بلاگ

آخری اسٹیشن: بہاولپور تا امروکہ تک پھیلی بربادی کی ایک داستان

تحریر: پروفیسر محمد حسین

ریاست بہاولپور کی 112 کلومیٹر کی دوسری دربار لائن بہاولنگر اور فورٹ عباس کے درمیان 1928 میں بچھائی گئی تھی۔
اس ٹریک پر کھچی والا، فقیروالی، ہارون آباد اور ڈونگا بونگہ کی نئی غلہ منڈیاں قائم کی گئیں اور ریل سے جڑنے کے بعد چولستان کے یہ علاقے کافی خوشحال ہو گئے۔

اُس دور میں چلنے والی گاڑیاں کراچی سے سمہ سٹہ جنکشن اور پھر بہاولپور سے ہوتی ہوئی بغداد، ڈیرہ بکھا، لال سہانرا، اسرانی، خیر پور ٹامیوالی، شیخ واہن، قائم پور، حاصل پور، بخشن خان، چشتیاں، چک عبداللہ، مدرسہ، تخت محل، بہاولنگر جنکشن، چھبیانہ، منچن آباد، منڈی صادق گنج، سوبھاوالا اور پاک بھارت سرحد پر آخری اسٹیشن امروکہ تک جاتی تھیں۔

دوسری طرف بہاولنگر سے فورٹ عباس جانے والی لائن ڈونگہ بونگہ، ہارون آباد، فقیر والی، فورٹ عباس، مروٹ، منصورہ، یزمان سے ہوتی ہوئی قط العمارہ اسٹیشن (جو اب بہاولپور کا حصہ ہے) کے قریب امروکا سے آنے والی لائن میں ضم ہو کر سمہ سٹہ تک جاتی ہے جس پر پھر کبھی لکھوں گا۔ اس پٹڑی کا بیشتر حصہ صحرائے چولستان سے ہو کر گزرتا تھا۔

امروکا لائن پر 1894 میں قائم ہونے والے مرکزی جنکشن کا نام ”روجھانوالی” تھا جسے بعد ازاں 1901 میں نواب بہاول خان عباسی پنجم کے نام پہ ”بہاول نگر جنکشن“ کر دیا گیا جس نے سابق ریاست بہاولپور خصوصاً ضلع بہاولنگر کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔

ہندوستان میں آگے دہلی تک جانے کے لیے بھی یہی ٹریک استعمال ہوتا تھا۔ اس دور میں سمہ سٹہ سے بہاول نگر تک روزانہ کئی ٹرینیں چلا کرتی تھیں جن کی بدولت یہاں کے اسٹیشن پہ خوب رونق رہتی تھی۔ اپنی ٹرین یاترا کے دوران موہن داس گاندھی بھی ان اسٹیشنوں سے گزرے تھے۔

قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ دہلی سے کراچی جاتے ہوئے وہ نہ صرف یہاں سے گزرے تھے بلکہ منڈی صادق گنج اسٹیشن پہ رکھی کرسی پہ آرام بھی کیا۔ اس بات کا ذکر کسی کتاب میں میری نظر سے نہیں گزرا۔

بہاولنگر ریلوے جنکشن 1935 میں اپنے عروج پر تھا جس کی ایک خاص وجہ کوئٹہ سے دہلی تک مال بردار ٹرینوں کا باقاعدگی سے چلنا تھا۔ اسی دور میں عملے کے لیے پانچ سو کوارٹرز بنائے گئے جن میں ریلوے افسران کی رہائش، ریلوے ہسپتال، افسران کے بنگلے ، کلب، کھیل کے میدان، قبرستان، ورکشاپ اور ریلوے پولیس اسٹیشن شامل ہیں۔
پھر 1938 میں یہاں ایک ڈی سی بجلی گھر قائم کیا گیا جو ڈیزل انجن کی مدد سے بجلی پیدا کیا کرتا تھا جس سے بہاول نگر جنکشن پر خوب روشنی رہتی تھی۔

ریلوے کی تمام ضروریات پوری ہونے کے بعد یہ ایک خوبصورت مقام میں تبدیل ہو گیا۔ اسٹیشن پر مستقل چوبیس گھنٹے مسافروں کی ہلچل رہتی تھی، چائے کے اسٹال کھلے رہتے، اسٹیشن ماسٹر سے لے کر، کانٹا بدلنے والا اور ٹینکیوں میں پانی بھرنے والا عملہ مستعد رہتا تھا اور اسے اس وقت برصغیر کے اہم ریلوے جنکشنوں میں شمار کیا جاتا تھا۔
یہاں تک کہ تقسیم کے بعد بھی اس جنکشن نے 1980 تک کاروباری مرکز کے طور پر اپنی ساکھ برقرار رکھی اور یہ شہر سے بھی اہم تصور کیا جاتا تھا۔

اور پھر آہستہ آہستہ جمہوریت کے ثمرات اس تک بھی پہنچ گئے۔
نوے کی دہائی کے آخرمیں شدید کرپشن سے ریلوے کو نقصان ہونے لگ گیا۔ ایک خبر کے مطابق ہمارے ایک وزیر ریلوے (جن کا اپنا ٹرانسپورٹ کا دھندہ تھا) نے پیسے لے کے ٹرینیں بند کرنا شروع کر دیں اور بسوں کو پروموٹ کیا۔ جان بوجھ کر ٹرینیں لیٹ کی جاتیں اور خرابی کا بہانہ بنا کر گھنٹوں انہیں ویرانوں میں کھڑا رکھا جاتا۔ ان سب سے تنگ آ کر مسافروں نے بسوں کا سفر اختیار کرنا شروع کیا۔

یوں دیکھتے دیکھتے ریلوے شدید مالی خسارے میں چلا گیا۔ ٹریک بند ہونے لگے اور اسٹیشنز کی حالت ابتر ہونے لگی۔ ریلوے ملازمین شدید مالی پریشانیوں سے دوچار ہونے لگے لیکن کہیں سنوائی نا ہوئی۔

واحد ٹرین جو سالوں سے سمہ سٹہ تا امروکہ ان پٹریوں سے گزر رہی تھی، 26 جولائی 2011 کو بند کر دی گئی اور بہاول پور سے آگے یہ سب اسٹیشن ویران ہو گئے۔ ضلع بہاول نگر کی مانگ اجڑ گئی۔۔۔۔۔

بدقسمتی سے ایسا شاندار ریلوے جنکشن اور یہ پورا ٹریک کرپشن کا شکار ہو گیا۔
سمہ سٹہ سے بھاولنگرتک کا ٹریک اہم دفاعی ٹریک ہے ۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button