Column

عوامی اسمبلی اور داخلہ بند

روہیل اکبر
حکومت کسی کی بھی یا کوئی بھی حکومت میں ہو مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ عوام کو مشکلات سے نکال کر ملک کو خوشحالی کی طرف لیکر جانا ہے اور اگر خوش قسمتی سے حکومت عوامی نمائندوں کی ہو تو پھر کیا ہی کہنے ایم پی اے اور ایم این اے حضرات خود لوگوں کے پاس جاکر ان کے مسائل معلوم کرتے ہیں بلکہ عوامی نمائندوں کو تو عوام کے مسائل عوام سے زیادہ معلوم ہوتے ہیں جن ممالک میں حقیقی جمہوریت یا عوام نمائندے اقتدار میں ہوں وہ ملک آج ترقی اور خوشحالی میں اتنے آگے ہیں کہ ہم جیسے ممالک کے لوگ اپنا سب کچھ بیچ کر وہاں جانے کو بے قرار ہیں جبکہ ہمارے ہاں ہمارے عوامی نمائندے عوام سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ انہوں نے عوام سے دوری اختیار کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے جیتنے والے اپنے حلقوں میں نہیں جاتے اور لاہور میں آکر ان سے ملنا ناممکن ہے اور تو اور عوام کے ووٹوں سے آنے کے دعویدار جب پنجاب اسمبلی میں اجلاس پر آتے ہیں تو عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دیتے ہیں ایوان اقبال چوک سے لکشمی چوک کی طرف جانے والی سڑک جس جو عرصہ دراز سے کھڈوں سے بھر پور ہے جہاں سے ایم پی اے اور وزیروں سمیت تمام انتظامیہ گزرتی ہے اور کسی کی کوئی توجہ نہیں ہے لیکن اجلاس شروع ہوتے ہی اسے عام عوام کے لیے بند کر دیا جاتا ہے کہ وہاں سے عوامی نمائندوں نے گزرنا ہے اگر یہ سڑک کھلی بھی رہے تو کیا فرق پڑتا ہے اور اوپر سے اس حکومت نے ایک کام یہ بھی کیا ہوا ہے کہ عوامی نمائندوں کو اخباری نمائندوں کی پہنچ سے دور رکھنے کے لیے ان کا اسمبلی کے اندر داخلہ بڑی سختی سے بند کر رکھا ہے اور اسمبلی پریس گیلری کے عہدیدار کبھی کبھی سپیکر کے ساتھ بیٹھ کر تصویر بنوا کر خوش ہوجاتے ہیں اس نئی اسمبلی سے پہلے پرانی اسمبلی میں صحافی بلا روک ٹوک اپوزیشن لیڈر کے چیمبر سمیت ہر جگہ آ جا سکتے تھے جہاں سے خبریں بھی ملتی رہتی تھی لیکن اب سوائے پریس گیلری کے اور کسی جگہ جانے پر پابندی ہے اسمبلی اجلاس کے دوران جو کچھ گیلری سے دیکھا بس وہی رپورٹ کردی اس کے بعد یا پہلے کیا ہوتا رہا کسی کو کچھ معلوم نہیں شاءد یہی وجہ ہے کہ اس وقت کانٹے دار سیاست کا ماحول اپنے عروج پر ہے اسمبلیوں کے اندر تلخی بڑھتی جارہی ہے اور باہر عوام کا جینا مشکل ہو رہا ہے 1947سے چلنے والے لوگ ابھی تک اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکے جبکہ فارم47والے اپنی اپنی منزلوں تک پہنچ چکے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے عوام کی راہوں میں پھول بچھانے کا جھانسہ دیکر کانٹے بچھا دئیے مفت بجلی دینے کا لالی پاپ دیکر بجلی مزید مہنگی کردی خیر یہ تو اب پرانی باتیں ہیں اب اس عوامی حکومت کو چاہیے کہ عوام کی آسانی کے لیے کام کرے سڑک بند کرنے کے بجائے اسے کھلی رکھیں صحافیوں کا نئی اسمبلی کے اندر داخلہ کھولیں کیونکہ یہ عوامی ایوان نمائندگان ہے جو پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 106کے تحت قائم کیا گیا تھا جس میں کل 371 نشستیں ہیں جن میں 297جنرل نشستیں 66نشستیں خواتین کے لیے اور 8غیر مسلموں کے لیے مخصوص ہیں یہ اسمبلی 16ایکڑ پر محیط ہیں جو 1935میں مکمل ہوئی تھی پنجاب کی تقسیم اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد یہ عمارت پنجاب کا انتظامی مرکز بن گئی جبکہ نیا اسمبلی ہال پرانی اور نئی اسمبلی کی عمارتوں کے درمیان تعمیر کیا گیا ہے اس میں مرکزی ہال میں 500نشستیں اور مہمانوں کے لیے گیلریوں میں 600نشستیں اور ایوان کی کارروائی کی کوریج کرنے والے میڈیا پرسنز کے لیے پریس گیلری میں 300نشستیں ہیں نئے ہال سے متصل اسپیکر چیمبر، ریکارڈ روم، ریکارڈنگ روم، میڈیا روم، سیکیورٹی روم اور آئیز اور نوز کے لیے لابی ہے نئی عمارت میں تین کمیٹی روم، ایک کانفرنس روم، لائبریری، کیفے اور 400کی گنجائش والی پارکنگ بھی شامل ہے اس کے علاوہ وزیراعلیٰ، سپیکر، ڈپٹی سپیکر، وزراء اور اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے نئے دفاتر سیکرٹریٹ کی نئی عمارت میں قائم کئے گئے جس کا افتتاح 2جنوری 2023کو ہوا تھا اگر ہم پرانی اسمبلی کی بات کریں اس کا اسمبلی کو آرکیٹیکچر سرکل کے چیف آرکیٹیکٹ بازل ایم سالون نے ڈیزائن کیا تھا اسمبلی چیمبر کا سنگ بنیاد 17نومبر 1935کو وزیر زراعت سر جوگندر سنگھ نے برطانوی راج کے دوران رکھا تھا اس کی تعمیر 1938میں مکمل ہوئی۔
پہلی منزل میں اسمبلی ہال ہے جو ہندوستانی اور رومن فن تعمیر کو یکجا کرتا ہے اس کا ہال ایک پبلک ایڈریس سسٹم اور کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن سسٹم سے لیس ہے اسمبلی کی کارروائی دیکھنے کے لیے گیلری میں 200افراد کے بیٹھنے کی جگہ تھی بعد میں اس گیلری کو اراکین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ممبران کے لیے مختص کر دیا گیا تھا اسمبلی کا ممبر بننے کے لیے آئین کے آرٹیکل 62میں بیان کردہ قومی اسمبلی کی رکنیت کی اہلیت صوبائی اسمبلی کی رکنیت کے لیے بھی لاگو ہوتی ہے چنانچہ ایک رکن صوبائی اسمبلی بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکستان کا شہری ہو اس کی عمر کم از کم پچیس سال ہونی چاہیے اور کسی بھی انتخابی فہرست میں بطور ووٹر اندراج ہونا ضروری ہے اسکے ساتھ ساتھ ایک امیدوار کو اچھے کردار کا ہونا چاہیے اور عام طور پر اسلامی احکام کی خلاف ورزی کرنے والے کے طور پر جانا نہیں جانا چاہیے اسلامی تعلیمات کا علم ہونا چاہیے اور اسلام کی طرف سے متعین فرض فرائض پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ کبیرہ گناہوں سے پرہیز کرنے والا ہونا چاہیے جبکہ سمجھدار، نیک، غیرت مند، اور ایماندار ہونا بھی ضروری ہے اور امیدوار کو اخلاقی پستی یا جھوٹی گواہی دینے کے جرم میں کبھی بھی سزا نہ ہوئی ہو قیام پاکستان کے بعد کبھی بھی ملک کی سالمیت کے خلاف یا نظریہ پاکستان کی مخالفت بھی نہ کی ہو یہ ہیں وہ سادہ سی شرائط جن پر کاربند رہتے ہوئے ایک عام انسان بھی ممبر اسمبلی بن سکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں لیکن ایمانداری اور شفاف انداز میں ہو پیسے، دھونس اور دھاندلی سے جیتنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے ایسے امیدواروں کو منتخب کیا جائے جو عوام کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے کام کریں نہ کہ وہ اسمبلی ممبر بننے کے بعد عام لوگوں کا جینا مشکل کر دیں انتقام کی سیاست کرنے والوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وقتی طور پر آپ پولیس کی ذریعے کسی کی ماں بہن، بیٹی اور بچوں کو رسوا کرو گے تو کل کو آپ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو سکتا ہے اس لیے کسی کو انتقام کا نشانہ بنانے سے پہلے ایک بار ضرور سوچ لیں کہ ملک میں بادشاہت ہے اور نہ ہی اقتدار سدا رہنے والا ہے رہی بات پولیس کی وہ تو کسی کام کی نہیں رہی سوائے حکمرانوں کے دروازے کھولنی اور بند کرنے کے یا پھر غریب لوگوں پر تشدد کرنے کے اور کوئی کام نہیں رہا۔

جواب دیں

Back to top button