Column

بھیک مانگنے پر پابندی لگائی جائے

تحریر : رفیع صحرائی
بھیک مانگنا ہماری قوم شناخت بن چکی ہے۔ ہمارے ملک کے تمام عوام و خواص ہی کسی نہ کسی شکل میں بھکاری بن چکے ہیں۔ بھیک صرف یہی نہیں ہے کہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا کر کچھ حاصل کر لیا جائے بلکہ اپنے حصے یا حق سے زیادہ کا حصول بھی بھیک ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ رشوت خور سرکاری ملازم یا افسر بھی حقیقت میں بھکاری ہی ہے جو سائل سے جائز یا ناجائز کام کے عوض نذرانہ وصول کرتا ہے۔ بغیر محنت یا کسی کام کے حاصل کی گئی رقم یا جنس بھیک ہی کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ جو ہمارے مقتدر حلقے انتہائی سستے داموں توشہ خانہ سے مہنگی چیزیں خریدتے ہیں اگر اس عہدے پر نہ ہوتے تو کیا ان چیزوں کو خریدنے کے مستحق ہو سکتے تھے؟۔ کیا عام آدمی توشہ خانہ سے اس طرح کم قیمت دے کر مہنگی چیزیں خرید سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ یہ شاہی بھیک ہے جو صرف شاہوں اور اس کے حواریوں کا استحقاق ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہماری ہر حکومت بھی بھیک مانگنے کو ’’ منفعت بخش کاروبار‘‘ سمجھتی ہے۔ ملک میں سیلاب، زلزلہ یا کسی دوسری قدرتی آفت کی صورت میں ہماری حکومت ہمیشہ خالی ہاتھ ہوا کرتی ہے۔ پوری دنیا سے آفت زدگان کی بحالی کے لیے ڈونیشن کے نام پر بھیک اکٹھی کی جاتی ہے۔ جو آفت زدگان تک تو نہیں پہنچ پاتی البتہ اس بھیک سے جو کچھ امداد کے لیے جاری کیا جاتا ہے وہ حکومتی زعما ء اور سرکاری اہل کاروں کے گھروں میں پہنچ جاتا ہے۔ 2022 کے سیلاب زدگان ابھی تک پوری طرح بحال نہیں ہو سکے۔ حکومت نے اربوں روپے کی امداد اکٹھی کی۔ ایک سیاسی پارٹی نے اربوں روپے ٹیلی تھون کے ذریعے سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے جمع کیے اور وہ رقم اپنے سیاسی جلسوں پر خرچ کر ڈالی۔ سیلاب زدگان کی بڑی تعداد تا حال امداد کی منتظر ہے۔ دراصل آفت زدہ لوگ حکومتوں کے وہ اپاہج، مفلوج اور معذور بچے ہوتے ہیں جنہیں انتہائی گندے، میلے کچیلے کپڑوں میں ریڑھیوں پر ڈال کر یا چوکوں چوراہوں میں بٹھا کر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کر کے زیادہ سے زیادہ بھیک اکٹھی کی جاتی ہے۔ ان لوگوں کی بحالی کا مطلب ’’ کاروباری نقصان‘‘ سے دوچار ہونا ہے۔
اب آتے ہیں ملکِ عزیز کے پیشہ ور بھکاریوں کی طرف۔ اعداد و شمار کے مطابق ہماری 24کروڑ آبادی میں سے 3کروڑ 80 لاکھ بھکاری ہیں۔ ان میں12 فیصد مرد، 55 فیصد خواتین، 27 فیصد بچے اور باقی 6 فیصد سفید پوش مجبور افراد شامل ہیں۔ ان بھکاریوں کا 50 فیصد کراچی، 16 فیصد لاہور، 7 فیصد اسلام آباد اور بقایا دیگر شہروں میں پھیلا ہوا ہے۔ اب اس کی مزید تفصیل بھی پڑھتے جائیے۔ کراچی میں روزانہ اوسط بھیک 2ہزار روپے، لاہور میں 1400 اور اسلام آباد میں 950 روپے ہے۔پورے ملک میں فی بھکاری روزانہ کی اوسط 850 روپے ہے۔روزانہ بھیک کی مد میں یہ بھکاری 32 ارب روپے لوگوں کی جیبوں سی نکال لیتے ہیں۔ سالانہ یہ رقم117 کھرب روپے بنتی ہے۔ ڈالر کی اوسط میں یہ رقم 42 ارب ڈالر بنتی ہے۔بغیر کسی منافع بخش کام کے بھکاریوں پر ترس کھاکر ان کی مدد کرنے سے ہماری جیب سے سالانہ 42 ارب ڈالر یہ بھکاری نکال کر لے جاتے ہیں۔ بغیر منافع بخش کام سے مراد ایسا پیداواری کام ہے جس سے ملک کو فائدہ ہو۔ اس خیرات کا نتیجہ ہمیں سالانہ 21 فیصد مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ ملکی ترقی کے لئے 3 کروڑ 80 لاکھ افراد کی عظیم الشان افرادی قوت ملکی ترقی میں حصہ لینے کے بجائے کام کرنے والوں پر بوجھ بنی ہوئی ہے۔ جبکہ ان افراد سے معمولی کام لینے کی صورت میں بھی آمدنی 38 ارب ڈالر متوقع ہے جو چند برسوں میں ہی ہمارے ملک کو مکمل اپنے پاں پر نہ صرف کھڑا کر سکتی ہے بلکہ موجودہ بھکاریوں کے لئیے باعزت روزگار بھی مہیا کر سکتی ہے۔
گلی گلی موجود لنگر خانے، ایدھی، سیلانی اور دیگر تنظیموں کی طرف سی مفت کھانے کی فراہمی اور حکومت کی طرف سے بینظیر انکم سپورٹ کی امدادصرف ہڈ حرام پیدا کررہی ہے اور ملک کی تباہی میں ان سب کا بھی بھرپور حصہ ہے۔
آپ اسی مہنگائی میں جینا چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کی روٹی ان بھکاریوں کو دے کر مطمئن ہیں تو بے شک اگلے سو سال مزید ذلت میں گزارتے رہیں اگر آپ چند سالوں میں ہی مضبوط معاشی استحکام اور اپنے بچوں کو پرسکون زندگی دینا چاہتے ہیں تو آج ہی سے تمام بھکاریوں کو خداحافظ کہہ دیجیے۔ مفت کھلانے کے تمام عوامل کا بائیکاٹ کر دیجیے۔ بے شک اس کے خلاف بے شمار فتاویٰ ملیں گے لیکن پانچ سال کے بعد آپ اپنے فیصلے پر ان شاء اللہ نادم نہیں ہوں گے اور اپنے بچوں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر خوشی محسوس کریں گے۔
بنگلہ دیش نے جس دن بھکاری سسٹم کو خداحافظ کہا تھا، اس کے صرف چار سال بعد اس کے پاس 52ارب ڈالر کے ذخائر تھے۔ اچھی بات اور مستند کام کی تقلید میں کوئی عیب نہیں ہے۔ ویسے بھی آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ کسی بھکاری کو آپ پانچ سو روپے بھی دیں گے تو وہ اگلے روز پھر آپ کے پاس بھیک مانگنے آ جائے گا۔ اگر کسی مزدور کو شام کے وقت اس کی طے شدہ اجرت سے پچاس روپے بھی زیادہ دیں گے تو وہ نہ صرف آپ کا شکر گزار ہوگا بلکہ اگلے روز زیادہ دلجمعی اور محنت سے کام کرتا نظر آئے گا۔ بھکاری سسٹم کا خاتمہ ہو گا تو مقتدر بھکاری بھی اپنا قبلہ درست کر لیں گے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہر قسم کی بھیک مانگنے پر پابندی عائد کی جائے۔ مقامی یونین کونسل، میونسپل کارپوریشن، ٹائون کمیٹی یا میونسپل کمیٹی کے ایل کاروں کو جو مرد بھیک مانگتا نظر آئے اسے پکڑ لیں، جھاڑو اس کے ہاتھ میں دے کر صفائی پر لگا دیں۔ بھیک کو ناقابلِ معافی جرم قرار دے دیا جائے۔ جب سب لوگ کما کر کھائیں گے تو ملکی معیشت خود ہی بہتری کی جانب گامزن ہو جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button