Column

گلزار امام شنمبے قومی دھارے میں شامل، سال مکمل ہونے پر تقاریب

تحریر : طارق خان ترین
صوبہ بلوچستان بہادر بلوچوں، غیرت مند پشتونوں کے ساتھ ساتھ دوسرے قابل احترام اقوام کے رہن سہن، تہذیب و ثقافت کے لئے محض زمین کا ایک ٹکڑا نہیں ہے، بلکہ یہ وطن عزیر کے لئے امن و خوشحالی، تعمیر و ترقی کے لئے ایک  گیٹ وے بھی ہے جبکہ دیگر ممالک کے ہر نسبت و تعویل سے یہ صوبہ اپنے آپ کو  اور اپنے ملک کو بھی ممتاز رکھتا ہے۔ یہاں کا تزویراتی جغرافیہ کاروبار کی اہمیت کو ابھارتے ہوئے وسعت فراہم کرتا ہے۔ یہاں کے قدرتی، معدنی، خوردنی، اور انسانی وسائل کی بہتات روشن مستقبل کے ضامن ہیں۔ سی پیک اور ریکوڈک جیسے شاندار منصوبوں سے اس خطے کی قسمت بدل کر رہیگی۔ اسی وجہ سے پاکستان دشمن عناصر ان تمام تر وسائل سے خوفزدہ ہوکر پاکستان بالخصوص بلوچستان میں دہشتگرد کارروائیوں میں مصروف عمل ہیں۔ ان دہشتگرد کارروائیوں میں بھارت ملوث ہے، اور اس کا سب سے بڑا ثبوت بھارتی حاضر سروس نیوی کمانڈر کلبھوشن یادو کا رنگے ہاتھوں گرفتار ہونا ہے۔ اس گرفتاری نے دنیائے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی تاریخ کو پلٹ کر رکھتے ہوئے پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں ناقابل تسخیر قرار دیا۔ اس آپریشن سے اقوام عالم پر یہ باور کرایا گیا کہ چاہے کتنا ہی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے پر زور لگایا جائے، افواج پاکستان اور ان کے انٹیلی جنس ادارے ہمیشہ کی طرح ملکی حفاظت کے لئے مستعد ہیں۔
بلوچستان سے کلبھوشن یادو کی تاریخی کامیابی کی طرح پاکستان کے قابل فخر انٹیلی جنس اداروں نے 2023ء میں ایک اور بڑا تاریخی معرکہ انجام دیا۔ یہ دوسرا کارنامہ ہمارے گمنام مجاہدین کی جانب سے تب سرانجام دیا گیا، جب انتہائی حساس و طویل انٹیلی جنس آپریشن کے ذریعے جنوبی بلوچستان میں سرگرم عسکریت پسند تنظیموں کے کلسٹر ماسٹر مائنڈ کہلانے والے اہم ترین دہشتگرد لیڈر گلزار امام شنمبے کو گرفتار کیا گیا۔ گلزار امام شنمبے ضلع پنجگور کے گائوں پروم میں 1978ء میں پیدا ہوا۔ اس نے2009ء میں دہشتگرد گروپ میں شامل ہونے سے پہلے ایک ٹھیکیدار اور مقامی اخبار کے نامہ نگار کے طور پر بھی کام کیا۔ 2017ء میں جعلی دستاویزات پر گلزار امام شنمبے نے ہندوستان کا طویل دورہ کیا، جہاں اسے مزید سادہ لوح اور جذباتی بلوچ نوجوانوں کو دہشتگردی و عسکریت پسندی کی آگ کا ایندھن بنانے کیلئے بھاری سرمایہ اور جدید ٹریننگ دی گئی۔ 2018ء تک وہ بی آر اے میں براہمداغ بگٹی کا نائب رہا۔ جس وقت اسے گرفتار کیا گیا وہ بلوچ راج آجوئی سانگر (BRAS)کے نام سے سرگرم دہشت گرد تنظیم کے آپریشنل سربراہ کے طور پر کام کر رہا تھا۔ اپنی 15سالہ دہشتگرد سازشوں کے دوران اس نے بلوچ نیشنل آرمی (BNA)کے نام سے ایک نئی عسکری تنظیم بھی تشکیل دی۔ گلزار امام شنمبے پورے صوبے اور خاص طور پر جنوبی بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔ گرفتاری کے بعد میڈیا کے سامنے لائے جانے کے دوران گلزار امام شنمبے نے گفتگو میں اپنی 15سالہ دہشتگرد سرگرمیوں کے حوالے سے انتہائی پشیمانی اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اُس نے بلوچستان کے عوام کے حقوق کی جدوجہد کیلئے جو راستہ اختیار کیا وہ درست نہیں تھا۔ گلزار امام شنمبے کی گرفتاری اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ملک و قوم کو درپیش حالات کا مکمل ادراک ہے اور وہ تمام سنگین مسائل کے تدارک کیلئے انتہائی اعلیٰ پیشہ ورانہ انداز میں سرگرم اور فعال ہیں۔
سابق علیحدگی پسند گلزار امام شنمبے کی قومی دھارے میں شمولیت کو ایک سال مکمل ہوا، نہ صرف بلکہ گلزار امام شنمبے کا ریاست پاکستان کے ساتھ ملکر کام کرتے ہوئے بھی ایک سال مکمل ہوا۔ بلوچستان کے غیور عوام اپنے صوبے کے حقیقی وارث ہیں جو شر پسندوں کو ترقی کا ایجنڈا ہر گز ہائی جیک نہیں کرنے دیں گے۔ بلوچستان کے غیور عوام قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ ملکر شر پسند عناصر کو شکست دے رہے ہیں۔ ریاست پاکستان سی پیک کے ذریعے بلوچستان کی ترقی کی کوششیں کر رہی ہے جبکہ دہشتگرد تنظیمیں انہی منصوبوں کو ٹارگٹ کر رہی ہیں۔ شر پسند عناصر ماہرنگ بلوچ اور ماما قدیر جیسے نام نہاد ایکٹیوسٹس کے ذریعے طلبا کو منفی سرگرمیوں میں ملوث کر کے تعلیم سے دور کر رہے ہیں۔ یہ شر پسند عناصر مسنگ پرسنز کے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جبکہ اکثر مسنگ پرسنز دہشتگردوں کے کیمپوں میں چھپے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ودود ساتکزئی اور کریم جان بلوچ کی تازہ مثال ہمارے سامنے ہے، جنہوں نے مچھ اور گوادر میں دہشتگرد حملے کیے لیکن ان کے لیے ماہ رنگ بلوچ اور دیگر لانگ مارچ کرتے پھر رہے تھے۔ ریاست پاکستان کو بلوچستان کے مقامی افراد کے مسائل کا پوری طرح سے احساس ہے۔
ریاست کی جانب سے بھٹکے ہوئے بلوچوں کو پرامن طریقے سے واپسی کا راستہ اور اصلاح کا موقع فراہم کیا گیا اور اسے پالیسی کو مزید دوام دینا چاہیے۔ اسی حکمت عملی کے نتیجے میں پہلی گلزار امام اور بعد ازاں سرفراز بنگلزئی جیسے علیحدگی پسند جنگجو اپنے ساتھیوں سمیت دشمن کے جال سے آزاد ہو کر ریاست کی پناہ میں آگئے۔ بی این ایم تنظیم کے سربراہ سرفراز بنگل زئی نے بھی اپنے70 ساتھیوں کے ساتھ ہتھیار پھینکتے ہوئے قومی دھارے میں شامل ہونے کا  اعلان کیا۔ یہ تنظیم بلوچستان کو پاکستان سے جدا کرنے کے ایجنڈے پر کار فرما تھی۔ اس کے سربراہ کا اپنے قریبی ساتھیوں سمیت دہشتگردی کی راہ چھوڑ کر قومی ادارے میں شامل ہونے کا فیصلہ کئی پہلوئوں سے ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ ان اقدامات کے بعد یہ بلوچ تنظیم مکمل طور پر ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندی اور دہشتگردی کی سرپرستی بھارت کر رہا ہے۔ بھارت بلوچستان میں مکتی باہنی طرز پر لسانی تعصب کا ہتھیار استعمال کر کے مشرقی پاکستان کی تاریخ دہرانا چاہتا ہے۔ سی پیک منصوبے کی تکمیل بلوچستان میں بھارت کے ناپاک عزائم کی راہ میں حائل بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ نام نہاد قوم پرست دراصل اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے نوجوان نسل کے ہاتھ میں قلم کے بجائے ہتھیار تھما کر بلوچستان کا مستقبل تاریک کر رہے ہیں۔
معروف سابقہ علیحدگی پسند گلزار امام شمبے کی قومی دھارے میں شمولیت کے ایک سال مکمل ہونے پر بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مارخور آڈیٹوریم مین خصوصی سیمینار کا انعقاد ہوا۔ تقریب کا عنوان، ’’ بلوچستان میں امن و استحکام کی جانب سفر ‘‘ تھا۔ تقریب کے دوران تفصیلی ڈسکشن پینل کا اہتمام کیا گیا تھا۔ تقریب کے مقاصد: بلوچستان میں امن اور مفاہمت کا فروخت اور ہتھیار پھینکنے والے عسکریت پسندوں کو سیاسی سٹیک ہولڈرز اور نوجوان رہنماں کے ساتھ اکٹھا کرنا تھا۔ کثیر الجہت نقطہ نظر کو سمجھا جائے، بلوچستان کے پرامن مستقبل کے لیے روڈ میپ بنانے پر توجہ دی جائے، مختلف گروہوں میں مکالمے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرتے ہوئے افہام و تفہیم کو فروغ دیا جائے، امن اور مفاہمت کے لیے قابل عمل حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا جائے، اور امن کے عمل میں نوجوانوں کے کردار اور ان کی شمولیت کو اجاگر کیا جائے جیسے عنوانات بھی تقریب کے مقاصد میں شامل تھے۔ ہتھیار پھینکنے والے عسکریت پسندوں کی روئداد، مفاہمت کے سیاسی راستوں، تبدیلی کے سفر میں نوجوانوں کے کردار، اور امن کے لیے مشترکہ روڈ میپ پر گفتگو بھی تقریب میں شامل رہی۔ سیمینار میں گورنر بلوچستان شیخ جعفر مندوخیل کی بطور مہمان خصوصی شرکت۔ پینلسٹ میں وزیر داخلہ بلوچستان ضیاء اللہ لانگو، ایم پی اے ظہور بلیدی، ترجمان حکومت بلوچستان شاہد رند، وائس چانسلر BUITEMSڈاکٹر خالد حفیظ، سابق ایم این اے اور وزیر زبیدہ جلال، سابق عسکریت پسند سرفراز بنگلزئی اور سابق عسکریت پسند گلزار امام شنمبے شامل رہے۔ معزز مہمانوں میں ایم پی ایز مینا مجید، پرنس آغا عمر، راحیلہ حمید درانی، زرک مندوخیل، رحمت صالح، زرین مگسی، اور سابق ایم پی اے ثناء بلوچ اور مہ جبین شیران شامل تھے۔ سیمینار میں شہزادہ ذوالفقار، بشریٰ قمر، عاصم خان، سلیم شاہد، اور سید علی شاہ جیسے صحافیوں کے ساتھ ساتھ سینیٹر کامران مرتضیٰ سمیت ڈپٹی اٹارنی جنرل رئوف عطا اور وکلا طیبہ کاکڑ اور نرگس سمالانی کے ساتھ ساتھ سماجی کارکنوں، سول سوسائٹی اور دیگر شعبوں کی نمائندگی میں کوئٹہ آن لائن کے ضیا خان، ماہر تعلیم رحیمہ جلال، کمشنر کوئٹہ ڈویژن حمزہ شفقت، اور IDSPکوئٹہ کی بانی قر العین بختیاری بھی موجود رہی۔
ایسے سیمینار کا انعقاد بلوچستان میں انتہائی طور پر ضروری ہے جنہیں مزید وسعت دے کر بلوچستان کے دیگر تدریسی اداروں میں بھی ان کا انعقاد ہونا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ریاست کو مزید اپنی پالیسیاں نرم کرتے ہوئے بلوچ علیحدگی پسندوں کو قومی دھارے میں شامل کرے اور مفاہمتی کوششوں کو مزید تیز کرنا چاہئے۔ ریاست مخالف عناصر کو بھی چاہیے کہ گلزار امام شنمبے کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قومی دھارے میں شامل ہو اور ملک کی ترقی کے لیے مل کر کام کریں۔ اپنوں کو شکست سے دوچار کرنا درحقیقت خود ہی شکست خوردہ ہونے مترادف ہے۔ مگر جب مخالفین کو اگر شکست سے دوچار کرانا ہو تو ان کے لئے یہی کافی ہے کہ اپنے واپس اپنے گھر چلے آئیں۔

جواب دیں

Back to top button