ColumnImtiaz Aasi

آئینی عدالتوں کی ضرورت

تحریر : امتیاز عاصی
مملکت میں بڑھتے ہوئے جرائم اور سیاسی مقدمات کی بھرمار اور عدلیہ میں ججوں کی کمی مقدمات کے فیصلوں میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی طرف سے کئی بار آئینی کورٹس کے قیام کا مطالبہ آتا رہا اقتدار میں رہنے کے باوجود دونوں جماعتیں آئینی عدالتوں کا قیام عمل میں لانے میں ناکام رہیں۔ تعجب ہے دونوں جماعتوں نے حکومت میں رہ کر کون کون سی آئینی ترامیم نہیں کیں مگر آئینی عدالتوں کا مطالبہ کرنے کے باوجود وہ آئینی عدالتوں کے قیام کے لئے آئین میں ترمیم کرنے میں ناکام رہیں۔ اس وقت عدالتوں میں سیاسی مقدمات کی غیر متوقع تعداد کے بعد حکومت کو آئینی عدالتوں کے قیام کے لئے فوری طور پر پیش رفت کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایک سابق وزیراعظم کے خلاف کئی سو مقدمات ہیں ہر روز کوئی نہ کوئی زیر سماعت ہونے سے عدالتوں میں بقیہ مقدمات زیر التوا ہونے سے عدالتوں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ماتحت عدالتوں اور اعلیٰ عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ لاتعداد دیوانی اور فوجداری مقدمات زیر سماعت ہیں جبکہ مقدمات کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت سیاسی مقدمات کے باعث بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ عجیب تماشا ہے جس ملک میں اس بات کا تعین نہ ہو سکے ماتحت عدلیہ میں ججوں کی تقرری حکومت نے کرنی ہے یا ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان نے کرنی ہے؟ ایک اردو معاصر کی خبر نظر سے گزری تو ہم حریت زدہ رہ گئے پنجاب کی ایک سنیئر وزیر لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحب سے مکالمہ کر رہی تھیں کہ ماتحت عدالتوں میں ججوں کی تقرری چیف جسٹس نے کرنی ہے جس کے جواب میں جناب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ملک شہزاد احمد کا کہنا تھا کہاں لکھا ہے ماتحت عدالتوں میں ججوں کی تقرری چیف جسٹس نے کرنی ہے۔ جس کے بعد چیف جسٹس نے پنجاب حکومت کو تین ہفتے میں ماتحت عدالتوں میں ججوں کی تقرری کرنے کا حکم دیا۔ اب چیف جسٹس کے حکم پر پنجاب حکومت نے ماتحت عدالتوں میں نو ججوں کی تقرری کر دی ہے۔ جہاں تک آئینی کورٹس کے قیام کی بات ہے حکومت آئین میں ترمیم کرکے یہ کام آسانی سے کر سکتی ہی اس مقصد کے لئے اپوزیشن کا تعاون ہر ممکن ہو گا۔ آئینی کورٹس کے قیام سے سیاسی اور آئینی مقدمات نئی عدالتوں میں جانے سے دوسری عدالتوں پر غیر ضروری کام کا بوجھ کم ہو سکے گا جس سے مقدمات کی سماعت میں تیزی آسکتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اعلیٰ عدالتوں اور ماتحت عدالتوں میں مقدمات لاکھوں کی تعداد میں زیر سماعت ہیں جو سیاسی اور آئینی پٹیشن کی وجہ سے زیرالتواء ہیں۔ مقدمات کی سماعت میں زیرالتواء مقدمات کی بھرمار کی چند اور وجوہات بھی ہیں جن میں عدالتوں میں وکلاء کا پیش نہ ہونا اگر پیش ہوئے بھی تو التواء کی درخواست دے دی۔ سابق چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے برسوں سے زیر التواء فوجداری مقدمات کی سماعت کا آغاز کیا تو وکلاء پریہ بات واضح کر دی وہ اپیلوں کی سماعت میں کسی صورت التواء کی درخواست قبول نہیں کریں گے جس کے نتیجہ میں جناب کھوسہ نے سیکڑوں فوجداری اپیلوں کی سماعت مکمل کی جس کا فائدہ یہ ہے برسوں سے سزائے موت کے سیلوں میں بند قیدی کا تو بری ہو گئے یا ان کی سزائیں عمر قید میں بدل دی گئیں۔ مقدمات کی سماعت میں تاخیر کی ایک اور وجہ یہ ہے وکلا ء حضرات کسی مقدمہ میں اپنے موکل کے خلاف فیصلہ آنے کا یقین ہوتا ہے وہ مقدمات کو زیر التواء رکھنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرکے کسی طرح مقدمہ کو التواء میں رکھوا لیتے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری اور نواز شریف کے خلاف مقدمات کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت میں طوالت ان کے وکلا کی کاوشوں کا نتیجہ ہے ورنہ کئی سال گزرنے کے باوجود اپیلوں کی سماعت تاخیر کا شکار نہیں ہو سکتی تھی۔ درحقیقت یہ عدلیہ کی بھی ذمہ داری ہے وہ مقدمات کی تیزی سے سماعت کے لئے فریقین کو پابند کریں اگر دونوں فریقوں میں سے کوئی پیش ہونے میں لیت و لعل کرے تو
عدالتیں مقدمات کا یکطرفہ فیصلہ کرنے کی مجاز ہوتی ہے۔ مقدمات کی سماعت میں تاخیر کی ایک اور بڑی وجہ عدالتوں بعض اداروں کی طرف سے عدلیہ پر دبائو ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں نے جس طرح کسی قسم کا دبائو قبول کرنے سے انکار کیا ہے اسی طرح ساری جوڈیشری متحد ہو جائے تو عدلیہ کی آزاد میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں آسکتی۔ نیب مقدمات کی مثال لے لیں کرپشن میں ملوث لوگوں کے خلاف مقدمات کے فیصلے نہیں ہو پاتے جس کے ذمہ دار وکلاء اور جج صاحبان ہیں۔ کسی عدالت کا جج یہ طے کر لے اس نے مقدمہ کا فیصلہ اتنے روز میں کرنا ہے تو اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں آسکتی۔ نیب مقدمات میں پولیس چالان سے مقدمات کی سماعت کا باقاعدہ عرصہ متعین ہے اس کے باوجود عدالتوں میں مقدمات زیر التواء ہیں۔ عمران خان کے دورمیں سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے احتساب عدالتوں کی تعداد میں اضافے کے لئے حکومت سے کہا تو حکومت نئے جج مقرر کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ پاکستان کے معرض وجود میں آتے وقت متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کو اس بات کا عندیہ دیا گیا تھا پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوگی جس میں رہنے والوں کو انصاف ملے گا۔ پاکستان کے عوام کی بدقسمتی ہے ملک کے قیام کو سات عشروں سے زیادہ وقت گزر گیا ہے انصاف کا حصول عوام کے لئے خواب بن گیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے عوام کو بروقت انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے موجودہ حکومت کو آئین میں ترمیم کرکے آئینی اور سیاسی معاملات کو دیگر مقدمات سے علیحدہ کرنے کے لئے آئینی کورٹس کے قیام کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ سیاست دانوں اور عام شہریوں کی مقدمات کی سماعت میں طویل طوالت سے ہمیشہ کے لئے نجات مل جائے۔ جیساکہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی دونوں کا آئینی عدالتوں کے قیام کا مطالبہ بہت پرانا ہے اگر آئینی عدالتوں کا قیام موجودہ حکومت کے دور میں عمل میں آگیا جس کا کریڈٹ دونوں جماعتوں کو ملی گا۔

جواب دیں

Back to top button