Abdul Hanan Raja.Column

مطالبہ منصفانہ انتخابات کا نہیں

تحریر : عبد الحنان راجہ
عنوان غیر مانوس اور بادی النظر میں حیران کن بھی کہ سیاست دانوں بشمول سیاسی کارکنان کا کبھی بھی مطالبہ منصفانہ نہیں رہا بلکہ ہر سیاسی جماعت کو ایسی رائے شماری چاہیے کہ جس سے وہ برسراقتدار آ سکے۔ روایتی سیاسی جماعتیں ہوں یا تبدیلی کی علمبردار پاکستان تحریک انصاف کہ جس کی اٹھان ہی بدعنوانی کے خلاف جدوجہد سے ہوئی اور کپتان کے اس نعرہ نے شاید پہلی بار دو روایتی سیاسی جماعتوں کو ٹکر دی کہ عشروں سے اس نظام میں جمے انکے قدم اکھڑنے لگے۔ بدعنوانی، لاقانونیت اور آئے روز ہونے والی آئین کی پامالی سے تنگ عوام نے کپتان کو خوش آمدید کہا.۔ بلاشبہ ان کا بیانیہ دل چھو لینے والا اور ایک نئے پاکستان کا خواب تھا، مگر حیران کن طور پر اس جماعت نے بھی کبھی انتخابی اصلاحات کی بات نہ کی۔ یعنی وہ بھی تھوہر کے درخت سے آم کی پیداوار کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ دیگر جماعتوں کو تو رائج انتخابی نظام قبول کہ دھونس، دھاندلی اور سرمایہ سے ہی انکی انتخابی مہم چلتی ہے اور ہر کامیابی ضمانت، مگر پی ٹی آئی اس بے معنی ایکسرسائز سے باہر کیوں نہیں آتی یہ مجھ سمیت ہر ذی شعور، معتدل اور جمہوری اقدار کے خواہاں کی سمجھ سے باہر ہے۔ کون عقل مند رائج سسٹم میں منصفانہ انتخابات کی ضمانت دے سکتا ہے۔ اس بات کو واضح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شفاف انتخابات اور منصفانہ ووٹنگ دو الگ الگ عمل ہیں۔ صاحبان فہم و دانش اور تبدیلی و انقلاب کے خواہاں اصلاح نظام کے باب میں اس پہ رائے زنی کر سکتے ہیں۔ منصفانہ انتخابات ایک مکمل پیکیج جبکہ صاف و شفاف رائے شماری اس پیکیج کا ایک جزو، آخری جزو کو قابل قبول اور منصفانہ بنانے کے لیے قرارداد مقاصد اور آئین کے آرٹیکل 62و 63پر عمل درآمد مناسب حد تک ہی سہی مگر ضروری۔ مگر آج تک ہونے والے تمام انتخابات ان شقوں پر عمل درآمد کے بغیر ہی ہوئے اور ان میں سے کسی انتخابی عمل کو دیانت کے معیار پر پرکھا نہیں جا سکتا۔ لطف تو یہ کہ ہر الیکشن کے بعد سبھی سیاسی جماعتیں انتخابی نتائج بارے شکوک و شبہات کا شکار رہیں اور رہیں گی، جو جماعت بھی اس ڈھونگ ووٹنگ کے ذریعی اقتدار میں آ جائے وہ اپنے دور حکومت میں پھر اس پر بات نہیں کرتی۔ آئین کہ جس کی الیکشن کمیشن سے لیکر دیگر ادارے اور ممبران اسمبلی دھجیاں اڑاتے ہیں مگر بات ہر فورم پر اسی آئین کی کرتے نہیں تھکتے۔ کیسا منافقانہ طرز عمل کہ جو نہ صرف انہوں نے بلکہ عوام نے بھی روا رکھا ہوا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62اور 63میں درج شقوں کے مطابق کوئی مجرم، قاتل، بدعنوان، شرابی، زانی، غنڈے، ان پڑھ، جھوٹے اور بنیادی اسلامی تعلیمات سے نابلد انتخاب میں حصہ لینے کا اہل نہیں۔ مگر کیا وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن سمیت ہمارا نظام انصاف گزشتہ پانچ دہائیوں سے آئین کے ساتھ ہونے والے اس کھلواڑ میں حصہ دار ہیں.۔ اب کوئی دیانت دار و ایمان دار ماہر قانون ہی ان غیر آئینی انتخابات، ان کے نتیجہ میں بننے والی حکومتوں اور انکے فیصلوں کی قانونی حیثیت بارے بتا سکتا ہے؟، کیا صرف 60یا 90روز میں ووٹنگ ہی سارا آئین اور درست مطالبہ ہے کہ اس سے ذرا سا انحراف کیا ہو قانونی ماہرین، تجزیہ نگاروں سمیت سیاسی رہنمائوں حتی کہ کارکنان کی رگ جمہوریت پھڑک اٹھتی ہے اور وہ اس کے اثرات و مضمرات میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے نظر آتے ہیں۔ میری دانست میں عوام کو چوروں، سیاسی مداریوں، لٹیروں، بدعنوانوں اور ظالموں کی ایسی چس پڑھ گئی ہے کہ انہیں بھی شفاف اور منصفانہ انتخابات ہضم نہیں ہوتے۔ مسئلہ وقت پر ووٹنگ کا نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ آئین کے محافظ، ریاستی ادارے اور الیکشن کمیشن آج تک پورے انتخابی عمل کو آئین کی روح کے مطابق نافذ کرنے میں ناکام کیوں رہے؟۔ سسٹم کی خرابیوں کے باوجود جو سیاست دان انتخابات کو ہی مسائل کا حل سمجھتے ہیں وہ خود دھوکہ میں ہیں یا عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں، کہ بنیادی شرائط پہ پورا اترے بغیر اہل، دیانت دار، متوسط اور مخلص قیادت کیسے آگے آ سکتی ہے ۔ میرے خیال میں کم و بیش سبھی سیاسی جماعتوں کا صدق دل سے شفاف انتخابات کبھی بھی مطالبہ نہیں رہا کہ انہیں صرف وہی ووٹنگ قبول جو انہیں مقتدر کر دے۔ مگر یہ جان رکھیے کہ آئین کی ان شرائط پر عمل درآمد کے بغیر ایک تو کیا 100انتخابات بھی بے معنی، قومی سرمایے کا ضیاع اور عوام کے ساتھ دھوکہ ہی ہو گا۔ کم از کم تبدیلی کی علمبردار جماعت کو 2013میں اس مارچ کا حصہ بننا چاہیے تھا جو الیکشن سے قبل انتخابی اصلاحات بارے ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کیا تھا کہ اس وقت پی ٹی آئی مقبولیت کی بلندیوں پر تھی اور اس کی مارچ میں شمولیت اس مطالبہ پر عمل درآمد کی ضمانت بن سکتی تھی۔ مگر قیادت کی کوتاہ نظری کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مجرم عوام ماضی کی طرح ناانصافی، ظلم، مہنگائی اور غربت کا رونا روتی رہے گی۔ عوام نے اپنے سیاسی آقائوں کی اقتدا میں اس سیاسی محکومی کو قبول کر لیا ہے جو 7دہائیوں سے انہوں نے خود پر مسلط کر رکھی ہے۔ اقبال نے کہا تھا:
محکوم کا دل مردہ و افسردہ و نومید
آزاد کا دل زندہ و پرسوز و طرب ناک
محکوم ہے بیگانہ اخلاص و مروت
ہر چند کہ منطق کی دلیلوں میں ہے چالاک
ممکن نہیں محکوم ہو آزاد کا ہمدوش
وہ بندہ افلاک، یہ خواجہ افلاک!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button