پر کچھ لوگ اس وجہ سے زیادہ خوش نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے لیے کیے جانے والے بین الاقوامی معاہدوں سے آگاہ ہیں۔ ایسے معاہدوں میں یہ واضح کیا گیا ہی کہ توانائی کے حصول کے لیے کوئلہ جلانے کے عمل سے خارج ہونے والی گیسیں ہی ماحولیاتی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ ہیں ۔ ان معاہدوں کے مطابق چین کو اپنے پلانٹ کوئلے کے متبادل ذرائع پر منتقل کرنے کے لیے جو مہلت دی گئی تھی وہ اب ختم ہونے والی ہے ۔ لہذا توانائی کے جو ذرائع چین کے لیے اب بیکار ہوتے جارہے ہیں انہیں اس کی پرائیویٹ کمپنیاں پاکستان جیسے ملکوں کو برآمد کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔
جن لوگوں کے ذہنوں میں ابھی چین کے صدر کے دورہ بھارت کی یاد تازہ ہے انہیں شاید یہ بھی یاد ہو کہ چینی صدر نے بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ وہاں 20ارب ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدے کیے تھے۔ 46ارب ڈالر کے مقابلے میں 20ارب ڈالر یقیناً بہت کم ہیں۔ اس فرق کے باوجود بھارت میں کی جانے والی چینی سرمایہ کاری کی اہم بات یہ تھی کہ ان کی معاہدے میں یہ بات واضح طور پر درج تھی کہ چین پانچ برس کے عرصے کے دوران اپنی سرمایہ کاری کے ہدف پورے کرے گا۔ کیا پاکستان میں سرمایہ کاری کے معاہدے کو بھی کسی متعین وقت کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے؟ جی نہیں ایسا نہیں ہے۔ ایسا نہ ہونے کی وجہ سے بعض لوگ بھارت میں چین کی سرمایہ کاری کے لیے ’’ معاہدے ‘‘ اور پاکستان کے لیے ’’ وعدے‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ اگر بھارت کی بات کی جائے تو وہاں صرف چین ہی نہیں بلکہ دیگر ملک بھی سرمایہ کاری کی دوڑ میں شریک ہیں۔ کون بھول سکتا ہے کہ جب جنوری 2015ء میں امریکی صدر اوباما پاکستان سے کنی کترا کر بھارت یاترا کے لیے گئے تھے تو وہاں کون سے کون سے معاہدے طے پائے تھے۔ چین اور امریکہ کے علاوہ جاپان نے بھی بھارت میں 35ارب ڈالر کے معاہدے کیے ۔ ان سب باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں صرف یہ سوچنا چاہیے کہ بھارت میں سرمایہ کاری کے معاہدے کرنے والے اکثر ملک ہمیں صرف وعدوں پر ہی کیوں ٹرخا دیتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button