Editorial

افغانستان میں دہشتگردوں کیخلاف فضائی آپریشن، شمالی وزیرستان میں 8شرپسند ہلاک

پاکستان 15سال تک دہشتگردی سے شدید متاثر ملک رہا ہے۔ دہشتگردی کے واقعات روزانہ کی بنیاد پر رونما ہوتے ہیں۔ ملک کا کوئی گوشہ دہشتگردی سے محفوظ نہ تھا۔ 80 ہزار بے گناہ انسان دہشتگرد کارروائیوں میں جاں بحق ہوئے، جن میں بڑی تعداد سیکیورٹی فورسز کے افسران اور جوان شہدا کی بھی شامل تھی۔ پاکستان نے تن تنہا دہشتگردوں کا اپنے ملک سے صفایا کیا۔ ان کے خلاف آپریشن ضرب عضب اور پھر ردُالفساد کیے، جن میں بڑی کامیابیاں نصیب ہوئیں۔ کتنے ہی دہشتگردوں کو اُن کے ٹھکانوں میں گُھس کر مارا گیا، کتنے کو ہی گرفتار کیا گیا اور جو بچے اُنہوں نے یہاں سے فرار میں اپنی بہتری سمجھی۔ دہشتگردوں کی کمر توڑ کے رکھ دی گئی۔ امن و امان کی فضا بحال ہوئی۔ عوام نے سکون کا سانس لیا۔ کچھ سال امن و امان کی صورت حال بہتر رہی، لیکن پچھلے ڈیڑھ دو سال سے زائد عرصے سے دہشتگردی کا عفریت پھر سے سر اُٹھاتا دِکھائی دیتا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں مسلسل سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ افغانستان میں جب سے امریکی افواج کا انخلا ہوا ہے اور اقتدار طالبان کے سپرد ہوا ہے، تب سے پاکستان میں دہشتگردی کی وارداتیں کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہیں۔ دہشت گرد پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کو استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان بارہا افغانستان کی حکومت سے اس ضمن میں احتجاج ریکارڈ کراچکا اور اپنے ہاں موجود ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کو پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال نہ کرنے دینے کے مطالبات کرتا رہا ہے، لیکن افغانستان کی جانب سے ان مطالبات کو درخوراعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کا ساتھ دیا ہے اور اُس کی بہتری کے لیے ڈھیروں قربانیاں دی ہیں۔ افغانستان پر جب سوویت یونین حملہ آور ہوا تھا تو وطن عزیز نے افغان باشندوں کے لیے اپنے دیدہ و دل فرش راہ کر دئیے تھے۔ لاکھوں افغانیوں کی چار عشروں سے زائد عرصے تک میزبانی کی۔ ان کو روزگار، تعلیم، کاروبار ہر شعبے میں مواقع دئیے۔ افغانستان میں قیام امن اور امریکا کے انخلا میں پاکستان کا کلیدی کردار رہا۔ اس کے باوجود افغانستان کی جانب سے کبھی بھی پاکستانی قربانیوں کی تعریف و توصیف دیکھنے میں نہیں آئی۔ اُلٹا افغانستان پاکستان مخالفت پر آمادہ دِکھائی دیا۔ پاکستان دشمنوں سے نمٹنا بخوبی جانتا ہے اور اُن کے خاتمے تک مصروفِ عمل رہے گا۔ گزشتہ روز پاکستان نے افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف فضائی کارروائی کی تصدیق کی ہے، جس میں حافظ گل بہادر گروپ اور کالعدم تحریک طالبان کو نشانہ بنایا گیا ہے اور افغان سرزمین پر موجود ٹھکانے تباہ کیے گئے۔ دفتر خارجہ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق پاکستان نے افغانستان میں موجود دہشتگردوں کے خلاف خفیہ اطلاعات پر آپریشن کیا، جس میں کالعدم ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان نے افغانستان کے اندر سرحدی علاقوں میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر فضائی کارروائیاں کیں۔ ترجمان نے مزید کہا کہ پیر کو کی جانے والی کارروائی کا ہدف حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشتگرد تھے۔ گل بہادر گروپ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کے ساتھ مل کر پاکستان کے اندر متعدد دہشتگرد حملوں کا ذمے دار ہے، جس کے نتیجے میں سیکڑوں شہری اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی شہادتیں ہوئی ہیں۔ شمالی وزیر ستان کے علاقے میر علی کی سیکیورٹی چیک پوسٹ پر 16 مارچ کو ہونے والے حملے میں بھی حافظ گل بہادر گروپ ملوث ہیں، جس میں دو اعلیٰ افسران سمیت 7 پاکستانی فوجی شہید ہوئے تھے۔ ترجمان نے بتایا کہ گزشتہ دو سال کے دوران پاکستان نے متعدد بار افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی سمیت دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر عبوری افغان حکومت کو اپنے سنگین تحفظات سے آگاہ کیا، یہ دہشتگرد پاکستان کی سلامتی کے لیے شدید خطرہ ہیں اور پاکستانی حدود میں دہشتگرد حملوں کے لیے مسلسل افغان سرزمین کا استعمال کرتے رہے ہیں، افغان حکام پر بارہا زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اور موثر کارروائی کریں کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال نہ ہو پائے مگر کوئی نتائج سامنے نہ آسکے، پاکستان افغانستان کے لوگوں کا بہت احترام کرتا ہے تاہم، افغانستان میں اقتدار میں رہنے والوں میں سے کچھ عناصر ٹی ٹی پی کی سرپرستی کر رہے اور انہیں پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ترجمان کے مطابق گزشتہ کئی دہائیوں میں افغانستان کے عوام کے لیے پاکستان کی طرف سے دی جانے والی حمایت کو نظر انداز کیا ہے، ہم اقتدار میں موجود ان عناصر سے گزارش کرتے ہیں کہ معصوم پاکستانیوں کا خون بہانے والے خوارج دہشتگردوں کا ساتھ دینے کی پالیسی پر نظرثانی کریں۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ اور پاکستانی عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا واضح انتخاب کریں، ٹی ٹی پی جیسے دہشتگرد گروہ علاقائی امن اور سلامتی کے لیے اجتماعی خطرہ ہیں، ہم ٹی ٹی پی کی طرف سے لاحق خطرے سے نمٹنے میں افغان حکام کو درپیش چیلنج کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔ اس لیے پاکستان دہشتگردی کے خلاف مشترکہ حل تلاش کرنے اور کسی بھی دہشتگرد تنظیم کو افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو سبوتاژ کرنے سے روکنے کے لیے کام جاری رکھے گا۔ ادھر سیکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کے دوران 8دہشتگردوں کو جہنم واصل کر دیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں کی موجودگی کی اطلاع پر آپریشن کیا، شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد ہائی ویلیو دہشت گرد کمانڈر سحر جانان سمیت 8دہشتگرد ہلاک ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ہلاک دہشتگرد سحر جانان 16مارچ کو میر علی میں سیکیورٹی فورسز کی چوکی پر حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انتہائی مطلوب تھا۔ پاکستان اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ افغانستان میں کی گئی فضائی کارروائی وقت کی اہم ضرورت تھی۔ افغانستان کی جانب سے اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشتگردی کی روک تھام کے لیے استعمال کرنے کے ضمن میں سنجیدگی ظاہر نہیں کی جارہی۔ پاکستان کے عظیم احسانات کو کسی خاطر میں نہیں لایا جارہا۔ افغانستان کی حکومت اب تو پاکستان کے مطالبات پر کان دھرے۔ دوسری جانب شمالی وزیرستان میں آپریشن میں 8دہشتگردوں کی ہلاکت بڑی کارروائی ہے۔ سیکیورٹی فورسز اس پر مبارک باد کی مستحق ہیں۔ پاکستان پہلے بھی دہشتگردوں سے تن تنہا نمٹ چکا اور ان کا صفایا کر چکا، اس بار بھی اُس کے لیے دہشتگردوں کا قلع قمع کرنا چنداں مشکل نہ ہوگا۔ کچھ ہی عرصے میں صورت حال بہتر ہوگی اور تمام دہشتگرد اپنے انجام کو پہنچ چکے ہوں گے۔
گردشی قرض تین ہزار ارب سے متجاوز
پاور سیکٹر کے گردشی قرض کو شیطان کی آنت قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس سے جتنی جان چھڑانے کی کوشش کی جائے، یہ اُتنا ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ وطن عزیز میں تو پچھلے کئی سال سے ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے۔ ماضی میں حکومتوں نے بارہا بھاری بھر کم گردشی قرض کے خاتمے کے دعوے کیے، لیکن کچھ ہی ماہ بعد یہ پھر سے اُسی شدّت سے موجود نظر آئے۔ گردشی قرض کے چکر کے مکمل خاتمے کے مطالبات بارہا ہوتے رہے ہیں، لیکن اس جانب قدم بڑھانے کے لیے کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں سوچا گیا، بلکہ اس معاملے کو نامعلوم کیوں نظرانداز کیا جاتا رہا، یہ طرز عمل کسی طور مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جب سرکلر ڈیبٹ کا مسئلہ ہر کچھ عرصے بعد سنگین نوعیت اختیار کرجاتا ہے تو اس سلسلے کو متروک کرنا ہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ وطن عزیز کی معیشت اس وقت انتہائی مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ ملک پر بیرونی قرضوں کا بے پناہ بار ہے۔ صنعتوں کا پہیہ رُکا ہوا سا ہے۔ گو پچھلے کچھ مہینوں کے اقدامات کے نتیجے میں صورت حال نے بہتر رُخ اختیار کیا ہے، لیکن ابھی بھی بہت سے انقلابی اقدامات وقت کی اہم ضرورت محسوس ہوتے ہیں۔ اس وقت گردشی قرض کا ملک پر بے پناہ بار ہے اور یہ تین ہزار ارب روپے سے متجاوز کرچکا ہے۔’’جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق وزارت توانائی نے انکشاف کیا ہے کہ پاور سیکٹر کا گردشی قرض کم ہونے کے بجائے بڑھنے لگا اور اب یہ بڑھتے بڑھتے تین ہزار ارب سے تجاوز کرگیا۔ وزیر توانائی اویس لغاری کی صدارت میں پاورسیکٹر کے چیلنجز سے متعلق اجلاس ہوا، جس میں توانائی سیکٹر کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر توانائی نے پاور سیکٹر کے گردشی قرض میں اضافے کو روکنے کے لیے اقدامات کی ہدایت کی۔ بریفنگ میں وزیر توانائی کو بتایا گیا کہ ملکی معیشت کو درپیش چیلنجز میں پاور سیکٹر کا گردشی قرض بڑی وجہ ہے جو تین ہزار ارب سے تجاوز کرچکا ہے۔ وزیر توانائی نے کہا کہ پاور سیکٹر کا گردشی قرض سالانہ بنیادوں پر 7 سے 8 سو ارب بڑھ رہا ہے، اس کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے اور اس کے اسباب و نااہلی کا سدباب کیا جائے گا۔ گردشی قرض کا اتنا زائد بڑھ جانا تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بہت ہوچکا، اب گردشی قرض کے بوجھ سے مستقل چھٹکارے کے لیے حکمت عملی مرتب کی جائے۔ اس حوالے سے قدم بڑھائے جائیں۔ اس ضمن میں چنداں تاخیر کی گنجائش نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button