Column

رزق

علیشبا بگٹی

ایک ٹیکسی ڈرائیور نے فٹ پاتھ پہ بوجھل قدم اٹھاتے بوڑھے کو دیکھ کر بریک لگائی پوچھا کہاں جائو گے؟ بوڑھے نے سامنے پہاڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اس پہاڑ کے پیچھے آخری کنارے پر میرا گھر ہے۔ ڈرائیور نے بیٹھنے کا اشارہ کیا راستے میں بوڑھے سے پوچھا کتنا دو گے کرایہ؟ بزرگ نم آنکھوں سے جواب دیا بہت مال دوں گا گھر پہنچ کر ۔۔۔ گاڑی جب گھر کی دہلیز تک پہنچی۔ دروازہ کھلا معصوم بچے دوڑ کر آئے۔ اور بزرگ سے لپٹ کر روتے ہوئے پوچھا۔ بابا ہمارے لئے روٹی لائے ہو یا رات کی طرح دن بھی بھوک میں گزرے گا۔ باپ اپنے معصوموں کی حالت زار دیکھ نہ سکا۔ اور شرمندہ بھی ہوا۔ رو کر کہا ابھی تک کچھ نہیں ملا۔ میرے بچو مگر بہت جلد خدا اپنا رزق پہنچائے گا۔۔ ڈرائیور پر باپ بچوں کا مکالمہ ہتھوڑے کی ضرب کی طرح لگا۔ ہوٹل پہ آیا بھوکے بچوں کا کھانا لیا۔ جاکر معصوموں کے سامنے رکھا۔ اتنی بھوک تھی کہ سیکنڈوں میں وہ روٹی کھا گئے ۔۔ پھر اسی نیت سے ڈرائیور خاموشی سے شہر کی طرف چل دیا۔ کہ ان بھوکوں کی آگ بجھا دوں۔ اچانک سامنے سیاح ملے کہنے لگے۔ ہمیں ایئر پورٹ پہنچا دیں۔ انہوں نے بغیر پوچھے اس کا کرایہ ایک سو دینار دیا۔ حالانکہ اتنی مسافت کے صرف بیس دینار بنتے تھے۔ واپسی ایک سواری ملی۔ انہوں نے بھی ایک سو دینار دیا۔۔ اب یہ مزدوری لے کر بازار آیا۔ اس بزرگ کے بچوں کیلئے روٹی، اشیائے خورونوش لیں۔ سیدھا ان بچوں تک پہنچا کر کہا۔۔ میرے بھائی، میرے رب نے تیری وجہ سے یہ رزق چند لمحوں میں دیا۔۔ لے اپنا حصہ اپنے پاس رکھ۔۔ بوڑھا ممنون نگاہوں سے دیر تک دیکھتا رہا۔۔۔۔ پھر زبان سے جو کچھ کہا، عرش تک وہ آواز ضرور پہنچی ہوگی۔۔۔
اصل رزق تو وہ ہے، جو رب کی مخلوق کے کام آئے۔ ورنہ خزانے تو قارون کے پاس بھی تھے۔۔۔۔۔ ہمارے ہاں تو کچھ لوگ خود کو لوگوں کا رہنما بلکہ خدا کہتے ہیں۔ مگر وہ رہزن بن چکے اور رہزن بھی ایسے جو صرف اپنے ہی غریبوں کی رزق روٹی بند کرنے پر محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ کیونکہ طاقتور تو اُن سے زورآور ہیں۔ اُن کا تو بال بھی بھیگا نہیں کر سکتے۔ بہرحال ہم سب رزق میں وسعت کی سوچ میں صرف دنیاوی جدوجہد ، محنت اور کوشش پر انحصار کر لیتے ہیں۔ یا دوسروں کو لوٹ کر اپنے لئے مال و زر جمع کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ مگر قرآن و حدیث کی روشنی میں رزق کی وسعت کے اسباب سے ناواقف ہیں۔ بلکہ ہم یہ بات بھی شاید نہیں جانتے ہیں۔ کہ جو پیٹ میں جائے صرف وہ اناج یا غذا رزق نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہر چیز وقت ہدایت زندگی تندرستی علم عہدہ مال گھر اولاد طاقت سہولیات سکون سب نعمتیں رزق میں شامل ہیں۔ غرض ہر وہ چیز جس سے انسان کو کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ پہنچتا ہو، وہ رزق ہے۔ عربی زبان میں رزق کا لفظ جہاں روزی روٹی کے معنی میں آتا ہے وہاں ہر طرح کی عنایات کے لے بھی آتا ہے۔
ٔ تعالیٰ نے قرآن کریم کے سورۃ نوح میں فرمایا۔ ’’ اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی طلب کرو۔ بے شک ، وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ آسمان سے تم پر موسلادھار بارش برسائے گا، اور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گا، اور تمہارے لیے باغ اور نہریں بنائے گا ‘‘۔۔۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں ، ’’ اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ یعنی توکل رکھے، وہ اس کو کافی ہے‘‘۔
رسولؐ کی حدیث ہے: ’’ جو بھی زیادہ سے زیادہ استغفار کرے گا۔ اللّٰہ پاک اُس کی ہر پریشانی کو کشائش میں اور تنگی کو آسائش میں بدل دے گا۔ اور اُسے وہاں سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اُسے گمان بھی نہیں ہوگا‘‘۔۔۔ ایک اور حدیث ہے: ’’ جو اپنی عمر اور رزق میں اضافہ چاہتا ہے، اُسے چاہیے کہ تقویٰ اختیار کرے اور رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے‘‘۔۔۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’ ہمیشہ طہارت کے ساتھ رہو تاکہ تمہارے رزق میں اضافہ ہوجائے‘‘۔ آپؐ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ ’’ صدقے کے ذریعے اپنے رزق میں اضافہ کرو‘‘۔
حضرت امام موسیٰ کاظمؒ فرماتے ہیں: ’’ امانت کو پلٹانا اور سچ بولنا رزق میں اضافہ کرتا ہے‘‘۔
حضرت علیؓ فرماتے ہیں : ’’ دستر خوان پر پڑے ( بچے کھچے روٹی کے) ٹکڑے کھانے سے رزق میں اضافہ ہوتا ہے‘‘۔
حضرت امام جعفر صادقؒ فرماتے ہیں:’’ صلہ رحمی انسان کو خوش اَخلاق اور سخی بناتی ہے، ساتھ نفس کو پاک، رزق اور عمر میں اضافہ کرتی ہے‘‘۔ یہ بھی فرمایا کہ’’ برتنوں کو صاف رکھنا اور گھر کے دروازے کے آگے جھاڑو، دینا رزق میں اضافے کا باعث ہے‘‘۔ انہی کا ایک اور فرمان بھی ہے کہ ’’ جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے، اُس کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے‘‘۔
بہرحال انسان کو ہمیشہ رزق کی قدر کرنی چاہئے اور ہر حال میں اللّٰہ پاک کا شکر ادا کرنا چاہئے ۔

جواب دیں

Back to top button