Abdul Hanan Raja.Column

قرآن کو کیوں سمجھیں

عبد الحنان راجہ
شہر لندن کا تھا اور سال 1988، گستاخانہ کتاب کی اشاعت پر پورا عالم اسلام تو سراپا احتجاج تھا ہی مگر برطانیہ میں بھی تاریخ کے بڑے مظاہرے جاری تھے۔ حکومت برطانیہ نے مظاہروں کو طاقت کا استعمال کئے بغیر روکنے کی ذمہ داری سکاٹ لینڈ یارڈ کائونٹر ٹیرر ازم کے چیف رچرڈ وارلے کو سونپی جو نہ صرف ماہر ارضیات بلکہ فزکس اور آسٹرو فزکس بھی ان کے پسندیدہ مضامین تھے۔ رچرڈ نے عام طریق سے ہٹ کر مظاہرین کو احتجاج پر ابھارنے والی طاقت کا کھوج لگانے کی ٹھانی۔ سو اس نے بے حرمتی کی جانے والی کتاب ( قرآن) کا مطالعہ شروع کیا جواب کی تلاش میں سرگرداں رچرڈ کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے سورہ آلنباء کی اس آیت ’’ کیا پہاڑوں کو میخوں کی طرح ( زمین میں) نہیں گاڑ دیا ‘‘ پر پہنچا. وہ حیران تھا کہ گزشتہ صدی تک تو سائنس بھی اس بارے بے خبر تھی، کہ پہاڑ زمین سے اوپر کم جبکہ نیچے کئی گنا تک، مائونٹ ایورسٹ 8.8کلو میٹر جبکہ سمندر میں موازنا کیا 10.2کلومیٹر بلند۔ اب یہ زمین کے اندر کتنی گہرائی تک اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے، مگر وہ اس پر حیران تھا کہ 1400سال قبل اس کتاب نے اس حقیقت کو کیسے آشکار کیا۔ قرآن کی اس ایک آیت پر غور اور تدبر کہ جس کا قرآن میں بار بار ذکر ہے، نے اسے قبول اسلام پر مجبور کر دیا۔ مگر افسوس کہ ہم حامل قرآن ہو کر بھی اس میں غور و فکر اور تدبر سے پہلو تہی برتتے ہیں۔ ہم جزوی علوم میں مہارت کے لیے شب و روز کوشاں مگر ام العلوم اور ام الکتاب سے راہنمائی کی کوئی سعی، کوشش اور لگن دکھائی نہیں دیتی۔ قرآن کی حقانیت جب معروف فرانسیسی سرجن ڈاکٹر مورس بیوگیل پر آشکار ہوئی تو اس نے بھی قرآن کے آگے سر تسلیم خم کر لیا۔ مصر کے شہر آکثر میں فراعین مصر کی قبروں کی کھدائی تو 1799ء سے جاری تھی وکٹر لور نے اس شہر کہ جسی ’ وادی ملوک‘ کہا جاتا تھا سے ایک نعش دریافت کر چکے تھے، بعد ازاں ڈاکٹر مورس اور ان کی ٹیم نے قاہرہ میں اس ممی کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے اپنی تحقیق شروع کی اور پھر حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لیے اسے قاہرہ سے فرانس منتقل کرنے کی اجازت مانگی۔ پیرس میں مختلف شعبہ جات کے ماہرین نے اس کے پھیپھڑوں، معدہ اور پیٹ کے نمونہ جات لیے، آخر کار ڈاکٹر مورس کی سربراہی میں ٹیم نے اس کی موت سمندر میں ڈوبنے یا سمندر کے تند و تیز تھپیڑوں سے ہونے کا اعلان کر دیا۔ مگر اس سوچ نے انہیں ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا کہ بحر قلزم کی عمیق گہرائیوں اور سمندر کی تند و تیز موجوں سے اسے کس نے بچایا اور پھر اس کی حفاظت کا ساماں کیونکر ہوا؟ یہ سوال کانٹے کی طرح اس کے دل و دماغ میں کھٹکنے لگا۔ وہ اس بات کا تو قائل ہو ہی گیا تھا کہ اس کے پیچھے کوئی زبردست قوت ہے مگر وہ استدلال کے بغیر یقین پہ راضی نہ تھا۔ سو پہلے اس نے بائیبل اور پھر تورات سے اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی۔ تورات میں اس فرعون کی حضرت موسیٌ کلیم اللہ کی تلاش میں سمندر میں کودنے اور پھر ہلاکت تک کا بیان تو تھا مگر اس سے آگے تورات خاموش تھی۔ اس کے ایک ساتھی نے اسے مسلمانوں کی کتاب میں اس کے ذکر کا بتایا تو آتش شوق نے اسے مطالعہ قرآن پر مجبور کیا۔ سورۃ یونس میں فرعون کے سمندر میں غرق ہونے، اسے باہر نکال پھینکنے اور اس کی نعش کو آنے والوں کے لیے بطور عبرت محفوظ کرنے کی تفصیل نے اس کے قلب و روح پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ قرآن کو کلام الٰہی اور اس کے سچا ہونے پر مجبور ہو گیا۔
یہ واقعہ تو انہوں نے اپنی کتاب Bible، The Quran and Science میں لکھا ہی مگر 1988ء کو ویمبلے ہال میں ہونے والی کانفرنس کہ جس کے میزبان نامور محقق اور مفکر ڈاکٹر محمد طاہر القادری تھے اور اس میں عرب و عجم کے 35 سے زائد ممالک کے علما اور سکالرز موجود تھے میں اپنے خطاب ’’ میں کیسے مسلمان ہوا‘‘ میں سنایا۔ یہ درست کہ علم و تحقیق کی دنیا کے شہسواروں نے جب جب قرآن کی حقانیت کو جدید علوم و فنون سے پرکھنا چاہا تو ان پر حقائق کی ایک نئی دنیا آشکار ہوتی رہی۔ مگر اپنے احوال دیکھیں تو منہ چھپانے کو جگہ نہیں ملتی کہ ہماری زندگیوں میں قرآن رہ کہاں گیا؟ ہماری تجارت میں رہا نہ معیشت میں، نہ گھر نہ معاشرے میں، سیاست نہ صحافت میں، کردار میں نہ افکار میں۔ نظام تعلیم اسلامی ہے نہ نصاب تعلیم۔ مدراس میں جس طرح کی تعلیم دی جاتی ہے اس کا تو حال، گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا، کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ، والا ہے۔ یہ قرآن تو اس امت کو علم، تحقیق، جستجو کی نت نئی دنیا کھولنے، کائنات کو مسخر اور احوال کو سدھارنے کے لیے عطا کیا گیا تھا۔ اس کے اعجازات و کمالات، فصاحت و بلاغت ایسی کہ عرب کے نامور شعرا بے بس، سورۃ الکوثر کی تین آیات نے لبید بن ربیعہ کہ جس کی زبان دانی پر عرب نازاں تھا، عاجز آ گیا اور وہ اسے کلام الٰہی ماننے پر مجبور ہو گیا، مگر حیف کہ وہ کلام اثر پذیر نہیں تو قلب مسلماں پر، کہ ہمیں جری ہونا تھا بزدل ہو گئے، غیرت ایمانی باقی رہی اور نہ وہ لن ترانی، آج حال یہ کہ پوری دنیا کو زیر نگیں کرنے والے ایک ناجائز ریاست سے جنگ بندی کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ اس حال میں ہم نے رمضان گزارا اور دنیا بھر سے لاکھوں نے اس ماہ مقدس میں کعبے کا طواف کیا، کہ اسرائیلی سفاکیت و بربریت پر صدائے احتجاج بلند کرنے میں ہماری آوازیں کپکپاتی ہیں۔ بزبان ابلیس، اقبالؒ نے اس کا خوب نقشہ کھینچا۔ ’’ ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا، کند ہو کے رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام ‘‘
اور اب عید بھی کریں گے کیا فلسطین اور کشمیر کے مظلوم بچوں خواتین اور مسلمانوں کو بے یارو مددگار چھوڑ کر ہماری دعائیں، مناجات اور التجائیں رب کعبہ کے ہاں مقبول و معتبر ٹھہریں گی۔ یقیناً نہیں !! کہ پہلا حق مظلوموں کا ہے ۔ ہم قرآن پڑھتے ہیں سمجھتے نہیں. یہ صرف ثواب کے لیے ہے نہیں، انقلاب کے لیے تھا مگر وہ انقلاب کہیں کھو گیا۔ آئیے عہد کریں کہ اس انقلاب آفریں کلام اور مخزن علم سے پہلے اپنے مردہ دلوں کو جلا بخشیں، پھر معاشرے اور یقیناً احیائے امت کا فقط یہی نسخہ ہے کہ قلب مومن را کتابش قوت است، حکمتش حبل الورید ملت است، گر تو می خواہی مسلماں زیستن، نیست ممکن جز بقرآں زیستن۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button