ColumnJabaar Ch

’’ سرکاری مفتا ‘‘

جبار چودھری
ہمارے نوے فیصد مسائل صرف اسی لیے مسائل ہی رہتے ہیں کیونکہ ہماری بطور قوم اپروچ مسائل کے حل کے لیے سوچ بچار کرنے کی ہے ہی نہیں۔ ہمارا سارا فوکس مسائل پر الزام تراشی اور ان مسائل کو اپنے اقتدار کے حصول اور سیاست کے لیے استعمال کرنا رہ جاتا ہے۔ ظاہر ہے قومی سطح کے مسائل کا حل عمومی طورپر حکومت کرنے والوں کی ذمہ داری ہوتی ہے تو جو جو حکومت میں آجاتا ہے وہ مسائل کی گردان کرنا کچھ وقت کے لیے بند کر دیتا ہے اور جو سرک کر اپوزیشن میں چلا جاتا ہے اس کے لیے مسائل اور مشکلات خوشی کا باعث بننے لگتی ہیں۔ وہ ان مسائل کو لے کر حکومت پر تنقید کرتا ہے۔ اس کو نااہل اور ناتجربہ کار ثابت کرتا ہے اور اس کو ہٹا کر خود کو لانے کی مہم چلا تا ہے ۔ جب خود وہاں پہنچ جاتا ہے تو پھر وہی معذرت خواہانہ رویہ اپناتا ہے۔ مسائل اور مہنگائی کو عالمی منڈی سے جوڑتا ہے اور کبھی اپنی مجبوریوں کا رونا روتا ہے بس ہماری یہی چھوٹی سی کہانی ہے۔ مسائل اقتدا رکی آگ کا ایندھن ہوتے ہیں اور ان کا حل سیاسی آگ کے لیے پانی کا کردار ادا کرتا ہے۔ حکمرانوں کو ایندھن چاہیے ہوتا ہے نہ کہ پانی۔دوسرا ایشو ہمارا یہ بن چکا ہے کہ جو چیز نظر آتی ہے اس کے استعمال پر ٹوٹ ہی پڑتے ہیں ۔ اس کی سپلائی کہاں سے آئے گی اس کی پیداوار میں اضافہ کیسے کرنا ہے یہ والا پہلو ہمیں یاد ہی نہیں رہتا۔ ہمارے ادارے اس قدر بے بس کہ خدا کی پناہ۔ سرکار کے کاغذوں میں ایک الگ ہی دنیا آباد ہے۔ پوری قوم آج کل مہنگائی کی عذاب میں مبتلا ہے۔ بجلی مہنگی ہے ۔ گیس ہے ہی نہیں۔ پٹرول مہنگا ہے۔ عوام کے لیے ان چیزوں کے بل دینا ناممکن سطح پر پہنچ رہا ہے ۔ عوام یہ مطالبہ اور توقع کر رہے ہیں کہ اس مشکل وقت میں حکمران، بیوروکریٹس، ججز، جرنیل اور باقی سرکاری مراعات یافتہ طبقہ ان کے ساتھ کھڑا ہوجائے۔ وہ فری کی بجلی استعمال کرنا ختم کر دے۔ وہ مفت کا پٹرول اور سرکاری گاڑیوں کا استعمال ختم کر دے لیکن یہ سرکاری مراعات یافتہ طبقہ اس معاملے پر گونگا بہرہ بنا بیٹھا ہے۔ کسی کی مجال ہے کہ ان کا ’’مفتا‘‘ ختم کر سکے۔ یہ لوگ جو مفت کا پٹرول، گھر، بجلی اور گاڑیاں استعمال کرتے ہیں اگر اپنا کام بھی ایمانداری سے کریں تو شاید عوام کو مراعات کی تکلیف نہ ہو لیکن کام کا یہ عالم ہے کہ سبحان اللہ۔ چینی پاکستان میں بنتی ہوتی ہے۔ کسان گنا اگاتا ہے اور شوگر ملز والے گنا خرید کر چینی بناتے ہیں۔ پاکستان میں ہر دوسرے سال چینی کا بحران آتا ہے اور یہ بحران انہی سرکاری افسروں کی ناک کے نیچے سے پیدا ہوتا ہے اور یہ فری مراعات کھانے والے اس ’’ مین میڈ‘‘ بلکہ ’’ مافیا میڈ‘‘ بحران کے آگے ریت کی دیوار سے بھی ہلکے اور کمزور ثابت ہوتے ہیں۔ اس وقت پھر چینی کا بحران ہے۔ سرکار کے کاغذوں میں چینی کی سرکاری قیمت اٹھانوے روپے مقرر ہے، لیکن مارکیٹ میں یہ چینی آج کی تاریخ میں 180سے 200 روپے مل رہی ہے۔ یہ ایک ایسا کیس ہے جس سے آپ بیوروکریسی اور حکومتوں کے کام کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ یہ بات یاد رکھیں کہ چینی کی قیمت میں عالمی منڈی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ سب کچھ پاکستان میں پیدا ہوتا ہے لیکن ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر، اس کے نیچے اسسٹنٹ کمشنر سرکاری مراعات اور ڈبل کیبن گاڑیوں میں مفت کا پٹرول جلاتے ہیں، وہ اپنے نیچے سرکار کی مقرر کردی چینی کی قیمت پر عمل درآمد کروانے میں ناکا م ہیں تو پھر ان کو سرکاری مراعات دینے کا جواز کیا ہے؟ گنے اور چینی کے معاملات دیکھنے اور ریگولیٹ کرنے کے لیے ہر ضلع اور پنجاب کی سطح پر کین کمشنر بھی موجود ہیں اور وہ بھی اسی طرح بیوروکریٹ اور سرکاری مراعات وصول کر رہے ہیں لیکن چینی ایک ماہ میں ایک سو اسی روپے تک پہنچ گئی۔ یہ لوگ یہ بیوروکریٹ سرکار کے ملازم ہیں یا اس مافیا کے پے رول پر ہیں؟ چینی کی قیمت جب ایک سو روپے سے اوپر جانے کے خدشات پیدا ہوئے تو پنجاب حکومت نے چینی کی سرکاری قیمت سو روپے مقرر کردی۔ شوگر ملز والے جو منافع خوری کا منصوبہ سوچے بیٹھے تھے وہ فوری لاہور ہائی کورٹ چلے گئے اورہماری عدلیہ بھی کمال کی عدلیہ ہے۔ لاہور ہائی کورٹ جہاں مائی لارڈ کے چیمبرز میں چائے کے لیے آنے والی چینی بھی سرکاری ہوتی ہے شاید اس لیے انہیں اندازہ ہی نہیں کہ چینی کی قیمت کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ اس لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب حکومت کے اس فیصلے کے خلاف شوگر ملز مالکان کے حق میں سٹے دے دیا اور پھر کئی ماہ تک اس کیس کی سماعت ہی نہیں ہوئی ۔ ہماری عدلیہ سٹے دینے کے بعد بھول جاتی ہے کہ اس کیس کی سماعت کبھی کرنی ہے۔ سٹے کی ایک اور مثال قاسم سوری کا الیکشن بھی ہے۔ قاسم سوری دھاندلی کرکے الیکشن جیتے تو مخالف امیدوار نے الیکشن ٹربیونل سے رجوع کیا۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے ان کو ڈپٹی سپیکر بنا دیا۔ الیکشن ٹربیونل نے قاسم سوری کو دھاندلی کرنے پر نااہل کر دیا اور ان کے حلقے میں دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دیا۔ قاسم سوری فوری طور پر اس وقت ثاقب نثار کی عدالت میں پہنچ گئے۔ سپریم کورٹ نے قاسم سوری کو سٹے دے دیا
اور پھر کبھی اس کیس کی سماعت نہیں کی۔ قاسم سوری جعل سازی کرکے ایوان میں پہنچے اور ساڑھے تین سال ڈپٹی سپیکر رہے، سپریم کورٹ کو کبھی خیال نہیں آیا کہ اس نے نچلی عدالت کا ایک فیصلہ معطل کر رکھا ہے۔ ایک شخص دوسرے امیدوار کا حق مار کر آیا ہے اور ہم اسے تحفظ کیوں دے رہے ہیں ۔ کیا اس طرح جعل ساز کو تحفظ دینا انصاف کی خدمت ہے یا انصاف کا قتل اور اعلیٰ ترین انصاف کے عہدے پر بیٹھے اشخاص کی طرف سے ناانصافی کی اعلیٰ ترین مثال؟ عدلیہ کے کارناموں پر اور کیا بات کی جائی کہ اس وقت بھی سپریم کورٹ وہ مقدمے سن رہی ہے جن کی تاریخیں گزر چکی ہیں۔ ابھی سپریم کورٹ نے پنجاب میں الیکشن کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کا کیس سنا اور وہ فیصلہ برقرار رکھا جس پر سپریم کورٹ عمل درآمد ہی نہیں کروا پائی تھی۔ ابھی آج پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کیس سن رہی ہے۔ وہ پرویز مشرف جو سال پہلے انتقال کر چکے۔ ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے دو ہزار سات میں درخواست آئی تھی۔ کمال ہی کمال ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ عدلیہ کا ادارہ کس طرح کام کرتا ہے۔ اس کے نزدیک مقدمات سننے کی ترجیح کیا ہے۔ اسی سپریم کورٹ میں ہزاروں کی تعداد میں ایسی درخواستیں سماعت کی منتظر ہیں جو لوگ جیلوں میں قید ہیں۔ ان کو سزائیں ہوچکی ہیں انہوں نے ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کر رکھی ہیں۔ یہ اپیلیں سننے کے لیے میری سپریم کورٹ کے پاس وقت نہیں ہی لیکن ایک شخص کو جیل سے نکالنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ سوال تو اٹھے گا کہ کیا اس وقت ملک کی سپریم کورٹ بھی سرکاری مراعات یافتہ حکمران اشرافیہ کی طرح عوام کے ساتھ کھڑی نہیں ہوگی۔ ملک میں ہر طرف مہنگی بجلی نے آگ لگا رکھی ہے۔ پٹرول تین سو کراس کر گیا ہے اور چینی ڈبل سنچری کرنے جارہی ہے لیکن انصاف کے یہ ادارے منہ میں دہی جما کر بیٹھ رہے ہیں۔ کیا پنجاب حکومت کے چینی کی قیمت سو روپے مقرر کرنے کے فیصلے کو سٹے کرنے والی لاہور ہائی کورٹ اس کیس کو کبھی سنے گی ؟ اور اگر سنے گی تو کیا شوگر ملز سے سوال کرے گی کہ اس وقت سو روپے قیمت تھی تو یہ چند ماہ میں ایک سو اسی روپے تک کیسے پہنچ گئی۔ ایسے کیا عوامل تھے کہ آپ کے گوداموں میں پڑی بنی ہوئی چینی مہنگی ہوگئی؟ کیا حکومت کی طرف سے چینی برآمد کرنے کی اجازت قیمتیں بڑھنے کی وجہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو حکومت کے فیصلے کیخلاف کوئی کارروائی ہو اور اگر مطلوبہ اسٹاک موجود ہے جیسا کہ بتایا جاتا ہے تو پھر چینی کیوں مہنگی ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں چینی کا ایسا ہی بحران پیدا ہوا تھا تو افتخار چودھری چیف جسٹس تھے انہوں نے چینی کی قیمت چالیس روپے کلو مقرر کردی تھی۔ اس فیصلے پر عمل کرواتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے شوگر ملز کے گوداموں سے ساری چینی اٹھوا کر حکومتی نگرانی میں چالیس روپے کلو کے حساب سے فروخت کروائی تھی، کیا اب کوئی ایسا قدم نہیں اٹھ سکتا ؟ کیا یہ ریاست بالکل ہی بانجھ ہوگئی ہے؟ اس ملک کے لوگ کہاں جائیں کس سے منصفی چاہیں؟ اگر کسی کے پاس اس چوبیس کروڑ عوام کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے کوئی ریلیف نہیں ہے تو پھر یہ کرسی ہے تمہارا جنازہ تو نہیں ہے اتر جائیے۔ اس سسٹم کو لگی مراعات یافتہ جونکوں کو اتار دیجئے۔ اگر ملک ایک ہے تو پھر سب لوگ ایک قطار میں کیوں نہیں کھڑے ہوجاتے تاکہ نفرت اور تقسیم کو کچھ تو کم کیا جا سکے۔ یہ ’’ سرکاری مفتا‘‘ جب تک ختم نہیں ہوگا، یہ مراعات یافتہ اور محروم طبقہ موجود رہے گا اور جب تک یہ تقسیم باقی ہے مسائل مسائل ہی رہیں گے حل نہیں نکلے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button