Abdul Hanan Raja.Column

عوامی احتجاج، قومی وقار اور آئی ایم ایف

عبد الحنان راجہ
معروف تابعی حضرت حسن بصریؒ سے پوچھا گیا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ چیخ و پکار کس کی ہوگی، ’’ تو آپؒ نے جواب دیا کہ اُس شخص کی کہ جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کوئی عہدہ یا منصب عطا کیا اور اس نے اپنے اختیار کو لوگوں پر ظلم اور نا انصافی میں استعمال کیا ہو ‘‘۔ اس فرمان کی رو سے مہنگائی کی وجہ سے ہونے والی خودکشیاں، ہر کس و ناکس کی بلند ہوتی چیخیں، بجلی، پٹرولیم اور ظلم پر مبنی نظام کے خلاف ملک گیر احتجاج کے مصداق کون ہیں، اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں. یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی کا ہر حکمران قومی وقار آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھوانے میں ملوث رہا۔ مایوسی کفر مگر درپیش زمینی حقائق کے مطابق کم از کم اس نسل کا جیتے جی قرضوں کے چنگل سے نکلنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ پی پی پی دور میں مہنگی بجلی پیدا کرنے کے معاہدات دراصل اس بحران کی شروعات تھیں، ٹی وی سکرین پر میرے گائوں میں بجلی آئی ہے، کے اشتہارات اب اپنا اثر دکھا رہے ہیں۔ سابق آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا نے اپنی رپورٹ میں پی پی پی کے بجلی معاہدوں اور اسحاق ڈار کے آئی پی پیز کے ساتھ گٹھ جوڑ کو بے نقاب کیا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی پیش کردہ رپورٹ کے مطابق سال 2023میں بجلی چوری اور لائن لاسز کا حجم 22 ارب روپے رہا جبکہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران سستے پیداواری ذرائع کو چھوڑ کر مہنگے پاور پلانٹس پر بجلی پیدا کر کے 18ارب کا نقصان کیا گیا۔ ملوث کرداروں کو قانون کے کٹہرے میں لانا اپنے داغدار ماضی کو شاندار کرنے کے مترادف تھا۔ اس سرزمین بے آئین میں یہ زحمت پہلے کبھی کی گئی اور نہ اس کی توقع۔ معروف صحافی محترم رئوف کلاسرا نے اس بارے تفصیلات اپنے کالمز میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ بے نقاب کی ہیں۔ گو کہ آئی پی پیز معاہدوں پر پی ٹی آئی حکومت نے نظر ثانی کی کوشش کی مگر منہ زور مافیا کے آگے وہ بھی بے بس ہو گئے۔ کپتان کی جانب سے مافیاز کو لگام دینے کی یہ پہلی ناکام کوشش تھی، بعد ازاں پٹرولیم اور شوگر مافیاز کیس میں بھی حکومت وقت کو پسپا ہونا پڑا۔ اس سے مافیاز کے حکومت اور اداروں پر اثر و رسوخ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور اب کیا یہ عجب نہیں کہ عوام کو ریلیف دینے کی بابت مشاورت ان سے کی جا رہی ہے کہ جو خود مجرم اور بحران کے ذمہ دار۔ عام شہری تو مملکت کے چہیتے مفت خوروں کو پالنے کی ذمہ داری صبر و رضا کا پیکر بن کر نبھا رہے تھے کہ بھاری بھر کم بلوں اور مہنگائی کی شدید لہر نے ان کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا اور وہ براہ راست گستاخی پر اتر آئے۔ صرف بجلی کا ہی رونا ہوتا اور رو دھو کے چپ بیٹھ جاتے، شرم تم کو مگر نہیں آتی کے مصداق ڈھائی لاکھ سے زائد سرکاری گاڑیاں خزانے پر نہیں عام آدمی پر بوجھ ہیں۔ ماہانہ اربوں کا فیول بھی عوام کے کھاتے میں۔ ڈالر کی بڑھتی قیمت بھی بجلی کے ہوشربا بلز کی بڑی وجہ بنتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ معاشی بحران یک لخت نہیں آتے اس کے لیے برسوں نااہلی اور بددیانت قیادت چاہیے ہوتی ہے۔ کمزور نظام انصاف اور دھاندلی بر مبنی طریق انتخاب ریاستوں کو اقتصادی میدان میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتا ہے۔ اقبالؒ نے کہا تھا ’’ نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق انکو، آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور‘‘۔جس ملک میں حال یہ ہو کہ بجلی اور توانائی کا بحران گھمبیر ہونے کے باوجود تجارتی ایسوسی ایشنز حکومت کے قابو میں نہ آتی ہوں تو مسائل پر قابو پانا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ مشکل حالات میں تو قومیں یکجان ہو کر بحرانوں پر قابو پاتی پیں مگر ہم تقسیم در تقسیم ہوتے جا رہے ہیں۔ صبح سات سے رات 8تک کاروبار کے فیصلے کو ہی لے لیجیے پی ٹی آئی حکومت نے اس کو لاگو کرنے کی کوشش کی تو ن لیگ اور باقی اپوزیشن تاجروں کی ہمدرد بن کر میدان میں تھی۔ سابق چیئرمین ایف بی آر کے مطابق ایسے کاروباری افراد کی تعداد چالیس لاکھ سے زائد جو بیرون ممالک سفر، گاڑیوں اور شاہانہ مکانات کے مالک مگر ٹیکس نیٹ میں نہیں اور جو ٹیکس دینا چاہتے ہیں انہیں حساب و کتاب کے ایسے گورکھ دہندوں میں پھنسا دیا جاتا ہے کہ وہ مڈل مین کے ذریعہ ٹیکس جمع کرنے والے اداروں کے اہل کاروں سے اپنے معاملات طے کر کے گلو خلاصی کرا لیتے ہیں۔ لگتا ہوں ہے کہ ہمارے ہاں حکومت کا نہیں مافیاز کا راج ہے۔ آئی پی پیز، شوگر انڈسٹری، پٹرولیم انڈسٹری، ٹرانسپورٹرز، سرکاری ملازمین ایسوسی ایشنز، قانون دان، میڈیا، مذہبی طبقات، آٹو انڈسٹری، ینگ ڈاکٹرز، لسانی گروہ سب کھلے عام ریاستی رٹ کو چیلنج کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ مافیاز اپنے جائز ناجائز مطالبات منوانے کے لیے ہڑتال، احتجاج اور دیگر ذرائع استعمال میں لاتے ہیں اور ہر حکومت ان کے آگے بھیگی بلی بنی رہتی ہے۔ ان حالات میں عوام داد رسی کی فریاد کریں تو کریں بھی کس سے۔ سابق وزیر اعظم اپنی محفوظ پناہ گناہ، صدر کے پاس اختیارات نہیں۔ حکومت نگران اور ریلیف کا اختیار آئی ایم ایف کے پاس کہ جنہیں مظلوموں کی زبان سمجھ نہیں آتی۔ اب مسئلہ صرف مہنگائی اور ناانصافی تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ معیشت کی زبوں حالی نے قومی وقار دائو بھی لگا دیا ہے۔ سپہ سالار نے کونسل کی تقریب میں مستند حوالہ جات کے ذریعے قوم کو مایوسی کی دلدل سے نکالنے کی کوشش کی، مگر جناب سپہ سالار ! مایوسی کے اسباب کا قلع قمع اور اس نہج تک پہنچانے والوں کو نشان عبرت بنائے بغیر اب بات نہیں بنے گی۔ ریاست اگر عوام کو ریلیف اور پرامن احتجاج کو پرتشدد مظاہروں میں بدلنے سے روکنا چاہتی ہے تو مفت بجلی، پٹرول اور سرکاری ٹرانسپورٹ کی سہولت بیک جنبش قلم ختم، بحران کے پائیدار حل تک سرکاری دفاتر میں ایئر کنڈیشنز پر پابندی، بجلی چوروں کے خلاف سخت کریک ڈائون، اور کاروباری اوقات کار کو صبح 7تا رات 8بجے تک محدود کرنے جیسے اقدامات پوری قوت سے نافذ جبکہ فرنس آئل کی بجائے پن بجلی سے پیداوار میں اضافہ اور قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے آئی پی پیز کو عوام دشمن معاہدات پر نظرثانی کے لیے مجبور کرنا ہو گا، کہ اب ریاست پاکستان کے عملی اقدامات ہی دنیائے اسلام کی پہلی ایٹمی قوت کے وقار کو بحال رکھ سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button