روشنی

شیخ سعدی کے نصیحت آموز واقعات

حضرت شیخ سعدی شیرازیؒ چھوٹی عمر کے تھے کہ ایک دفعہ اپنے والد صاحب کے ہمراہ عید کی نماز کے لیے جا رہے تھے کہ لوگوں کی بہت بھیڑ تھی۔ اس لیے والد نے انہیں نصیحت کی کہ دیکھو بیٹا میری انگلی نہ چھوڑنا، ورنہ رش اور بھیڑ میں گم ہو جائو گے، لیکن راستے میں ننھے سعدی نے والد کی انگلی چھوڑ دی اور کھیل کود میں مشغول ہو گئے (جیسا کہ بچوں کی عادت ہوتی ہے) کھیل سے فارغ ہو کر جب والد کو قریب نہ دیکھا تو مارے خوف کے رونے لگے۔ اتنے میں والد بھی انہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں آگئے۔ کان کھینچتے ہوئے جھڑک کر فرمایا کہ ناسمجھ بچے میں نے تمہیں کہا نہیں تھا کہ میری انگلی مضبوطی سے پکڑے رکھنا، لیکن تم نے دھیان نہیں کیا اور میرا کہا نہ مانا اور پریشانی ہوئی۔ بڑی عمر میں حضرت سعدی لوگوں کو یہ آب بیتی واقعہ سنا کر فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم دنیا کی بھیڑ میں گم ہونا نہیں چاہتے تو کسی نیک بندے کا دامن تھام لو، ورنہ پریشانی میں ٹھوکریں کھاتے پھرو گے، جو بزرگوں کا دامن چھوڑ دیتا ہے، وہ یونہی بھٹکتا رہتا ہے۔

سعدیؒ اپنا واقعہ یوں بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میرے پائوں میں جوتا نہ تھا اور جیب میں کوئی پیسہ بھی نہ تھا کہ اس سے جوتا خرید سکوں۔ ننگے پائوں جا رہا تھا اور دل ہی دل میں کہہ رہا تھا کہ خدا نے میرے نصیب کتنے خراب بنائے ہیں۔ اسی حالت میں چلتے چلتے کوفہ کی جامع مسجد میں جا پہنچا، وہاں ایک آدمی کو دیکھا، جس کے پائوں ہی نہ تھے۔ میں فوراً خدا کے حضور سجدے میں گر گیا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ جوتا نہ سہی، خدا تعالیٰ نے مجھے پائوں تودے رکھے ہیں۔

اپنے بچپن کا واقعہ ایک اور شیخ سعدیؒ کچھ اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ ایک شب کو میں اپنے والد صاحب کے ساتھ مسجد میں گیا، میرے والد ساری رات وہاں عبادت کرتے رہے، ان کے ساتھ میں بھی نماز میں مشغول ہو گیا۔ ہمارے نزدیک چند آدمی گہری نیند سورہے تھے۔ میں نے والد صاحب سے کہا کہ یہ لوگ ایسے سو رہے ہیں، جیسے مر گئے ہوں۔ کسی نے نماز پڑھی اور نہ دعا کی۔ والد نے کہا بیٹے اگر تو بھی نوافل نہ پڑھتا، باقی ذکر نہ کرتا اور ان لوگوں کی طرح سو جاتا تو اس سے بہتر ہوتا کہ تو ان کی برائی بیان کر رہا ہے (یعنی غیبت کررہا ہے وغیرہ)

کتاب ’’بوستان‘‘ میں شیخ سعدیؒ نے ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک مرتبہ کسی شہزادے کا قیمتی لعل گم ہو گیا، شب کے وقت کسی جگہ گر گیا۔ اس نے حکم دیا کہ اس مقام کی تمام کنکریاں اٹھا کر جمع کریں۔ اس کا سبب پوچھا تو شہزادے نے کہا کہ اگر چھانٹ کر کنکریاں جمع کی جائیں تو ممکن ہے کہ لعل ان میں نہ آئے اور جب ساری کنکریاں اٹھائی جائیں گی تو ان میں لعل ضرور آئے گا۔ لوگوں نے شہزادے کے حکم پر عمل کیا تو لعل مل گیا، کسی نے اس حکایت کا ترجمہ خوب کیا ہے۔

اے خواجہ چہ پرسی از شب قدر نشانی
ہر شب شب قدر است اگر قدر بدانی

ترجمہ: ’’اے خواجہ تو شب قدر کی کیا نشانی پوچھتا ہے، اگر تو قدر دان ہے تو ہر رات شب قدر ہے۔‘‘
درحقیقت شیخ سعدیؒ کے یہ چھوٹے چھوٹے واقعات اپنے اندر اخلاقی تربیت کا بہت بڑا خزانہ رکھتے ہیں۔ ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم سب کو غیبت جیسے گناہ کبیرہ اور خدا تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کی ناشکری سے بچنا چاہئے اور اپنے بڑے بزرگوں کی باتوں پر عمل کرنا چاہئے۔

یہ مشہور بات ہے کہ بزرگوں کی مان کر چلنے میں کامیابی ہے۔ دنیا میں ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ جنہوں نے اپنے بزرگوں کی باتوں پر عمل کیا، دونوں جہان کی انہیں سرخروئی نصیب ہوئی۔ پھر آخری حکایت سے یہ سبق ملتا

ہے کہ خدا کے بندے وقت کو قیمتی بناتے ہیں، وہ وقت کو ضائع نہیں کرتے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے رب تعالیٰ سے دعا مانگی تھی کہ خدایا ہمارے اوقات کو بابرکت بنا، جو حضرات تہجد کی نماز پابندی سے پڑھتے ہیں، ان کے لیے تو ہر رات شب قدر ہے۔(گلدستہ واقعات و حکایات)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button