ColumnRoshan Lal

شانتی نگر سے جڑانوالہ تک اور۔۔۔۔۔

تحریر : روشن لعل
اہل وطن نے اپنے ہم وطنوں کے ساتھ جڑانوالہ میں جو کچھ کیا یہ اس ملک میں پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ کہا جاسکتا ہے کہ جڑانوالہ میں جو کچھ ہوا اسے جب صرف مسیحی خاندانوں نے جھیلا تو ان کا نام لکھنے میں کیا حرج ہے ۔ یہ بات درست ہے کہ جڑانوالہ میں جو قیامت برپا کی گئی اس کا نشانہ صرف مسیحی خاندان بنے مگر آغاز میں ان کا نام جان بوجھ کر اس لیے نہیں لیا گیا کیونکہ وہاں جو کچھ ہوا اسے یہاں صرف مسیحوں کو نہیں بلکہ کئی دیگر اقلیتی مذہبی گروہوں کے لوگوں کو بھی آئے روز بھگتنا پڑتا ہے۔ معصوم مسیحی خاندانوں کو جس طرح جلائو گھیرائو کرتے ہوئے نشانہ بنایا گیا یہ اپنے طور پر ایک بہت بڑا المیہ ہے مگر اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ جس الزام کو جواز بنا کر ان پر قیامت برپا کی گئی وہ نہ کبھی پہلے درست ثابت ہو سکا اور نہ اب اس میں سچ تک پہنچنے کا کوئی سرا نظر آرہا ہے۔ جو کچھ اس وقت نظر آرہا ہے اس کے لیے اگر بہت نرم لفظ بھی استعمال کئے جائیں تو اسے بہیمانہ ظلم کے علاوہ کچھ اور نہیں کہا جا سکتا۔ اگر کسی کو یاد نہ ہو کہ ظلم کسے کہتے ہیں تو وہ جان لے کہ جذبات کو ایک طرف رکھ کر کی گئی ظلم کی تعریف کے مطابق کسی فرد یا افراد کے کسی گروہ کے ساتھ بدنیتی یا جھوٹ پر مبنی جواز اور الزام کے تحت طاقت کا بے جا استعمال کرتے ہوئے کئے گئے غیر واجب اور غیر منصفانہ سلوک کا نام ظلم ہے۔ جن لوگوں نے جڑانوالہ میں غریب مسیحیوں پر ظلم کیا ان کے متعلق یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اپنی طرف سے انہوں نے یہ کام مذہبی جوش جذبہ کے تحت کیا۔ اگر یہاں صرف ظلم کے خلاف مذہبی احکامات کو ہی بیان کرنا شروع کر دیا جائے تو اس تحریر کا دامن تنگ پڑ جائے گا جبکہ مذہب میں صرف ظلم ہی نہیں بلکہ بدنیتی، جھوٹ، غلط الزام، طاقت کے بے جا استعمال اور غیر منصفانہ سلوک کو بھی بدترین عمل قرار دیتے ہوئے الگ سے بہت کچھ بیان کیا گیا ہے۔ ظلم کے ضمن میں مذہبی احکامات کو ایک طرف رکھ کر اگر صرف دنیاوی تجربات کی بنیاد پر اخذ ہو چکے نتائج کی بات کی جائے تو ان نتیجوں کی رو سے کہا جاتا ہے کہ جہاں بھی ظلم ہو ، اس کے پیچھے حکومتوں سمیت ریاستی اداروں کی غفلت اور مقتدروں کے اپنے اختیارات استعمال کرنے میں ہچکچاہٹ کا بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔ ریاست اور حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ایسی روایات، ثقافتوں، رجعتی نظریات اور رویوں کی پیشگی بیخ کنی کرے جن کے پنپنے اور موجودگی کی وجہ سے اکثریتی لوگوں کو ہجوم بنا کر کسی اقلیتی گروہ پر ظلم کرنے کو موقع یا جواز مل سکتا ہے مگر ہماری ریاست اور حکومتیں اپنی عدم دل چسپی کی وجہ سے ایسا کچھ بھی کرنے میں مسلسل گریز کرتی نظر آتی ہیں۔ جڑانوالہ میں جو کچھ ہوا اس کے لیے ہماری ریاست اور حکومتوں کی مذکورہ عدم دلچسپی کو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
جڑانوالہ میں جو ظلم برپا کیا گیا اس کی تفصیل بڑی حد تک منظر عام پر آچکی ہے۔ اس تفصیل میں کچھ بھی ایسا نہیں ہے جسے دیکھ کر کہا جائے کہ ظلم و زیادتی پر مبنی گزشتہ واقعات کی نسبت جڑانوالہ میں کچھ الگ یا مختلف ہوا ہے ۔ جڑانوالہ کی حالیہ کہانی کو بلا جھجھک گزشتہ کہانیوں کی ایسی فوٹو کاپی تصور کیا جاسکتا ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ نقل، اصل سے بھی زیادہ واضح اور صاف ہے۔ جو لوگ جڑانوالہ واقعہ کی تفصیل سے آگاہ ہیں مگر انہیں یہ علم نہیں کہ 26برس قبل رونما ہونیوالے اس طرح کے شانتی نگر واقعہ میں کیا ہوا تھا، ان کے سامنے اس واقعہ کی تفصیل رکھی جارہی ہے تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ ربع صدی کا عرصہ گزر نے کے بعد بھی یہاں ظلم برپا کرنے کی روایت جوں کی توں ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 5فروری1997کو 27رمضان المبارک کا دن تھا۔ شانتی نگر خانیوال اور اس کے ارد گرد موجود کچھ دیگر مسیحی دیہاتوں میں یہ خبر پہنچی کہ مساجد میں اعلان کیا جارہا ہے کہ کسی مسیحی نے قران مجید کے اوراق جلا دیئے ہیں۔ یہ سن کر مسیحی مذہبی و سیاسی رہنمائوں نے فوری طور پر ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کر کے اپنے تحفظ کی درخواست کی جس پر انہیں تحفظ کا یقین دلایا گیا۔ اس یقین دہانی کے باوجود 6فروری 1997کی صبح 30000سے زیادہ لوگوں کے اسلحے اور آتش گیر مادہ سے لیس جتھے نے مسیحی دیہاتوں پر حملہ کر دیا ۔ شانتی نگر سے پہلے ٹبہ گائوں میں جلائو گھیرائو کیا گیا۔ ٹبہ گائوں سے دھواں اٹھتا دیکھ کر شانتی نگر کے لوگ اپنا گھر بار جیسے اور جہاں ہے کی بنیاد پر چھوڑ کر جانیں بچانے کے لیے کھیتوں کی طرف دوڑ پڑے۔ بلوائیوں کے واپس جانے کے بعد جب وہ اپنے گائوں واپس آئے تو انہیں یہ منظر دیکھنے کو ملا کہ وہاں لوٹ مار کے بعد جلائے گئی 13گرجا گھروں، 3سکولوں،775گھروں اور 10دکانوں کا ملبہ پڑا ہوا تھا۔ شانتی نگر کی اس کہانی کے بعد اگر کوئی گوجرہ اور جوزف کالونی کی کہانیاں پڑھتا ہوا جڑانوالہ تک آئے تو اسے یہی لگے گا کہ وہ بار بار ایک ہی کہانی پڑھ رہا ہے۔ جڑانوالہ کہانی کے ابھی کچھ اختتامی ابواب لکھے جانے باقی ہیں مگر شانتی نگر جیسا جوزف کالونی کا واقعہ جس میں 9مارچ2013 کومسیحوں کے 200گھر لوٹ مار کے بعد جلا دیئے گئے تھے اس کا اختتامی باب یہ ہے کہ عدالت نے جنوری 2017میں جلائو گھیرائو کے الزام میں گرفتار کئے گئے 100سے زیادہ ملزم بے گناہ قرار دے کر رہا کر دیئے تھے۔
پاکستان میں سری لنکن انجینئر پریانتھا کمارا کا کیس شاید ایک واحد ایسی مثال ہے جس میں اسے تشدد سے مار کر جلانے والوں کو موت اور قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ دسمبر 2021میں رونما ہونے والے اس واقعہ کے ملزموں کو سنائی گئی سزائوں پر ابھی تک اس وجہ سے عمل نہیں ہو سکا کیونکہ انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ ہائیکورٹ میں چیلنج ہو چکا ہے۔ ہائیکورٹ اگر ماتحت عدالت کی دی گئی سزائوں کو برقرار بھی رکھتا ہے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ سپریم کورٹ میں مزید کتنا وقت لگے گا یا وہاں کیا فیصلہ آئے گا۔ ویسے پریانتھا کیس کے معاملے میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ اس کے ملزموں کا مقدر بھی یہاں جوزف کالونی جلانے والے ملزموں جیسا ہی ہوتا اگر اس کیس کی وجہ سے سیالکوٹ شہر سے سپورٹس مصنوعات کی برآمد سے حاصل ہونے والا قیمتی زرمبادلہ دائو پر نہ لگا ہوتا۔ جہاں تک جڑانوالہ کیس کا تعلق ہے تو وہاں کیے گئے ظلم کے الزام میں 150کے قریب ملزم گرفتار ہوچکے ہیں۔ اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ یہ کہانی بھی شانتی نگر اور جوزف کالونی کی کہانیوں جیسے انجام تک پہنچ کر مزید ایسی کہانیوں کے جنم کی راہ ہموار کرتی ہے یا پھر اسے پریانتھا کمارا کی کہانی جیسا انجام دے کر مذہب کے نام پر ظلم کرنے والوں کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ اب ریاست اپنا کردار تبدیل کر چکی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button