ColumnImtiaz Aasi

حج گروپ آرگنائزر بمقابلہ مذہبی امور

امتیاز عاصی
پاکستان سے عازمین حج کو پرائیویٹ گروپس میں بھیجنے کی سعودی حکومت کی خواہش بہت پرانی تھی حالانکہ دیگر اسلامی ملکوں سے عازمین حج کئی عشروں سے نجی گروپس میں آرہے تھے۔2004ء میں عازمین حج کو اسپانسر اسکیم میں بھیجنے کی بجائے نجی گروپس میں بھیجنے کا آغاز ہوا تو وقت گزرنے کے ساتھ جوں جوں لوگوں کو اس نفع بخش کام سے متعلق آگاہی ہوتی گئی حج گروپ آرگنائزروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ عجیب تماشا ہے نو سو کے قریب حج گروپ آرگنائزر عازمین حج کو سعودی عرب لے جاتی ہیں تیرہ ہزار حج ٹور آپرٹیر انتظاری فہرست میں ہیں جو حج کوٹہ کے لئے ہر سال ہاتھ پائوں مارتے ہیں۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے ایک ہی خاندان کے کئی افراد کمپنیوں کے مالک ہیں اور کئی نے مذہبی امور کے پاس رجسٹرڈ کرانے کے بعد کمپنیاں کروڑوں میں فروخت کر دی ہیں۔ ایک طرف وزارت مذہبی امور نے چاروں صوبوں میں حج گروپ آرگنائزروں کو 2027ء تک حج کوٹہ دینے کے پروانے جاری کر رکھے ہیں دوسری طرف انہی حج گروپ آرگنائزروں کی کمپنیوں کی Assessemntکے لئے ایک نجی کمپنی کو ذمہ داری دے دی گئی۔ حیرت ہے حج گروپ آرگنائزروں کو عازمین حج کو لے جاتے بیس برس ہو چکے ہیں حکومت کو ان کی کمپنیوں کی Assessementکا خیال اب آیا ہے۔ حج گروپس آرگنائزروں کی تنظیم ہوپ خاصی متحرک اور مضبوط ہے جس نے وزارت مذہبی امور کے اس اقدام کے خلاف عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر لیا ہے جس کے بعد وزارت مذہبی کا ٹور آپرٹیروں کی تعداد میں کمی کا منصوبہ فی الوقت کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ جو حکومت اقتدار میں آتی ہے اس کے وزیر منصب سنبھالتے ہی اس بات کا اعلان کرتے ہیں وہ عازمین حج کے لئے سعودی حکومت سے زیادہ سے زیادہ سہولتیں لیں گے۔ عازمین حج تو تمام اسلامی ملکوں سے حج کی سعادت کے لئے جاتے ہیں۔ سعودی حکومت کی تمام عازمین حج کیلئے سہولتیں یکساں ہوتی ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو۔ اب تو سعودی حکومت نے حج و عمرہ کو ایک طرح سے سیاحت کا درجہ دے دیا ہے، خصوصا عمرہ زائرین کو سعودی حکومت کے تمام شہروں میں جانے کی اجازت دے دی گئی ہے، ورنہ ماضی میں حج و عمرہ زائرین مکہ مکرمہ سے جدہ نہیں جا سکتے تھے۔ یہ علیحدہ بات ہے زائرین حج وعمرہ اپنے طور پر چھپ چھپا کر پرائیویٹ گاڑیوں میں جدہ چلے جاتے تھے قانونی طورپر انہیں ماسوائے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے کہیں اور جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ پرائیویٹ گروپس میں لے جانے والی کمپنیوں کی کارکردگی کا حج کے دوران علم ہو جاتا ہے لہذا حج گروپس آرگنائزرز کی Assessementکا دوران حج پتہ چل جاتا ہے۔ تمام عازمین حج منی اور عرفات پہنچ جائیں، خیموں میں رہنے اور کھانے پینے کے انتظامات کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا جا سکتا ہے آیا جس گروپ آرگنائزر کے ساتھ عازمین حج آئے ہیں کیا اس کے انتظامات تسلی بخش ہیں؟۔ حقیقت یہ ہے جو وزیر آتا ہے وہ نئی کمپنیوں کو رجسٹرڈ کرنے ہدایات دیتا ہے، جس کے نتیجہ میں اب انرول ہونے والی کمپنیوں کی تعداد کئی ہزار پہنچ چکی ہے لیکن وہ حج کوٹہ سے محروم ہیں، جو وزارت مذہبی امور میں مبینہ د نظمی کی واضح مثال ہے۔ امسال عازمین حج کو کرڑوں روپے لوٹانے پڑے ہیں حالانکہ سرکاری سکیم میں جانے والوں کے رہائشی انتظامات بروقت ہوں تو کرایوں کی رقم واپس کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ چند روز پہلے نگران وزیر مذہبی امور کا بیان نظر سے گزرا، جس میں حج انتظامات کو قبل از وقت کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے جو خوش آئند بات ہے۔ ہم نگران وزیر مذہبی امور سے درخواست کریں گے وہ پہلے مرحلے کے طور پر ان کمپنیوں کا سراغ لگانے کی کوشش کریں جس میں ایک ہی خاندان کے افراد کے نام کئی کئی کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔ اس مقصد کے کے لئے باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت ہے۔ چند سال قبل کوٹہ کے حصول کے لئے حج گروپ آرگنائزرز سپریم کورٹ پہنچ گئے، جس کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے کوٹہ کی تقسیم کا فارمولا طے کیا، جس کی روشنی میں اب تک ٹور آپرٹیروں میں کوٹہ کی تقسیم کا سلسلہ جاری ہے۔ حقیقت تو یہ ہے جب تک حکومت نئے حج گروپ آرگنائزروں کی انرولمنٹ کا سلسلہ بند نہیں کرے گی حج کوٹہ کی تقسیم میں شکایات کا سلسلہ جاری رہے گا لہذا اس خرابی کو ختم کرنے کے لئے نگران حکومت کو ٹھوس حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے تاکہ کوٹہ کی تقسیم میں شکایات کا باب مکمل طورپر بند ہو سکے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ وزارت مذہبی امور کے حکام کو بغیر کسی دبائو کے اپنے فرائض کی انجام دہی کرنی چاہیے۔ وزارت مذہبی امور میں بعض ملازمین کا ٹور آپرٹیروں سے مضبوط گٹھ جوڑ ہے، جو حج انتظامات سے متعلق قبل از وقت خبر رسانی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ مذہبی امور کے حکام اور ملازمین کو عازمین حج سے متعلق امور کو نمٹاتے وقت خوف باری تعالیٰ ذہن میں رکھنا چاہیے ۔ عازمین حج میں بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو عمر بھر پیسہ پیسہ جمع کرکے اس مقدس فرض کی ادائیگی کے لئے جاتی ہیں۔ دو عشرے پہلے عازمین حج کو حج گروپ آرگنائزوں کی توسط سے بھیجنے سے قبل بعض لوگ مذہبی امور کے شعبہ کمپیوٹر اور قومی بینکوں کے عملہ سے ملی بھگت کرکے عازمین حج کو پرائیویٹ گروپس میں بھیجنے کا کام کرتے تھے جو مذہبی امور کے ملازمین کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ حج گروپ آرگنائزروں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو وزارت مذہبی امور کے عملہ کی ملی بھگت سے عازمین حج کو سعودی عرب بھیجا کرتے تھے جو اب باقاعدہ کئی کئی کمپنیوں کے مالک ہیں۔ عازمین حج کو ٹور آپرٹیروں کے ذریعے بھیجنے سے وزارت مذہبی امور پر کام کا بوجھ بہت کم ہو گیا ہے۔ بہتر تو یہی ہے حکومت تمام عازمین حج کو نجی گروپس میں بھیجنے کا طریقہ اختیار کرے جیسا کہ دیگر اسلامی ملکوں کے عازمین حج پرائیویٹ گروپس میں جاتے ہیں اور مذہبی امور کی وزارت بطور ریگولٹری ادارے کے طور پر کام کرے تو حکومت کا کام آسان ہو جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button