Column

نظام کا مکروہ چہرہ

سیدہ عنبرین

ملک میں ہونے والا حادثہ میلوں ٹھیلوں اور سیاسی بیانات کے شور میں دب جاتا ہے۔ ساہیوال کے ایک ہسپتال میں جل مرنے والے متعدد بچوں کی بات بھی ٹی ٹونٹی کرکٹ اور عید کے شور میں میں دب جائیگی جن گھروں کے چراغ بجھے ہیں صرف وہیں اندھیرا ہے۔ سوگ ہے ماتم ہے اسکے علاوہ جدھر نظر ڈورائیں ہر شخص اپنی دھن میں مگن ہے، واقعے کے فوراً بعد ادارے سے متعلق اہم عہدیدار کو ہتھکڑیاں پہنا کر بالوں سے گھسیٹتے ہوئے دیکھا گیا، جن کا واقعے حادثے سے کوئی تعلق نہ تھا پھر نمبر بنانے کے اس سیاسی فیصلے کے فوراً بعد جب صوبے میں ڈاکٹروں کی ہڑتال کا خطرہ نظر آیا تو گرفتار شخصیت کو رہا کر دیا گیا۔ ایسی گرفتاریوں کے حکم ماضی میں کھلی کچہریوں میں دئیے جاتے تھے اب یہ کام گرم موسم میں ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کو ٹھنڈے پیٹوں والے جاری کرتے ہیں۔ جنہیں معاملات کی ابیحد کی بھی سمجھ نہیں لیکن زعم ہے کہ وہ صوبے کی مقبول ترین قابل ترین ہونے کے ساتھ ساتھ حسین ترین شخصیت بھی ہیں واقعے کے اصل ذمہ دار کون ہیں انہیں سزا مل بھی سکے گی یا نہیں عین وقت پر سزا سے انہیں بچانے کیلئے ایک اور مافیا متحرک ہو گا اور انہیں سزا سے بچا لے جائے گا۔ ان سوالوں کے جواب عام آدمی کو تو معلوم ہیں دکھاوے کی انکوائری اور ذمہ داری کے تعین کیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے حسب سابق کئے جارہے ہیں نتیجہ صفر کے سوا کچھ نہ ہو گا۔
ہسپتالوں میں نوزائیدہ بچوں کے جل مرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل لاہور کے مختلف ہسپتالوں میں درجنوں بچے جل مرے چند روز تک شور و غوغا نظر آیا پھر سب کچھ داخل دفتر ہو گیا آج تک ایسے واقعے میں ملوث کسی ایک شخص کو کوتاہی لاپرواہی ثابت ہونے پر ملازمت سے معطل یا برطرف نہیں کیا گیا کسی کو سزائے قید نہیں سنائی گئی کسی واقعے میں حکومت مدعی نہیں بنی جن کا لخت جگر موت کے منہ میں جھونک دیا جاتا ہے وہ زندہ درگور ہو جاتے ہیں حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے چند ہزار روپے کے چیک دے کر منہ بند کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایک جعلی عوامی نمائندہ یا عہدیدار چہرے پر غم کا ماسک چڑھائے دکھی خاندان کے گھر آتا ہے چند لمحے رونی صورت بنا کر غم زدہ ماں سے کہتا ہے صبر کریں بس اللہ کی یہی مرضی تھی۔ دکھی گھر کی دہلیز سے باہر آتے ہی وہ موصول ہونے والی پہلی کال پر قہقہے لگاتا ہے اور باس کو اطلاع دیتا ہے۔ سرجی مسئلہ کوئی نہیں تھا میں نے سب کو مطمئن کر دیا ہے کوئی کیس ویس نہیں ہو گا میں نے اس امر کی تحریر لے لی ہے۔ مدعیوں نے ہر ذمہ دار کو اللہ کی رضا کیلئے معاف کر دیا ہے۔ اللہ کی رضا کا تمسخر اڑانے والے جب اللہ کی پکڑ میں آتے ہیں تو پھر دنیا دیکھتی ہے۔ مگر وہ نہیں سمجھتے آج کس کس نا انصافی کی سزا مل رہی ہے بس وہ یہ کہہ کر اپنے آپ اور اپنے چیلے چانٹوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ تمام مقدمات جھوٹے ہیں اور سیاسی مخالفین نے بنائے ہیں۔ ذلیل و خوار اور گدھے پر سوار ہونے کے بعد بھی انہیں ادراک نہیں ہوتا کہ یہ ان کی بداعمالیوں اور ناانصافیوں کی سزا ہے۔ انہوں نے زمانہ اقتدار میں اللہ کی رضا کیلئے انصاف کرنے کی طاقت رکھنے کے باوجود انصاف نہ کیا لوگوں کے حقوق غصب کیے ان کی توجہ کا مرکز صرف اور صرف ان کا خاندان تھا۔
دنیا ہمیں کسی معاملے میں منہ کیوں نہیں لگاتی اس کی وجوہات ہزارہا ہیں لیکن بچوں کے ساتھ ہمارے ملک میں جو رویہ اختیار کیا جاتا ہے وہ ان وجوہات میں سے ایک ہے۔ بددیانتی اور ملک فروشی تو ہے ہی، نصف درجن واقعات ایسے ہیں جن میں باغ میں کھیلتے ہوئے کم سن بچوں کو کتوں کے غول میں بھنبھوڑ کر رکھ دیا۔ بچے چیختے چلاتے موت کے گھاٹ اتر گئے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ جس پولیس کا ڈھول پیٹا جاتا ہے پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی وہ رابطہ کرنے کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ پہلے خرچہ خرچہ مانگتی ہے پھر پٹرول کے پیسے سب کچھ لے کر ٹال مٹول ، صبح آتا شام آتا اسی اثناء میں خبر ملتی ہے کہ کتوں نے بچوں کی لاش کی بوٹی بوٹی کردی ہے۔
سرکاری ہسپتالوں کے وارڈ سے نوزائیدہ بچے اغوا ہو جاتے ہیں کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی سی سی ٹی وی فوٹیج کیمرے خراب ہونے کے باعث نہیں ملتی مل بھی جائے تو ملزم نہیں ملتے ملزم مل جائیں تو پھر انصاف نہیں ملتا۔ ہسپتال سے ہر سال لاتعداد بچے اغوا ہوتے ہیں کچھ کا سراغ ملتا ہے کچھ کا نہیں ملتا مگر آج تک دیکھنے یا سننے میں آیا کہ کمسن اور نوزائیدہ بچوں کے اغوا کنندگان کو عبرتناک سزا تو دور کی بات ہے چند گھنٹے کی سزا بھی نہیں ملی، البتہ ہم نے وزیراعظم پاکستان کو ایک خط نہ لکھنے کے جرم میں تا برخاست عدالت سزا کے بعد پانچ برس کیلئے نااہلی کی سزا بھگتے دیکھا ہے۔
پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ناک کے نیچے قصور میں یکے بعد دیگرے 12کمسن بچیاں اغوا ہوئیں انہیں جنسی فعل کا نشانہ بنانے کے بعد موت کی نیند سلا دیا گیا۔ ایک برس تک یہ سب کچھ ہوتا رہا پھر زینب نامی بچی کا کیس سامنے آیا پولیس کا رویہ روایتی ہی رہا، ٹال مٹول اور مال پانی کے تقاضے جاری رہے۔ سوشل میڈیا کی مہربانی دنیا کی آنکھیں کھولیں تو تمام ادارے حرکت میں آئے۔
انصاف کے تقاضے پورے نہ ہوئے ایک شخص کو گرفتار کر کے تمام وارداتیں اس کے کھاتے میں ڈال کر اس پورے گروہ کو بچا لیا گیا۔ اصل مجرموں کے چھپانے میں اس شخص نے اہم کردار ادا کیا جو اعلیٰ ترین معتبر انصاف پر بیٹھا تھا بابا رحمتا جس پر لوگ آج تین حرف بھیجتے ہیں مگر اس کی کھال پر اس وقت جوں رینگی نہ آج وہ شرمندہ نظر آتا ہے اسی ملک میں بچے جھولوں سے گرتے ہیں اور موت کے منہ میں پہنچ جاتے ہیں آج تک ان بچوں کی موت پر کسی ذمہ دار کو سزائے موت نہیں ہوئی۔ باغوں میں موت کے جھولے پڑے ہیں ہسپتالوں میں موت کے وارڈ کھلے ہیں بچے ہوں یا بڑے موت ان کی منتظر رہتی ہے۔ موت کے سوداگروں نے سرکاری ہسپتال میں جعلی سٹنٹ ڈال دیئے کسی کو آج تک سزا نہ ہوئی یہ ہے ہمارے نظام کا اصل اور مکروہ چہرہ جہاں پر مجرم آخر میں بچ جاتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button