بلاگتازہ ترینخبریں

عام انتخابات میں پی ٹی آئی اور بلے کا نشان ہو گا یا نہیں؟

نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے بیان نے نئی بحث چھیڑ دی ہے، جس میں انھوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور ان کے رہنماؤں کے بغیر منصفانہ انتخابات ممکن ہیں۔

انوار الحق کاکڑ نے اس بات کا بھی اشارہ دیا کہ تحریک انصاف کے ایسے کارکنان جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں وہ الیکشن میں حصہ لے سکیں گے‘۔

نگراں وزیر اعظم کے چیئرمین پی ٹی آئی کے بغیر عام انتخابات کے مؤقف کو غیر آئینی قرار دیا جارہا ہے کیونکہ اگر چیئرمین پی ٹی آئی کے بغیر انتخابات ہوتے ہیں تو شاید عوام قبول نہ کرے اور ہوسکتا ہے اس کے نتائج تباہ کن ہوں۔

اگر پی ٹی آئی کو انتخابی عمل سے دور کیا گیا تو پورے انتخابی نظام کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے اور اس سے پیدا ہونے والا سیاسی عدم استحکام سرمایہ کاروں کے اعتماد پر گہرا اثر ڈالے گا، جس سے معاشی استحکام کو نقصان پہنچے گا، اور یہ صورتحال پاکستان کو معاشی مشکلات میں دھکیل سکتی ہے۔

نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے دعوے کے برعکس نگراں حکومت اور پی ڈی ایم کے کئے گئے اقدامات پر عام ووٹرز کا جھکاؤ چیئرمین پی ٹی آئی کی طرف زیادہ نظر آتا ہے۔ اس کا اندازہ سامنے آنے والی دو سروے رپورٹس سے لگایا جاسکتا ہے، جس میں تحریک انصاف کی انتخابی پوزیشن کو بہتر قرار دیا گیا ہے۔

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھی مطالبہ کیا کہ نگراں حکومت قبل از انتخابات سیاسی انتقام کا سلسلہ بند کرے کیونکہ عدالت نے تمام مقدمات میں قید لوگوں کو ابھی مجرم ثابت نہیں کیا۔

بڑے سوالات
نگراں وزیراعظم کے بیان کے بعد کئی سوالات اٹھ گئے ہیں کہ آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی اور بلے کا نشان ہوگا یا نہیں؟ کیا الیکشن سے پی ٹی آئی کو مائنس کرنے کی تیاری ہے؟ کیا پی ٹی آئی کے بغیر شفاف انتخابات ممکن ہوسکیں گے؟

بلے کا نشان
پاکستان تحریک انصاف کا شمار پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں میں ہوتا ہے تاہم نو مئی کو چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کے بعد ہونے والے واقعات میں سرکاری اور عسکری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔

9 مئی کے واقعات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کیخلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن ہوا، جس میں متعدد رہنماؤں اور کارکنان کی گرفتاریاں ہوئیں۔ جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کی اکثریت پارٹی یا عہدہ چھوڑ چکی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی سمیت متعدد رہنما جیل میں ہیں اور ایک بڑی تعداد روپوش ہے جبکہ رہنماؤں کی رہائی کے بعد دوبارہ گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

ایسی صورتحال میں الیکشن میں پی ٹی آئی اور ’بلے کا نشان‘ مائنس ہونے کا امکان زیادہ ہے۔

کیا واوڈا کی پیش گوئیاں کسی قابل ہیں؟
سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا بھی پیش گوئی کرچکے ہیں کہ بیلٹ پر پی ٹی آئی نظر نہیں آرہی اور ٹکٹ لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔ فیصل واوڈا نے چیئرمین پی ٹی آئی کے حوالے سے بھی پیش گوئی کی تھی کہ چیئرمین پی ٹی آئی سال سے پہلے جیل سے باہر نکلتے ہوئے نظرنہیں آرہے۔

اگر فیصل واوڈا کی پیش گوئیاں درست ثابت ہوئیں تو آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے لئے راستہ صاف ملے گا کیونکہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف کارروائیوں کی بڑی وجہ ان کی بڑھتی مقبولیت ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی کی مقبولیت میں پی ڈی ایم حکومت کی گورننس اور بڑھتی مہنگائی کا بڑا کردار رہا ہے جس کی وجہ سے عوام چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہے۔

عوامی مقبولیت کے حوالے سے مسلم لیگ ن کی کمزور پوزیشن دکھائی دیتی ہے۔ 16 ماہ سے زائد حکومت میں رہنے کے بعد انہیں معیشت کو سنبھالنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جس نے ملک کو مالیاتی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔

اس کے باوجود وہ عوام پر بجلی بلوں میں ٹیکسز اور پیٹرولیم مصنوعات کی مد میں بھاری بوجھ ڈالتے ہوئے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کا رونا روتی رہی۔ ان کی معاشی پالیسیوں کے نتائج افراط زر، بڑھتی ہوئی قیمتوں، ڈالر کی شرح تبادلہ میں تیزی سے اضافے کی صورت میں سامنے آئے، ان تمام چیزوں نے عوام کے لئے ضروری اشیاء کی خرید کو ناقابل برداشت بنا دیا ہے، غریب، متوسط ​​طبقے اور یہاں تک کہ اعلیٰ متوسط ​​طبقہ متاثر ہوا جس کی وجہ سے عوام میں بڑے پیمانے پر مایوسی اور عدم اطمینان ہے۔

نواز شریف اور چیئرمین پی ٹی آئی کا موازنہ
ماضی میں سال 2018 میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کے بغیر انتخابات ہوئے تھے، جس میں مسلم لیگ ن نے حصہ لیا تھا۔

تاہم پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی 116 سیٹیں لے کر پاکستان مسلم لیگ ن کو 64 نشستوں پر محدود کیا اور پاکستان تحریک انصاف وفاق خیبر اور پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی اور پانامہ کیس میں نواز شریف کی نااہلی مسلم لیگ ن کی ہار کی وجہ بنی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سال 2018 کی طرح اگر سال 2024 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف چیئرمین پی ٹی آئی کے بغیر میدان میں اتری تو کیا کامیابی حاصل کرسکے گی۔

پاکستان تحریک انصاف کو مشکلات کے باوجود عوامی حمایت حاصل ہے، پی ٹی آئی کا ووٹ بینک بنیادی طور پر نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو پاکستان کی آبادی کا تقریباً 50 فیصد ہیں اور حالیہ دنوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی پی ٹی آئی میدان مار چکی ہے۔

اس کے برعکس مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو نیب کے مقدمات دوبارہ کھلنے کے بعد نئی مشکل کا سامنا ہے، اب دیکھنا ہوگا انتخابات میں 16 ماہ ملک پر حمکرانی کرنے والی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کس حد تک ووٹرز کی حمایت حاصل سکیں گی اور کیا نواز شریف کی واپسی مہنگائی سے پریشان عوام کو مائل کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جنوری کے آخری ہفتے میں عام انتخابات کا اعلان تو کردیا گیا ہے تاہم ابھی تک حتمی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا، اگر جنوری کے ہفتے میں انتخابات ہوجاتے ہیں اور پی ٹی آئی حصہ لیتی ہے تو موجودہ صورتحال میں قومی امکان ہے پی ٹی آئی میدان مار لے تاہم ہمارے ملک کا المیہ رہا ہے کہ انتخابات میں تنائج کا فیصلہ پہلے ہی کرلیا جاتا ہے کہ کونسی پارٹی جیتے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button