ColumnFayyaz Malik

عزم و ہمت کی آواز، حمزہ شہباز

 

فیاض ملک
انتخابات کا طبل بج چکا ہے، پنجاب سمیت ملک بھر میں سیاسی سرگرمیاں اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں، روزانہ کی بنیاد پر ملک کے طول و عرض میں ہونے والے سیاسی جلسے جلوسوں میں امیدوار اپنے مخالفین پر تاک تاک کر تنقید کے تیر برسا رہے ہیں، عوام کی فلاح کیلئے ہم یہ کر دیں گے، ہم وہ کر دیں گے، کے بلند و بانگ دعوئوں کی گونج اپنے پورے عروج پر سنائی دے رہی ہیں، اسی الیکشن کی سرگرمیوں کو دیکھنے کا اتفاق گزشتہ دنوں اندرون لاہور کے حلقہ این اے 118میں ہوا، یہ حلقہ داتا نگر، لوہاری گیٹ، موچی گیٹ، بھاری گیٹ، شیرانوالہ گیٹ، بادامی باغ، گوالمنڈی اور گڑھی شاہو کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس حلقے کی کل آبادی 9لاکھ 50ہزار افراد پر مشتمل ہے جبکہ رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد سات لاکھ 50ہزار سے زائد ہے جس میں مرد ووٹرز کی کی تعداد 4لاکھ 6ہزار جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد تین لاکھ 44ہزار سے زائد ہے۔ اس حلقے کو پاکستان مسلم لیگ ( ن) کا گڑھ کہا جاتا ہے، یہاں سے سابق وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم رہنے والے میاں شہباز کی یقینی جیت ہوتی رہی ہے، سیاسی پس منظر پر نظر ڈالی جائے تو 2018ء میں یہاں پولنگ سٹیشن کی تعداد 1047جبکہ ووٹرز کی تعداد 5لاکھ 33ہزار 497تھی، یہاں پر 2018ء الیکشن میں مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے نعمان قمر اور تحریک لبیک کی طرف سے سمیرا نورین مقابلے میں تھے۔ 2013ء میں یہاں سے حمزہ شہباز نے 1لاکھ 7ہزار 7سو ووٹ لئے تھے۔ ان کے مقابلے میں محمد مدنی پی ٹی آئی کے جنہوں نے 40ہزار سے زائد ووٹ لئے اور یوں 66ہزار 9سو ووٹوں کی لیڈ سے جیتے تھے۔ 2008ء میں میں بھی حمزہ شہباز ہی بلا مقابلہ منتخب ہوئے تھے۔ 2002ء کے اندر بھی خواجہ سعد رفیق یہاں سے مسلم لیگ ن کی طرف سے 22 ہزار کی ووٹوں کی لیڈ سے جیتے تھے۔ تاہم اگر ہم 2002ء کی نسبت 2013ء کے اندر ٹرن آئوٹ دیکھیں تو ڈبل رہا۔ 2018ء میں حمزہ شہباز قومی اور صوبائی دونوں حلقوں سے65ہزار اور 30ہزار کی لیڈ سے جیتے تھے۔ اسی طرح باپ کے بعد بیٹے حمزہ شہباز نے بھی2008ء اور2013 ء کے ساتھ2018 ء کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی اور رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوکر اپنی خاندانی روایت کو نا صرف برقرار رکھا، بلکہ ان کو گزشتہ ادوار کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کرنے اور پارٹی میں کارکنوں سے مسلسل رابطہ رکھنے والے سیاسی رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ حمزہ شہباز اگر خود مختلف انتخابی معرکوں میں کامیاب ہوتے آئے ہیں تو اس کے پس پشت وہ انتخابی ماحول بھی قرار دیا جا سکتا ہے جس میں مسلم لیگ ن کو مجموعی طور پر بڑی کامیابیاں ملیں۔ حمزہ شہباز کی سیاسی و انتظامی مہارت اصل میں ضمنی انتخابات میں کھل کر سامنے آئی۔ اپنی اور مخالف حکومتوں کے دوران کئی مشکل ضمنی انتخابات کی ذمہ داری انھیں سونپی گئی۔ ایسی ذمہ داریاں انہوں نے خوش دلی سے قبول کیں اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ اگر دیکھا جائے تو ضمنی انتخابات میں سب سے نمایاں وہ انتخابی معرکہ وہ تھا جوکہ2018ء میں جب صوبے اور مرکز دونوں میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی، جس میں اس نشست سے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو ضمنی انتخاب لڑایا گیا، یہ ایک مشکل ضمنی انتخاب تھا کیوں کہ ضمنی انتخاب میں عام طور وقت کی حکومت ہی کو کامیابی ملتی ہے۔ حمزہ نے یہ مشکل چیلنج قبول کیا اور نمایاں فرق کے ساتھ اس میں شاہد خاقان عباسی کو کامیابی ہوئی، اب 8فروری کو ایک بار پھر الیکشن کا میدان سجے گا جس میں اس حلقے سے سابق روایات کو دیکھتے ہوئے میاں حمزہ شہباز کی کامیابی یقینی نظر آرہی ہے تاہم حتمی فیصلہ پولنگ نتائج کے بعد ہی سامنے آئے گا ، حمزہ شہباز کون ہیں اور کیا ہیں، یہ سوال بے معنی ہے، وہ جو کچھ بنے کیسے بنے؟، عزم و ہمت کی آواز حمزہ شہباز 6ستمبر 1974ء کو لاہور میں پیدا ہوئے، گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن اور لندن سے ایل ایل بی کیا، سیاست میں آئے تو حکومتی ایوانوں میں پہنچنے سے پہلے صرف 19برس کی عمر میں پہلی مرتبہ جیل گئے، جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء میں نواز شریف خاندان کو جلاوطن کیا گیا تو ان کو شریف فیملی کے ضامن کے طور پر پاکستان میں ہی رکھا گیا، جہاں قید و بند اور یرغمال بنانے کے عوامل نے ان کی خوب سیاسی تربیت کی، یہ شریف خاندان میں وہ پہلے اور واحد شخص ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ جیلیں کاٹیں اور سب سے زیادہ قربانی دی، یہی تجربہ ہے جس نے حمزہ شہباز کی سیاسی جڑیں گہری کیں، انکے تعلقات میں وسعت پیدا کی اور ان کی قائدانہ صلاحیتیوں کو جلا بخشی، سیاسی اسرار و رموز سے آگاہی میں جہاں ان کے والد کا ذکر آئے گا وہی ان سے بڑھ کر میاں نواز شریف کا نام آئے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی معاملات میں وہ والد سے زیادہ اپنے تایا کے قریب رہے اور میاں نواز شریف نے بھی ان کی سیاسی تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ یہ بھی ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ تایا کی تربیت میں رہنے کے باوجود مزاج کے اعتبار سے وہ اپنے والد کے نقش قدم پر چلے اور ان ہی کی طرح ایک بڑے منتظم کے طور پر ابھرے، لیکن تقریر کا معاملہ ایسا ہے جس میں وہ مکمل طور پر اپنے تایا پر گئے ہیں۔ انہیں تقریر کرتے ہوئے دیکھیں تو اپنی حرکات و سکنات میں وہ میاں نواز شریف کی پیروی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر میاں نواز شریف کی جوانی کی تقریریں یاد آجاتی ہیں۔ حمزہ شہباز کی یہ مہارت اپنے دو بڑوں یعنی اپنے تایا اور والد، دونوں کی طرز سیاست کی دین ہے، انتظامی مہارت اور کارکردگی تو والد کی طرف سے انہیں ملی تھی، تایا کی تربیت سے انہیں پارلیمانی سیاست اور اپنے پرائے سب کو ساتھ لیکر چلنے کی مہارت بھی میسر آگئی، اس طرح وہ شریف خاندان کی سیاست کے ایک اچھے اور لائق جانشین کے طور پر ابھرے۔2018 ء میں قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ کر صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنے، اس دوران وہ2019 ء میں ایک سال 8ماہ 13روز نیب کی قید میں بھی رہے، جس کے بعد 30اپریل 2022ء کو پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے پنجاب کا اقتدار سنبھالا تھا اور عوامی خدمت کیلئے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دن رات محنت کی، ان کے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب عوامی فلاح و بہبود کے حوالے سے کئے جانی والے اقدامات اور ترقیاتی منصوبوں میں ان کے والد کی جھلک نمایاں نظر آرہی ہے، صوبے بھر کے تمام بڑے، چھوٹے ہسپتالوں میں شہریوں کو ہر قسم کے مفت علاج و معالجہ کی سہولت کی فراہمی بھی ان کا ایک اہم اقدام تھا، یہی نہیں پولیس اور بیوروکریسی کو حقیقی معنوں عوام کا تابعدار بنانے کیلئے کئے جانے والے اقدامات کو شہری آج بھی یاد کرتے ہیں، کار سرکار و سیاست میں میاں شہباز شریف نے جس شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا، اسی طرح حمزہ شہباز نے پورے اعتماد اور جذبے کے ساتھ اسے آگے بڑھایا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اب 8فروری کو ہونی والے انتخابات میں ایک بڑی سیاسی جنگ پنجاب میں لڑی جانی ہے، یہ ہی سیاسی جنگ مستقبل کی حکمرانی کے نظام کا تعین بھی کرے گی، لیکن یہاں یہ بات بھی درست ہے کہ گزشتہ چند سال میں روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عام عوام کے ساتھ ساتھ صاحب حیثیت افراد کی بھی قوت خرید کو بری طرح متاثر کیا ہے، مہنگائی کی وجہ سے روزمرہ اشیاء کی قیمتیں عام آدمی کی قوت خرید کی پہنچ سے دور ہوگئی ، پٹرول، ڈیزل، بجلی، گیس سمیت روزمرہ سے جڑے معاملات میں واقعی لوگ پریشان ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تبدیلی کا حقیقی ایجنڈا کہاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہنگائی کے ہاتھوں ستایا ہوا محنت کش طبقہ ایک بار پھر میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو یاد کر رہا ہے، تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ وہی ملک ترقی کرتا ہے جس کے عوام خوشحال ہوں، عوام کی خوشحالی کے بغیر ترقی کا تصور ایسے ہی ہے جیسے بلی کو چھیچھڑوں کے خواب، کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ ملک ترقی کرے گا تو ہی عوام خوشحال ہوں گے، لیکن درحقیقت ترقی کا اصل راز یہی ہے کہ سب سے پہلے عوام کو خوشحال بنایا جائے تاکہ وہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی فکر سے آزاد ہو سکیں اور اپنی پریشانیوں و مشکلات سے نکل کر بہتر انداز میں ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں،8فروری کو ہونے والے انتخابات میں جیت کا تاج پہن کر آنے والی نئی حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہی ہوگا کہ وہ کس طرح عوام کو بنیادی ضروریات حاصل کرنے کی فکر سے آزاد کرے گی، ملکی سلامتی، بھائی چارے کے فروغ، غربت کے خاتمہ، کو رونا سے پیدا شدہ معاشی و اقتصادی بحران، مہنگائی کے خاتمہ اور عام آدمی کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی خاطر متحد ہو کر کام کریں اور مثبت سیاسی نظریے کو فروغ دیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button