ColumnFayyaz Malik

پاکستان کا پہلا ورچوئل ویمن پولیس سٹیشن ’’ میری آواز، مریم نواز‘‘

تحریر : فیاض ملک
پولیس میں خواتین یا نفاذ قانون میں خواتین کی ضرورت دنیا بھر میں محسوس کی گئی ہے، جس کی کئی وجوہات ہیں، پہلی یہ ہے کہ ہر پیشے میں مردوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ موجودگی کا جنسی مساوات کے اصول اور عورتوں کی نمائندگی کی وجہ سے راجح سمجھا گیا ہے۔ دوسری وجہ سے یہ ہے کئی خواتین خود کسی جرم کا شکار ہو سکتی ہیں، یہ گھریلو تشدد بھی ہو سکتا ہے اور اس کے آگے جنسی ہراسانی، جنسی بد اخلاقی اور آبرو ریزی کی حد تک سنگین ہو سکتا ہے، اس میں وہ شدید جسمانی تشدد کا بھی شکار ہو سکتی ہیں، ایسے میں وہ بطور خاص خاتون پولیس اہل کار اور خواتین کے پولیس سٹیشن پر اپنی شکایت بے جھجک سنا سکتی ہیں۔ ضرورت پڑنے پر ان کا جسمانی معائنہ اور طبی معائنہ بھی خاتون افسروں کی موجودگی میں کیا جا سکتا ہے، تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ کبھی کبھار جرائم میں خود عورتیں ملوث پائی جاتی ہیں وہ حراست یا قید میں رکھی جا سکتی ہیں، ایسے میں اگر وہ خاتون پولیس اہلکاروں کی نگرانی میں رہیں تو ان خواتین کی جنسی یا کوئی طرح کی غیر ضروری ہراسانی سے بچایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کیساتھ ہونیوالے سنگین و عام نوعیت کے بڑھتے ہوئے جرائم کی روک تھام کیلئے دنیا میں پہلی مرتبہ تھانوں میں خواتین کے خصوصی پولیس سٹیشنوں یا یونٹوں کا قیام پہلی بار برازیل میں 1985ء میں متعارف کرایا گیا تھا،اس حوالے سے پہلا باضابطہ پولیس سٹیشن 1985ء میں برازیل کے شہر سائو پالو میں کھولا گیا تھا، اسی طرح ارجنٹائن، بولیویا، برازیل، ایکواڈور، گھانا، بھارت، کوسوو، لائبیریا، نکاراگوا، پیرو، فلپائن، سیرا لیون، جنوبی افریقہ، یوگنڈا اور یوراگوئے سمیت کئی ممالک نے مقامی سطح پر خواتین کے یونٹ یا پولیس سٹیشن قائم کیے گئے تھے، پاکستان پولیس میں خواتین کی شمولیت کا آغاز 1970ء کی دہائی سے ہوتا ہے، جبکہ دیکھا جائے تو1861ء کے پولیس ایکٹ اور 1934ء کے پولیس قانون میں خواتین پولیس کا کوئی حوالہ موجود نہیں، تاہم 2002ء کے پولیس آرڈر میں خواتین کی شمولیت کی ضرورت اور ان کی اہمیت کا اعتراف کیا گیا ہے، بطور وزیرِ اعظم بینظیر بھٹو کے پہلے دور میں انکی حکومت نے پولیس میں خواتین کی شمولیت کے بارے میں نہایت دلچسپی کا اظہار کیا تھا، جس کے نتیجے میں ملک کے بیشتر شہروں میں وومن پولیس سٹیشن قائم کیے گئے تھے، اس وقت ملک کے چاروں صوبوں میں مجموعی طور پر15 سو44 پولیس سٹیشن موجود ہیں، ان میں سے صرف12 وومن پولیس سٹیشن ہیں، جن میں سے تین پنجاب، چھ سندھ، چھ خیبر پختونخوا اور ایک اسلام آباد میں موجود ہیں، آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں پولیس کے مختلف شعبوں میں خواتین پولیس افسران و اہلکاروں کی تعداد اس وقت تقریبا 8529کے قریب ہیں جبکہ مرد پولیس افسران اور اہلکاروں کی تعداد 1لاکھ90ہزار سے زیادہ ہیں۔ اس طرح اگر تناسب کے حساب سے دیکھا جائے تو پنجاب میں ہزار سے زائد خواتین کے معاملے کو دیکھنے کیلئے صرف ایک خاتون پولیس اہلکار ہوگی، محکمہ پولیس میں خواتین کی شمولیت کے بارے میں دنیا بھر میں سوچ تبدیل ہوتی جارہی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اہم پوسٹوں پر تعینات خواتین پولیس افسران میں ایس ایس پی عمارہ اطہر، ایس ایس پی شائستہ ندیم، ایس ایس پی ڈاکٹر انوش مسعود چودھری، ایس ایس پی عائشہ بٹ، ایس پی بشریٰ جمیل، شہر لاہور کی پہلی خاتون ایس ایچ او کا اعزاز حاصل کرنیوالی بشری غنی سمیت دیگر خواتین پولیس افسران محکمہ پولیس میں اپنے فرائض بخوبی ادا کر رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین معاشرے کا اہم ترین جزو ہیں اور پولیس سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارکردگی سرانجام دے رہی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ جرائم کی نوعیت بدلی ہے اور جرائم میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ خواتین پولیس افسران نے اپنی پوسٹنگ کے دوران ملزمان کی گرفتاری اور اہم مقدمات کی تفتیش میں نمایاں کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ خواتین افسران تھانہ کلچر کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پنجاب پولیس میں مجموعی طور 9ہزار 377خواتین مختلف عہدوں پر خدمات سرانجام دے رہی ہیں، جن میں 4ایس ایس پیز ، 18 ایس پیز،13اے ایس پیز،20ڈی ایس پیز ،11اسسٹنٹ ڈائریکٹرز ،11آفس سپرنٹنڈنٹ ،10سائیکالوجسٹ ،40 انسپکٹرز، 7 لیگل انسپکٹرز ، 59سینئر ٹریفک وارڈن ،10 اسسٹنٹ ،8 سٹینو گرافرز،441سب انسپکٹر، 168ٹریفک وارڈن ،13سینئر کلرک،27ڈیٹا انٹری آپریٹر، ایک جونیئر ٹریفک وارڈن،147جونیئر کلرک ،122اے ایس آئی ،379ہیڈ کانسٹیبل ،13سینئر ٹریفک اسسٹنٹ ،6633کانسٹیبل ،225 ٹریفک اسسٹنٹ،64کارپورل ،67 سینئر ٹریفک اسسٹنٹ اور336پولیس سٹیشن اسسٹنٹ شامل ہیں جبکہ چندروز قبل پولیس ٹریننگ کالج چوہنگ میں 530خواتین کانسٹیبلوں اور ٹریفک اسسٹنٹس نے ٹریننگ مکمل کی ہے ۔گزشتہ دنوں پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے بھی چوہنگ ٹریننگ سنٹر میں لیڈیز پولیس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں پولیس یونیفارم پہن کر شرکت کی تھی جس پر خواتین پولیس افسران اور اہلکاروں کی طرف سے اظہار تشکر کیا گیا اور وزیر اعلیٰ کے اس اقدام کو مختلف شعبہ جات میں کام کرنیوالی خواتین کیلئے سنگ میل قرار دیا گیا تھا ، اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ وہ محکمہ پولیس میں خواتین کی تعداد بڑھانا چاہتی ہیں، مجھے خوشی ہے کہ عزت کی پہلی تلوار ایک خاتون پولیس افسر کے پاس گئی، مجھے آپ سب پر فخر ہے، یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو کے بعد اگر کسی خاتون سیاستدان نے خواتین کی حقوق ، انکی فلاح بہبود کو یقینی بنانے عملی اقدامات کئے ہے تو وہ مریم نواز شریف ہے، انہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین کے ساتھ ہونے والے سنگین و عام نوعیت کے بڑھتے ہوئے جرائم کے خاتمے کو یقینی بنانے کیلئے پنجاب سیف سٹی اتھارٹی میں پاکستان کے پہلے ورچوئل ویمن پولیس سٹیشن، میری آواز ، مریم نواز، قائم کیا اور وہاں پر آئی ٹی گریجویٹ خاتون پولیس کمیونیکیشن افسروں کو تعینات کیا گیا، خواتین 15کال، ویمن سیفٹی ایپ لائیو چیٹ فیچر، ویڈیو کال فیچر، پنجاب پولیس ایپ اور سیف سٹی ویب پورٹل کے ذریعے ور چوئل پولیس سے رابطہ کر سکتی ہیں، خواتین کو غیر ضروری طور پر تھانے کے چکر نہیں لگانا ہوں گے، ورچوئل ویمن پولیس سٹیشن کو خواتین ویڈیو کال فیچر کے ذریعے اپنی لوکیشن سمیت درپیش مشکلات کی نشاندہی کر سکتی ہیں، یونیورسٹی اور کالجوں، مارکیٹ، چوراہوں اور بازاروں میں نصب پینک 15بٹن دبا کر فوراً سیف سٹی سے رابطہ ممکن ہے، یہ ورچوئل ویمن پولیس سٹیشن نے محض ایک ماہ کے دوران خواتین کی آواز بن گیا، خواتین کی شکایات پر ہراسگی ،گھریلو تشدد، لڑائی جھگڑا، گھریلو ناچاقی سمیت دیگر مسائل کی ایک ہزار 39ایف آئی آر درج کروا دیں، خواتین نے 6ہزار 294کیسز میں ورچوئل وویمن پولیس سٹیشن سے مدد حاصل کی، 54کیسز میں عدالتی چالان بھی جمع کروائے گئے، کل کیسز میں سے 4ہزار 246کیسز کو صلح و صفائی ہونے پر کلوز کر دیا گیا۔586کیسز میں تفتیش کا عمل جاری، 423کیسز کو جلد مکمل کرنے پر زور دیا گیا، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بطور وزیر اعلیٰ مریم نواز جہاں عام خواتین کو درپیش مسائل کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات کر رہیں وہی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کرنیوالی خواتین کیلئے ہاسٹلز، عام خواتین کیلئے بائیکس اور ورچوئل تھانوں کا قیام بھی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے صرف خالی خولی دعوے نہیں کر رہیں بلکہ کام اور صرف کام کر رہی ہیں۔

جواب دیں

Back to top button