Column

ریاست پاکستان کو کوئی تو سمت دے

عابد ایو ب اعوان
وطن عزیز پاکستان میں عام انتخابات کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں نئی حکومت براجمان ہو چکی ہے۔ وزیراعظم کے مسند پر 16ماہ بیٹھنے والی سابق شہباز سرکار کو توسیع دیکر دوبارہ شہباز شریف وزیراعظم منتخب ہو چکے ہیں جبکہ سابق صدر آصف زرداری سندھ و بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومتیں بنانے اور خود دوسری بار صدر پاکستان کا حلف اٹھا کر ایوان صدر کے مکین ہوگئے۔ 3بار کے سابق وزیراعظم نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز کو وزیراعلی پنجاب منتخب کروا کے پنجاب حکومت تک محدود رہتے ہوئے وزیراعلی پنجاب مریم نواز کو وطن عزیز کی آئندہ وزیراعظم بنوانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ خیبر پختونخوا میں علی امین گنڈا پور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ وزیراعلی ہیں۔
ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی ، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اس وقت اپنے اپنے حصے کے ساتھ اقتدار میں ہیں۔ اگرچہ حقیقتا ایسا ہونا دکھائی تو نہیں دیتا مگر ہونا تو یہی چاہئے کہ تینوں مذکورہ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے دائرہ اقتدار میں رہ کر حکومتی دورانیہ بغیر کسی سیاسی انتشار و ابتری کے مکمل کریں اور آئندہ انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہونے کا موقع دیتے ہوئے اپنی کارکردگی پر فوکس رکھیں تاکہ اگلی بار انتخابات میں جائیں تو عوام سے کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ لیں۔ اور جہاں جہاں حکومت ہے وہاں وہاں ترقی و خوشحالی لائیں تاکہ معاشی گھن چکر میں پستی وطن عزیز کی عوام کا بھلا ہو سکے۔
اپنے معرض وجود میں آنی سے لیکر آج 77سالوں بعد تک ہمیشہ سے نازک دور سے گزرنے والا وطن عزیز اس وقت واقعی اور حقیقی طور پر اپنے نازک ترین دور سے گزر رہا۔ اس بحث میں الجھے بغیر کہ کون اسکا ذمہ دار ہے ہمیں من الحیث القوم اس وقت صرف اور صرف پاکستانی بن کر ہر طرح کی تقسیم اور نفرت سے دور ہو کے اتحاد و یگانگت کا عملی طور پر ثبوت دینا ہوگا تاکہ ہر پاکستانی کی سوچ ترقی یافتہ پاکستان ہو اور ہر ایک اپنے حصے کا مثبت و تعمیری کردار ادا کرے کیونکہ اسی میں پاکستان اور پاکستانی قوم کی بقا ہے۔ نئی حکومت کو اس وقت جن سنگین چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سب سے بڑا چیلنج تباہ شدہ معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا ہے۔ ایک طرف مہنگائی بیروزگاری اور غربت کی چکی میں پسے عوام کو فوری ریلف دینا ہو گا تو دوسری طرف اخلاقی گراوٹ کی شکار پوری قوم اور خصوصا نوجوان نسل کی اخلاقی تربیت ناگزیر ہے جوکہ اس وقت بداخلاقی ، دو نمبری ، نفرت اور تقسیم کا شکار ہے جس سے حب الوطنی کا جذبہ ناپید ہو چکا ہے۔ نوجوان کسی بھی ملک کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں پاکستان میں 60فیصد نوجوان ہیں جو اپنے مستقبل سے مایوس ہیں۔ پاکستانیوں کی اکثریت ملک چھوڑ کر بیرون ملک سیٹل ہونے کو ترجیح دے رہی ہے اور جو یہاں رہ رہے ہیں ان کے پاس یا تو بیرون ملک جانے کے وسائل نہیں یا وہ شدید حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہیں۔ نوجوانوں کی بیکار ایک تو ملکی معیشت پر بوجھ ہے اور دوسرا جرائم کا سبب بن رہی۔ نسل نو کو آج کی جدید ٹیکنالوجی کی سکلز دینا وقت کی ضرورت ہے تاکہ نوجوان نسل کا استعمال ملکی ترقی کیلئے کارآمد ثابت ہو۔
گزشتہ 7سالوں سے ملکی معیشت کا رکا ہوا پہیہ آگے بڑھانا نئی حکومت کیلئے کڑا امتحان ہے۔ ملک کا معاشی استحکام سیاسی استحکام سے جڑا ہوا ہے جب تک سیاسی میچورٹی نہیں آتی ترقی کا سفر ناممکن ہے۔ اس ضمن میں وزیراعظم شہباز شریف کو دل بڑا کرنا ہوگا اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرکے سیاسی مخالفین کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے وزیراعظم منتخب ہو کر اسمبلی اجلاس سے خطاب کے دوران ایک بات کہی تھی جو شائد کسی کو سنائی نہیں دی کہ موجودہ بگڑے معاشی حالات میں پاکستان کا بطور ایٹمی ریاست سروائیو کیسے ہو گا۔ غیر ملکی قرضوں کے شکنجے میں کسی معیشت کا یہ حال ہے کہ اسمبلی اجلاس پر اٹھنے والے اخراجات غیر ملکی قرضوں سے چل رہے ہیں اراکین اسمبلی کی تنخواہیں ، سرکاری ملازمین کی تنخواہیں حتی کہ فوج کی تنخواہیں اور بجٹ بھی آئی ایم ایف کے قرضوں کے مرہون منت ہیں۔ ایسے حالات میں ملکی خودمختادی اور سلامتی پر سوالیہ نشان ہے۔ آنیوالے سال ملکی معیشت کیلیئے مزید مشکل دکھائی دے رہے ہیں۔ مہنگائی ، بیروزگاری اور غربت میں مزید اضافہ ہو گا۔ غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ صدر آصف زرداری نے صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بڑی اچھی تجویز دی کہ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان میں پانی پہنچا کر زراعت کے حوالے سے کام کرنا ہوگا۔ وطن عزیز کے ساتھ ستم ظریفی تو ملاحظہ کیجئے کہ پورے ایشیا کی غذائی ضروریات پورا کر سکنے والے زرعی ملک کی اپنی حالت یہ ہے کہ عوام آٹا کیلئے ترس رہی ہے۔ بھلے ملک میں بنجر زمینیں آباد کریں ان پر ہائوسنگ سوسائٹیاں بنائیں مگر زرعی رقبے پر ایگریکلچر کو فروغ دیں تاکہ عوام کا پیٹ پل سکے اور مستقبل میں ملک کو غذائی قلت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ناامیدی گناہ ہے مگر عالی جاہ حقیقت سے آنکھیں چرانا بھی کوئی دانشمندی نہیں۔ ملکی حالات کا تقاضا ہے کہ بالعموم عوام اور خصوصا نوجوان نسل میں بڑھتی مایوسی کا خاتمہ کرنا ہوگا ورنہ نسل نو کی بیکار وطن عزیز کو دیمک کی طرح کھا جائیگی۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ملک کے مقتدر اور سنجیدہ حلقوں کو ملکی معیشت کی بہتری اور عوامی فلاح و خوشحالی کے لئے سر جوڑ کے بیٹھنا ہوگا وگرنہ ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے اور پھر سوائے من الحیث القوم پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہ آئے۔ وطن عزیز کے مقتدر حلقوں سے گزارش ہے کہ خدارا اب بس کریں اور ریاست کی بقا کا سوچیں کوئی تو ایسا ہو جو ملک کو اس نازک ترین دور سے نکالے۔ کوئی تو رستہ نکالیں کہ جس سے ریاست پاکستان کی از سر نو تعمیر ہو اور کسی سمت کسی ڈگر پر ملک ترقی کا سفر شروع کرے۔ اللہ وطن عزیز کا حامی و ناصر ہو۔ کالم کے آخر پر قارئین کی نذر یہ اشعار:
میں ایک مایوس نسل میں پیدا ہوا ہوں
جو محنت کرکے تھک چکی ہے
جو اپنے ملک سے بیزار ہے
روزی، روٹی کے لیے پریشان ہے
جہاں انسانی جان کا ضیاع، شہادت تصور کیا گیا
جہاں سوچنا گناہ ہے، آزادی، کُفر ہے
اپنی خواہشات کو مارنا، ثواب ہے
میرے خاندان کی رسومات کو مجھ پر، فرائض سمجھ کر تھوپا گیا
میری پسندیدگی کا اظہار، معاشرتی اقدار کے خلاف سمجھا گیا
رشتوں کو نبھانا، سلجھے ہونے کی نشانی بتایا گیا
میرا معاشرہ میرا دم گھٹ رہا ہے
اردگرد انسانوں سے خوف آنے لگا ہے
میری زبان، بات کرنے سے پہلے چہرے پڑھتی ہے
اپنوں کے ہجوم میں بھی تنہا ہوں
میں اِک ایسے معاشرے کا حصہ بن گیا ہوں
جہاں ظلم پر صبر، مظلومیت کو نصیب سمجھا گیا
میں اس معاشرے کا حصہ ہوں
میں قدامت پسندوں کی آل میں سے ہوں۔۔۔!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button