Ahmad NaveedColumn

میری بوتل کہاں ہے؟

 

احمد نوید
دولت کما کر عزت حاصل کرو نہ کہ ذلت۔
انسان کا درجہ اس قدر بلند ہے کہ اسے بدتمیز ہونا زیب نہیں دیتا۔
زندگی میں مشکل ترین وقت آپ کے ظرف کا امتحان ہے۔ جب لوگ اپنی اوقات دکھاتے ہیں۔
علم کے ساتھ عمل اور دولت کے ساتھ شرافت نہ ہو تو دونوں بیکار ہیں۔
ہر شخص کی پہچان علم سے نہیں ہوتی بلکہ ادب سے ہوتی ہے۔
پیغمبروں کی میراث علم ہے اور فرعون و قارون کی میراث مال۔
یہ اقوال بہت اہم ہیں، خاص طور پر اس وقت جب اچانک سے کوئی پوچھے کہ میری بوتل کہاں ہے۔
میری بوتل کہاں ہے ؟ اس سول کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ انسان بنیادی طور پر اپنی پیدائش کے وقت اچھا پیدا ہوتا ہے یا برا۔ صدیوں سے فلسفیوں کی طرف سے اس سوال پر بحث کی گئی ہے۔ ارسطو نے یہ دلیل دی تھی کہ اخلاقیات سیکھی جاتی ہیں، اور یہ کہ ہم اخلاقی مخلوق کے طور پر پیدا ہوتے ہیں۔ جبکہ سگمنڈ فرائیڈ نے نوزائیدہ بچوں کو اخلاق کی خالی سلیٹ قرار دیا اور کہا کہ اس پر جو لکھنا ہے لکھ لیں ۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم آرٹسٹ بن جاتے ہیں۔ ہم ڈاکٹر بن جاتے ہیں۔ ہم انجینئر بن جاتے ہیں۔ ہم آرکیٹکٹ بن جاتے ہیں۔ ہم فنکار بن جاتے ہیں۔ لیکن ہم اچھے انسان نہیں بن پاتے ۔
راحت فتح علی خان صاحب کی طرف سے جو تشدد ان کے ملازم پر کیا گیا۔ اس سے کیا ہمیں یہ اندازہ لگا لینا چاہیے کہ شاید وہ اچھے فنکار تو ہیں لیکن اچھے انسان نہیں ہیں اور اگر کوئی انسان اچھا انسان نہ ہو تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے شعبے سے اپنے پروفیشن سے انصاف کر سکتا ہے۔
انسان فرشتے نہیں ہو سکتے لیکن انسان فرشتوں سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ جب ان کے دل میں رحم دلی پیدا ہو جائے۔ رحم دلی کا جذبہ اللہ تعالیٰ کی ایک انمول نعمت ہے۔ جس انسان کے دل میں رحم دلی ہے۔ وہ ایک اچھا انسان ہے۔ اخلاقی طور پر اچھا انسان ہی مکمل انسان ہوتا ہے۔ انسان کا درجہ اس قدر بلند ہے کہ اسے بدتمیز ہونا زیب نہیں دیتا تو پھر وحشی ہونا کیسے زیب دے گا۔ انسان ایک بوتل کے لئے وحشی کیسے ہو سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو یہ بات بہت عجیب اور تکلیف دے لگے کہ وہ مالکان یا وہ خواتین اور حضرات جو اپنے ملازموں پر تشدد کرتے ہیں۔ یا مارپیٹ کرتے ہیں۔ یا انہیں جسمانی تکلیفوں سے دوچار کرتے ہیں۔ شاید انہیں کہیں نہ کہیں سائیکالوجسٹ کی یا ماہر نفسیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ راحت فتح علی خان کے اس واقعے سے قبل جج صاحب کی اہلیہ کا جو واقعہ سامنے آیا تھا۔ وہ واقعہ بھی اس بات کا ثبوت تھا کہ محترم جج صاحب کی اہلیہ کسی نفسیاتی مرض سے دوچار ہیں۔
یہاں تھوکنا منع ہے۔ دیواروں پر لکھنا منع ہے۔ برائے مہربانی سگریٹ نوشی مت کریں۔ یہ اور اس جیسے دوسرے وہ اخلاقی بنیادی تقاضے، جنہیں سمجھنے کے لیے بہت زیادہ عقل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہم ان بنیادی تقاضوں کو بھی پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ مارپیٹ تو پھر بہت آگے کی بات ہے۔ اس لئے کردار یا انسان کی نفسیات اور شخصیت میں اہم ترین چیز اس کا کردار ہے۔ محبت اور ہمدردی کو اگر ہم اپنے کردار کا حصہ بنائیں گے تو ہم خوبصورت شخصیت کے مالک بنیں گے۔ اخلاقیات زندگی سے جڑی ہوئی چیز ہیں۔ زندگی بغیر اخلاقیات بے معنی اور اپنی بدترین شکل میں ہے۔ حیات خود نہیں بنتی بنائی جاتی ہے، چراغ خود نہیں جلتے جلائے جاتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ خوبصورتی حسن میں نہیں بلکہ اچھے اخلاق میں ہوتی ہے۔ اسی بات کی ترجمانی کرتے ہوئے برٹش ایشین ٹرسٹ نے راحت فتح علی خان کی تشدد والی ویڈیو دیکھ کر ان سے اپنی وابستگی ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ برٹش ایشین ٹرسٹ نے کہا کہ حالات کچھ بھی ہوں، کسی بھی قسم کا تشدد ناقابل برداشت ہے اور برٹش ایشین ٹرسٹ بدسلوکی کے سخت خلاف ہے۔
ایشین برٹش ٹرسٹ کی بنیاد کنگ چارلس نے رکھی تھی اور انہوں نے 2017میں ٹرسٹ کے عشائیے میں راحت فتح علی خان کو برٹش ایشین ٹرسٹ کا سفیر مقرر کیا تھا۔ مگر 27جنوری کی رات گلوکار راحت فتح علی خان کی جانب سے اپنے ملازم نوید حسنین کی پٹائی کرنیکی ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں راحت فتح علی خان ملازم سے بوتل کا پوچھتے رہے۔ اس حوالے سے بعد میں ملازم کا بیان بھی سامنے آیا تھا۔ جس میں نوید حسنین کا کہنا تھا کہ راحت فتح علی خان میرے استاد ہیں، جو بھی چل رہا ہے۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ وہ ہمارے مرشد ہیں۔ ہمیں مار سکتے ہیں اور ڈانٹ بھی سکتے ہیں۔ یہ بیان بعد میں ملازم سے دلوایا گیا، اس کا اندازہ سبھی لگا سکتے ہیں۔
انسان بنیادی طور پر مہربان، سمجھدار، نیک اور خدائی فطرت پر زندہ ہے ؟ اگر ایسا ہے تو اسی انسان کے نیچے، برا، وحشی ، انتقام پسند، ظالم اور خود غرض انسان کیوں بستا ہے ؟ جواب دینا مشکل ہے۔ کیونکہ دونوں افراد کے درمیان واضح طور پر بہت زیادہ فرق ہے۔
ایک کو بوتل نہ ملے تو وہ مارنے پیٹنے پر اتر آتا ہے۔ دوسرا درگزر کر دیتا ہے۔ یہ سوال ہمارا خود سے پوچھنا ضروری ہے کہ ہم اقلیتوں اور کمزوروں کو اپنے سے کم تر کیوں سمجھتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ ہم لوگ اخلاقی منافقت سے بھرے ہوئے ہیں۔ اکثر ہم دوسروں کی اخلاقی خرابیوں کی مذمت کرنے میں سب سے اوپر اور پہلے نمبر پر ہوتے ہیں، لیکن اپنی غلطیوں اور اخلاقی منافقت کے بارے میں ہم خود سے سوال نہیں کرتے۔ یہ سوال راحت فتح علی خان کے ساتھ ساتھ ہم سب کو خود سے کرنا ہے۔ ہمیں اپنی بوتلیں ڈھونڈنے کے بجائے اپنے اخلاق تلاش کرنا ہونگے ورنہ کسی دن بوتل کے ساتھ ساتھ ہم خود بھی گم ہو جائیں گے۔
وفا اخلاص قربانی محبت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم
پڑی رہنے دو انسانوں کی لاشیں
زمیں کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم
یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کار مسیحا کیوں کریں ہم

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button