ColumnTajamul Hussain Hashmi

خبروں سے احتساب

تجمل حسین ہاشمی
سوشل میڈیا ، واٹس اپ گروپس میں وائرل کی گئی یا کروائی جانے والی خبروں اور سینئر کالم نگار خوشنود علی خان کی پیش گوئیوں کو تفصیلا پڑھا۔ سینئر صحافی کا موقف لینے کے لیے رابطہ کیا گیا کیوں کہ آج کل فیک نیوز کھلے عام دستیاب ہے، سینئر صحافی کا جواب تو نہیں آیا۔ سینئر صحافی نے ذاتی انکشافات کو انتہائی اہم قرار دیا ہے، کیا واقعی ایسا ہونے جا رہا ہے۔ جناب نے کالم میں لکھا کہ ’’ کئی لوگ سمجھ رہے تھے کہ بچ گئے ہیں یا بچ جائیں گے، انہیں بھی جیل کی ہوا کھانی پڑے گی، مزید کہنا تھا کہ میری ذاتی معلومات یہ ہیں ان سب کو اٹھا کر ہوٹلوں میں رکھا جائے گا اور جیسا سعودی عرب میں ہوا ہے اسی طرح ان سب کو آفر دی جائے گی کہ وہ ہوٹل میں رہتے ہوئے وہ اتنا پیسہ حکومت پاکستان کو ادا کریں‘‘۔ ساٹھ افراد سے مطلق خبر من گھڑت نکلی۔ ائیر پورٹس انتظامیہ کو ایسی کوئی لسٹ نہیں دی گئی جس میں 60افراد کا نام شامل ہوں۔ وائرل مواد جھوٹ کا پلندہ نکلا۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما مسرور سیال کو ایم پی اے ظاہر کیا گیا تھا، حقیقت یہ ہے وہ تو کبھی ایم پی اے منتخب نہیں ہوئے ۔ اس سے بری من گھڑت خبر اور کیا ہو سکتی ہے، اصل لینڈ گریپر، لینڈ مافیا کے ساتھ ایماندار پولیس افسران کے نام شامل کر کے ان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ بغیر کسی ثبوت کے وائرل کروائی گئی خبر کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ سینئر صحافی سے سوال ہے کہ کیا پاکستان میں ایسا ممکن ہو سکتا ہے ؟ جس کا ذکر سینئر صحافی نے اپنے کالم میں کیا ہے، سعودی عرب میں بادشاہت ہے، لیکن پاکستان میں جمہوری نظام ہے، جہاں پارلیمان فیصلے کرتی ہے اور پارلیمنٹ میں عوام کے منتخب نمائندے فیصلے کرتے ہیں، جو ووٹ حاصل کر کے آتے ہیں ۔ بے شک وہ بعد میں اسی عوام کو لوٹتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر آتی ہیں، ایسا کیسے ممکن ہو سکے گا کہ جمہوری نظام بھی ہو، ہوٹل بھی اور آئین پاکستان بھی۔ نگران وزیر داخلہ سندھ نے مکلی انٹر بائی پاس پر میڈیا کو بیان دیتے ہوئے کہنا تھا کہ سندھ میں کچے، پکے کے ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔ کسی کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کر رہے، جن کے خلاف نیب اور دوسرے کیس ہیں، ان پر کارروائی ہو رہی ہے۔ سندھ کو امن کا گہوارہ بنائیں گے، نگران وزیر داخلہ سندھ کے بیان کے بعد لوگوں کی ذاتی معلومات میں حقیقت باقی نہیں بچتی، ایسی تحریریں مفادات اور وقتی فوائد تو حاصل کر لیتی ہیں لیکن ملکی معیشت پر اثر انداز ہوتی ہیں، تاجر برادری کبوتر کی مانند ہوتی ہے، جہاں دانہ ملتا ہے وہاں پر روک جاتے ہیں، اس وقت پاکستان کو سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ایسے حالات سرمایہ دار کو خوفزدہ کرتے ہیں۔ سندھ میں مرتب کی جانے والی 60افراد کی لسٹ میں چند اصل لینڈ مافیا ہیں۔ یہ خبر آدھی سچی ادھی جھوٹی لگتی ہے۔ بغیر ثبوت کے خبر فیک سمجھی جاتی ہے۔ جرم کی روک تھام کے لیے حساس اداروں کی طرف سے ڈیٹا مرتب کیا جاتا ہے، جو ملک کی سلامتی اور معاشی صورتحال کے لیے مدد گار ہوتا ہے۔ رشوت کے بازار اور منی لانڈرنگ نے ملک کو کمزور کر دیا ہے۔ اس وقت ملک کو در پیش چیلنج زیادہ تر اندرونی ہیں۔ ملک میں موجودہ سیاسی، سماجی اور کاروباری شخصیات اپنا مال ڈبل کر رہی ہیں۔ دوسرے وہ افراد ہیں، جو سرکاری ملازم ہیں جو ان افراد کی پست پناہی کر رہے ہیں۔ عوام کے جائز کاموں کی بھی رشوت وصول رہے ہیں، ان افراد کو معاشرہ سے الگ کرنا ان کا ڈیٹا مرتب کرنا اعلیٰ اداروں کی بنیادی ترجیحات ہونی چاہئے اور ان افراد کے خلاف سخت کارروائی کو یقینی بنانا انتہائی ضروری بن چکاہے رشوت معیشت کو سکڑا دیتی ہے جس سے معیشت سرکل کمزور ہو جاتا ہے اور طاقتور معاشی نظام پر قابض ہوتا جاتا ہے۔ پیسہ چند طاقتور خاندانوں کے ہاتھوں میں سکڑ جاتا ہے، حکومتی احتساب کے خوف سے اس پیسے کو منی لانڈرنگ کر دیا جاتا ہے، طاقتور مزید طاقتور بن کر ریاستی نظام کو چیلنج کرنا شروع کر دیتا ہے۔ طاقتور خاندان جمہوری نعروں سے قوم کے خون کو گرم رکھتے ہیں، قوم کی تقسیم میں ان کے مفادات ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو گھر بھیجنے کے پلان میں غریب کی غربت نہیں ایک خوف ( احتساب ) تھا جس کا ذکر خواجہ سعد رفیق نے بھی کیا ۔ احتساب کا ذکر سینئر صحافی خوشنود علی خان نے اپنے کالم میں کیا ہے ، لیکن میں کئی باتوں سے اتفاق نہیں کرتا کیوں جمہوری نظام میں ایسا ممکن نہیں ہو سکتا۔ ملک کی معاشی حالت اس وقت کسی ایکشن کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ طاقتور مافیا کے خلاف کارروائی کرنا بھی ضروری ہے۔ پچھلے 75سال میں ڈالر 180روپے تک پہنچا اور اتحادی حکومت کے 16ماہ میں ڈالر کی اڑان نے 75سال کا ریکارڈ توڑ دیا۔ ان 76سال سے ہمسائے بھی وہی ہیں۔ پاکستان میں بیٹھے گدی نشین بھی وہی ہیں، معدنیات اور وسائل بھی وہیں پڑے ہیں، اور ہمارے ہاں پاور پولیٹکس جاری ہے، لیڈر شپ کی ایمانداری پر لاکھوں سوالات کے بعد بھی وہ تخت نشین ہیں۔ اگلے سال 2024ء میں پاکستان کو بیرونی قرضوں اور دیگر بلز کی ادائیگی کے لیے 22ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button