ColumnM Riaz Advocate

انتخابات میں تاخیر کی ذمہ دار پی ڈی ایم جماعتیں

تحریر : محمد ریاض ایڈووکیٹ

قومی اسمبلی تحلیل کے بعد پاکستانی قوم عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا انتظار کر رہی تھی لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کی بجائے آئین پاکستان کے آرٹیکل 51کے تحت پاکستان بھر میں حلقہ بندیوں کے لئے ایک نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ جس کے مطابق انتخابات سے پہلے سال 2023کی مردم شماری کی بنیاد پر سب سے پہلے حلقہ بندیاں کی جائیں گی۔ اور حلقہ بندیوں کی اشاعت کی حتمی تاریخ 14دسمبر2023طے پائی ہے اور بقول الیکشن کمیشن حلقہ بندیاں نوٹیفکیشن میں درج تواریخ سے پہلے ہونا ناممکن ہے۔ یعنی اسمبلی تحلیل سے چار ماہ تک صرف حلقہ بندیاں فائنل ہونگی اسکے بعد انتخابات جو بظاہر فروری یا مارچ 2024سے پہلے ممکن دکھائی نہیں دیتے۔ ایک طرف الیکشن کمیشن کو آئین پاکستان کا آرٹیکل 224جو اسمبلی تحلیل کے بعد معینہ مدت یعنی 60یا 90روز میں انتخابات منعقد کروانے کا پابند کرتا ہے جبکہ دوسری طرف الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 51اور آرٹیکل 218کی کلاز 3کے تابع حلقہ بندیوں پر کام شروع کر دیا ہے۔ آرٹیکل 51کی کلاز 5کے مطابق قومی اسمبلی کی نشستیں ہر صوبے اور وفاقی دارالحکومت کو آبادی کی بنیاد پر سرکاری طور پر شائع ہونے والی پچھلی مردم شماری کے مطابق مختص کی جائیں گی۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیوں پر تین صفحات پر مشتمل فیصلہ بھی جاری کیا گیا ہے۔ جسکے مطابق الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کے لئے آئین
پاکستان کے آرٹیکل 218کی کلاز 3کا سہارا لیا ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق یہ الیکشن کمیشن کا فرض ہوگا کہ وہ انتخابات کا انعقاد کرے اور ایسے انتظامات کرے جو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انتخابات ایمانداری، انصاف کے ساتھ، منصفانہ اور قانون کے مطابق ہوں اور بدعنوانی کے عمل کو روکا جائے۔ سادہ الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح پنجاب و خیبر پختونخوا صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 224کی کلاز 2اور سپریم کورٹ کے صوبہ پنجاب میں 14مئی 2023انتخابات کے حکم کا حشر نشر ہوا تھا، بالکل ویسی ہی صورتحال قومی اسمبلی و چاروں صوبوں کے عام انتخابات میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یاد رہے جنوری 2023میں صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کو تحلیل کیا گیا تاہم آج کی تاریخ تک دونوں صوبوں میں نگران سیٹ اپ کے ذریعہ حکومتی اُمور سرانجام دیئے جارہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن و اجلاس میں طے پائے جانے والے فیصلوں پر طرفین کی جانب سے انتہائی مایوسی اور تشویش کا اظہار کیا جارہے ۔
پاکستان میں وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل نے عام انتخابات کے التواء پر سخت تشویش کا اظہار کر دیا۔ بار کونسل نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن آئین کے مطابق مقررہ مدت میں انتخابات کروائے، حلقہ بندیاں دوبارہ ترتیب دینے کا شیڈول انتخابات میں تاخیر کا حربہ ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ مردم شماری کی بناء پر ریاست پاکستان میں اک مرتبہ پھر آئینی بحران جیسی صورتحال پید ا کیسے ہوگئی؟ اور کون اس کا ذمہ دار ہے؟ یاد رہے ڈیجیٹل مردم شماری 2023 یکم مارچ 2023سے22مئی 2023تک جاری رہی جبکہ ڈیٹا اکٹھا کرنے کے بعد کا سروے 8 سے 19جولائی 2023تک جاری رہا۔ جبکہ 5اگست 2023کو اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف کے زیرِ صدارت مشترکہ مفادات کونسل کا 50واں اجلاس منعقد ہوا جس میں مردم شماری 2023کے نتائج کی منظوری دے دی گئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ماہ جولائی تک پی ڈی ایم اتحادی جماعتوں سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے مردم شماری کے نتائج پر خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا۔ 15جولائی کو نجی ٹی وی کے ٹاک شو میں بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ وفاقی حکومت 2023کی مردم شماری کے نتائج کا اعلان نہیں کرے گی اور نہ ہی نتائج کو نوٹیفائید کرے گی تو الیکشن کمیشن آف پاکستان گزشتہ مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کرانے کا پابند ہو گا اور آئندہ انتخابات 2017کی مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے۔ پھر یکدم اسمبلی تحلیل سے کچھ دن پہلے تمام سٹیک ہولڈر نے نا صرف مردم شماری نتائج کی منظوری دی بلکہ حکومت نے ان نتائج کو شائع کرکے الیکشن کمیشن کو آئین کے آرٹیکل 51کی کلاز 5کے مطابق حلقہ بندیاں کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس وقت ہر پاکستانی الیکشن کمیشن کو حرف تنقید بنا رہا ہے۔ جبکہ درحقیقت ریاست پاکستان کو آئینی بحران میں دھکیلنے میں پی ڈی ایم حکومت نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ اور اب پی ڈی ایم جماعتیں انتخابات میں تاخیر پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پی ڈی ایم جماعتوں نے نئی مردم شماری کا اعلان کرنے سے پہلے الیکشن کمیشن سے نئی حلقہ بندیوں بارے بریفنگ لینا کیوں مناسب نہ سمجھا؟ کاش پی ڈی ایم حکومت اسمبلی تحلیل سے پہلے مردم شماری کے اعلان کا فیصلہ نئی منتخب اسمبلی اور حکومت پر چھوڑ دیتی ۔ تاکہ الیکشن کمیشن پر آئین کے آرٹیکل 51کی کلاز 5کے تحت انتخابات نئی مردم شماری کے تحت کروانا لازم نہ ہوتا۔ صوبہ پنجاب، خیبر پختونخوا کے ریاستی و حکومتی افعال تقریبا سات ماہ سے نگران سیٹ اپ کے تحت چلائے رہے تھے اور باقی ماندہ دونوں صوبوں بلوچستان ، سندھ اور
وفاق بھی غیر معینہ مدت کے لئے نگران سیٹ اپ کے تحت چلائے جائیں گے۔ اس تمام تر صورتحال سے نکلنے کا واحد حل یہی ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی تمام تر ریاستی مشینری الیکشن کمیشن کی حلقہ بندی کی سرگرمیوں میں شبانہ روز اپنی خدمات فراہم کرے اور 14دسمبر کا حلقہ بندیوں کا ہدف صرف ایک یا ڈیڑھ ماہ تک حاصل کرلیا جائے تاکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 224کی کلاز 2کے تحت عام انتخابات کا انعقاد 90روز میں ماہ نومبر کے پہلے ہفتے تک ممکن ہو سکے کیونکہ موجودہ حالات میں نہ تو 90روز میں انتخابات کا آئینی تقاضہ پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی فروری، مارچ 2024میں بھی عام انتخابات کے انعقاد کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ یاد رہے کسی بھی ریاست میں عوام کو زیادہ دیر اقتدار سے دُور رکھنے کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں اور پاکستان 1971ء میں ملک دو لخت کی صورت میں سنگین نتائج پہلے ہی بھگت چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button