Ali HassanColumn

سموسے فروخت کرنے والا لڑکا

تحریر : علی حسن
ایسے مناظر تو آپ کو ملک کے مختلف حصوں میں نظر آتے ہیں جس میں کم سن اور کم عمر لڑکے کھانے پینے کی کوئی نہ کوئی اشیاء فروخت کرتے ملتے ہیں۔ کسی نے ہاتھ میں چھابڑی اٹھائی ہوتی ہے۔ کسی کے ہاتھ میں بالٹی ہوتی ہے۔ کسی کے ہاتھ میں واٹر کولر ہوتا ہے۔ یہ مناظر ہر موسم میں ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک منظر ضلع جامشورو میں شدید گرم موسم چار روز قبل جب ڈپٹی کمشنر ریاض حسین وسان کو نظر آیا تو انہوں نے اپنی گاڑی رکوا کر اس بچے کو بلایا۔ بچہ سموسے فروخت کر رہا تھا، سمجھا کہ سموسے خریدنے ہوں گے۔ ڈپٹی کمشنر نے بچے سے مختصر گفتگو کی اور اسے اس بات پر رضا مند کر لیا کہ وہ بچہ سموسے کی ٹرے کی بجائے کتابوں کو بستہ ہاتھوں میں اٹھائے گا اور سکول جائے گا۔ یہ انتہائی درجے کا تعریفی کام ہے۔ جس کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تو دیکھ نے والوں نے ڈپٹی کمشنر کی تعریف کی۔ مختلف علاقوں میں بچے یا کم سن یا کم عمر لڑکے سامان فروخت کرنے کی جستجو کرتے ہیں۔ کوئی ان سے سامان خرید لیتا ہے اور کوئی ٹال دیتا ہے۔
ان کی عمر تعلیمی اداروں یا سکول جانے کی ہے، جہاں انہیں تعلیم حاصل کرنا ہوگی کیوں کہ اسی میں ان کا مستقبل ہے۔ ملک بھر میں ڈپٹی کمشنر موجود ہیں، ملک بھر میں بیت المال موجود ہیں، ملک بھی میں مخیر حضرات کی بڑی کھیپ پائی جاتی ہے جو رضائے الٰہی کی خاطر ان بچوں کو سکولوں میں داخل کرانے کی حیثیت اور صلاحیت رکھتے ہیں، وہ ان کی تعلیم کا خرچہ برداشت کر سکتے ہیں لیکن لوگ ایسا کرتے ضرور ہوں گے جو ہماری نظروں میں نہیں آتا ہے۔ ان بچوں کا ایک اہم ترین مسئلہ ہوتا ہے جو اکثر نظر انداز رہتا ہے۔ ان میں سے اکثر بچوں کی والد حیات نہیں ہوتے ہیں، بچہ ہی گھر کا کفیل تصور کیا جاتا ہے۔ اگر والد حیات ہوتے ہیں تو بیمار ہوتے ہیں، نشہ میں ملوث ہو جاتے ہیں۔
ان کی مائیں اپنے لخت جگر کو کچھ ’’ کما ‘‘ کر گھر لانے کے لئے موسم کی پروا کئے بغیر گھر سے نکال دیتی ہیں تاکہ ’’ بچہ ‘‘ کچھ کما کر لائے گا تو گھر کی روٹی پکے گی۔ بعض بچوں کی کمائی تو ان کے والد کے نشہ کا سامان کا سبب بھی بنتے ہیں۔ روٹی کا یہ چکر بچے کو سکول سے لاتعلق کر دیتا ہے۔ سڑک پر اسے دیکھ کر ، مستری کی دکانوں پر اسے دیکھ دیکھ کر، گھروں میں جھاڑو پو چا کرنے والی بچیوں کو دیکھ کر کوئی یہ نہیں سوچتا ہے کہ سرکاری وسائل کے باوجود انہیں سکولوں میں کیوں نہیں بٹھایا جاتا ہے۔ بعض ایسے بچے بھی ہوتے ہیں جو سکول آتے جاتے بچوں کو دیکھ کر کڑھتے بھی ہیں لیکن ان کی کم سنی انہیں اپنے حالات سے مزاحمت کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔
میں نے بہت کوشش کی کہ ڈپٹی کمشنر صاحب سے رابطہ ہوجائے تو میں ان سے پوچھوں کہ بچے سے سموسے کی تھالی لے کر اس کے ہاتھوں میں کتابیں دینے کا عمل تو بہت حوصلہ افزاء ہے لیکن اس بچے کے گھر کی ضرورتوں کو کیسے پورا کیا جائے گا۔ سرکاری سکولوں میں کتابیں مفت فراہم کی جاتی ہیں، سکولوں میں فیس وصول نہیں کی جاتی ہے لیکن سکول کے یونیفارم کا کیا کرے گا۔ اپنی ماں کو جو کچھ بھی کما کر دیتا ہے تاکہ اس کے گھر کی ’’ روٹی‘‘ کا انتظام چل سکے یا اس کا کوئی متبادل انتظام ہو جائے۔ سرکار کی سرپرستی میں کام کرنے والا بیت المال ایسا ادارہ ہے جو ایسے بچوں کی سرپرستی کر سکتا ہے۔ سرکاری طور پر زکوٰۃ کی تقسیم کا بھی طریقہ موجود ہے۔ سرکار کے پاس کمی نہیں ہوتی کہ وہ اس طرح کی کاموں کے لئے کئی وسائل پیدا نہ کر سکے۔ محکمہ تعلیم کے وزیر یہ بیان دیتے نہیں تھکتے ہیں کہ حکومت کسی بچے کو سکول سے باہر دیکھنا نہیں چاہتی ہے لیکن ایسے خوش کن بیان صرف بیان بازی کی حد تک ہی ہوتے ہیں۔ خود ڈپٹی کمشنر کی دسترس میں اتنے وسائل ہوتے ہیں کہ وہ سموسے فروخت کرنے والے ایک نہیں درجنوں بچوں کی پرورش کر سکتے ہیں۔ سخت گرمی کے موسم میں پسینے میں بھیگے ہوئے بچوں کو سموے، کیلے، کھانے کی کچھ اور اشیاء فروخت کرتے دیکھ کر دکھ ہوتا ہے اور سخت ترین سردی کے موسم میں رات کے وقت ایسے بچوں کو ابلے ہوئے انڈے فروخت کرنے کے لئے گاہک سے ایک انڈہ ہی خرید لینے کے لئے گڑگڑاتے ہوئے دیکھ تو دل پسیج جاتا ہے کہ اس ملک میں اس کے شہریوں کی انتہائی اہمیت کہ حامل ضروری، فلاح و بہبود کے کام کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ اور اگر ہے بھی تو کاغذی دفتری کارروائی کی تکمیل ہی نہیں ہو پاتی ہے۔ کاغذ کا پیٹ بھرتے ہوئے بھرنے والے کو درخواست گزار کے خالی پیٹ ہونے کا احساس اور خیال ہی نہیں رہتا ہے۔ سرکاری کارروائی میں تاخیر سموسے فروخت کرنے والے لڑکے کو دوبارہ سموسے ہی فروخت کرنے کے لئے دھکا دے دیتے ہیں۔ پیسے نہیں ہوتے ہیں تو ماں بھی روزانہ کوسنے سناتی ہے اور اگر باپ نشے کا عادی ہوتا ہے تو وہ تو بچہ کو مارنے سے بھی نہیں ہچکچاتا ہے۔ ہر روز تو ریاض حسین وسان ایسے ضرورت مند بچوں کو ملتے نہیں ہیں جو کوئی اسباب پیدا کر دیں ۔ اس تماش گاہ میں حکومت کو بہت سنجیدگی کے ساتھ تعلیم یافتہ لوگوں کے تعاون سے سموسے فروخت کرنے والے بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں دینی چاہئیں اور ان کے گھروں کے لئے کوئی معقول بندوبست کرنا چاہئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button