Editorial

پاکستان، ایران میں دہشتگردی سے مشترکہ طور پر نمٹنے سمیت دیگر معاملات پر اتفاق

پاکستان اپنے قیام کے ساتھ ہی دشمنوں کی آنکھوں میں بُری طرح کھٹکتا چلا آرہا ہے۔ وہ اس کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتے ہیں۔ وطن عزیز کے خلاف ریشہ دوانیاں اُن کا پسندیدہ مشغلہ قرار پاتا ہے۔ وہ مختلف ایڈونچرز کرنے کی تاک میں رہتے ہیں، لیکن اُنہیں ہر بار ہی افواج پاکستان کی جانب سے دندان شکن جواب دیا جاتا ہے۔ ایسے منہ توڑ جواب پر دشمنوں کے ایوان لرز جاتے ہیں۔ پھر یہ کچھ عرصے بعد چھپ کر وطن عزیز کو نقصان پہنچانے کے لیے وار کرتے ہیں۔ پاکستان کے برادر ملکوں کے ساتھ تعلقات کو بھی متاثر کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت اُٹھا نہیں رکھتے۔ پاکستان کے ایران کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں۔ ایران اور دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کو سبوتاژ کرنے کے لیے متواتر سازشیں ہوتی رہتی ہیں۔ گو پچھلے دنوں پاک ایران تعلقات میں تھوڑا بگاڑ پیدا ہوا، سفارتی تعلقات انقطاع کا شکار ہوئے، تاہم پھر چند ہی دنوں میں خارجہ سطح کی ملاقاتوں اور گفت و شنید کے بعد افہام و تفہیم سے ان معاملات کو طے کرلیا گیا اور تعلقات معمول پر آگئے۔ سفرا کی پھر تعیناتی کی گئی۔ ابھی اس بات کو زیادہ وقت نہیں ہوا تھا کہ ہفتے کو ایران کے شہر سراوان میں 9پاکستانی مزدوروں کو انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔ پاکستان نے اس واقعے کی بھرپور مذمت کی اور ایران سے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ ایران کی جانب سے بھی اس معاملے پر دانش مندی کا ثبوت دیا گیا۔ اُن کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اس سلسلے میں گزشتہ روز پاکستان آئے۔ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان تفصیلی ملاقات ہوئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان اور ایران نے بارڈر سیکیورٹی، انسداد دہشت گردی، مشترکہ منڈیوں، فری ٹریڈ زونز کو فعال کرنے پر اتفاق کیا ہے جبکہ ایران نے اعتراف کیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان دہشت گرد کارروائیوں میں تیسرا ملک ملوث ہے، جو دہشت گردوں کی سہولت کاری کر رہا ہے، ایسی صورت حال میں دوطرفہ دانش مندی وقت کا تقاضا ہے، پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ سرحدوں سے گزر گاہوں کی سیکیورٹی ہمارا مشترکہ مشن ہے، دہشت گردوں نے دونوں ممالک کو بہت نقصان پہنچایا، ہمیں مشترکہ طور پر اقدامات کرنا ہوں گے، ملکی سلامتی اور خود مختاری کا احترام اوّلین ترجیح ہے، ہم سرحدوں پر معاشی مواقع پیدا کرنے کے خواہاں ہیں۔ پیر کو وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی سے ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے وزارتِ خارجہ میں ملاقات اور مشترکہ پریس کانفرنس کی، ملاقات میں پاکستان اور ایران کے درمیان دوطرفہ تعاون پر تبادلہ خیال کیا، دونوں ممالک نے دوطرفہ تعلقات میں مثبت پیش رفت کے لیے مضبوط مکالمے اور تعاون کی اہمیت پر زور دیا جب کہ باہمی احترام اور مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اجتماعی نقطہ نظر کی بنیاد پر امن اور خوشحالی کے باہمی مطلوبہ اہداف کو فروغ دینے کے لیے کام کرنے پر اتفاق کیا۔ ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ سے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ ایران اور پاکستان میں مقیم افراد کو ایک ہی قوم سمجھتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور ایران کے مشترکہ سرحدی خطے اور ایرانی و پاکستانی علاقوں میں دہشت گرد موجود ہیں جنہیں تیسرے ملک کی مدد و قیادت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ اہم برادرانہ تعلقات ہیں، پاکستان کی سکیورٹی ہمارے لیے مقدم ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان اور ایران کے مشترکہ سرحدی خطے اور ایرانی اور پاکستانی علاقوں میں دہشت گرد موجود ہیں جنہیں تیسرے ملک کی مدد و قیادت حاصل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور ایران دہشت گردوں کو کوئی موقع نہیں دیں گے، دہشت گردوں نے ایران کو بہت نقصان پہنچایا، بارڈر پر موجود دہشت گرد دونوں ممالک کی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں۔ مذاکرات کے دوران دہشت گردی کے خلاف اقدامات پر گفتگو ہوئی، بارڈر پر موجود تجارتی مراکز کو فعال کرنے پر بھی بات چیت ہوئی۔ دہشت گردوں کو مشترکہ سلامتی کو نقصان پہنچانے نہیں دیں گے، ایران اور پاکستان کے درمیان تعمیری اور مضبوط تعلقات ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ سرحدی بازاروں، سرحدوں سے گزرگاہوں کی سکیورٹی ہمارا مشترکہ مشن ہے، دہشت گردوں نے ایران اور پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا، دونوں ممالک کے مابین جلد وفود کا تبادلہ ہوگا، ہم پاکستان کی سلامتی کو ایران اور خطے کی سلامتی سمجھتے ہیں، دونوں ممالک ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت و خود مختاری کا احترام کرتے ہیں، آج ہم اسلام آباد میں ہیں تاکہ دہشت گردوں کو بھرپور جواب مل سکے، پاکستان اور ایران کی سکیورٹی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، پاکستان اور ایران نے دہشت گردی کے خلاف بہت قربانیاں دی ہیں، بلا شبہ پاکستان اور ایران کی سرحدوں پر موجود دہشت گردوں کی تیسرا ملک پشت پناہی فراہم کر رہا ہے، آج ہم نے بارڈر سکیورٹی، انسداد دہشت گردی، مشترکہ منڈیوں، مشترکہ فری ٹریڈ زونز کو فعال کرنے پر اتفاق کیا ہے، ہم نے اپنے مشترکہ سرحدوں کو تجارت و خوشحالی کی سرحدیں بنانے کا فیصلہ کیا ہے، مشترکہ باہمی تعاون سے ہم دہشت گردوں کے پاکستان و ایران کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے منصوبوں کو ناکام بنائیں گے، جلد ایرانی صدر پاکستان کا دورہ کریں گے، انہوں نے کہا کہ ہم نے زائرین، زیارات اور مذہبی سیاحت کر بڑھانے پر اتفاق کیا ہے، دونوں ممالک کی تشکیل کردہ ہائی لیول کمیٹی ایک اچھا میکنزم ہوگا اور کارگر ثابت ہوگا، دونوں قوموں کے خلاف دہشت گردوں کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے مشترکہ کارروائی کریں گے، مشترکہ تعاون اور سرحدی صوبوں کے درمیان میکنزم موثر ثابت ہوگا۔ اس موقع پر نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ ہمارے درمیان تفصیلی گفتگو ہوئی ہے جو دونوں ممالک کے ایشوز سے متعلق تھی، دونوں ممالک کے مابین باہمی تعلقات اور متعلقہ ایشوز پر بات چیت ہوئی ہے، اس جذبے سے پاکستان اور ایران نے سیاسی اور سکیورٹی کے شعبہ میں تعلقات کو بڑھانے پر اتفاق کیا ہے، دہشت گردی دونوں ممالک کے لئے مشترکہ چیلنج ہے، پاکستان اور ایران مشترکہ میکنزم اور حکمت عملی سے اس ناسور پر قابو پا سکتے ہیں، ایران اور پاکستان دوست ہمسایہ ملک ہیں، ایران سے دیرینہ ثقافتی، مذہبی اور برادرانہ تعلقات ہیں، مضبوط تعلقات دونوں ممالک کی ترقی کے لیے اہم ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ سے ملاقات کے دوران باہمی مفاد کے مختلف امور پر بات چیت ہوئی ۔ مضبوط تعلقات دونوں ممالک کی ترقی کے لیے اہم ہیں،نگران وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ قومی سلامتی اور خود مختاری پر کسی قسم کا حرف نہیں نہ آنے دینے پر اتفاق ہوا ہے، مند پشین بازار اور گبد ٹرانسمیشن لائن دونوں ممالک کے مابین جاری تعاون کی اعلیٰ مثال ہیں، اتفاق ہوا ہے کہ 5دیگر سرحدوں بازاروں پر بھی کام کو تیز کیا جائے گا، ایک ہائی لیول میکنزم تشکیل دینے پر اتفاق ہوا ہے، یہ ہائی لیول میکنزم دونوں ممالک کے مابین مسلسل رابطے کے لیے کام کرے گا۔ایران کے وزیر خارجہ کا دورۂ پاکستان انتہائی اہم تھا۔ دشمن کی تمام تر سازش بُری طرح ناکام ہوگئی۔ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات بہتر ماحول میں ہوئی اور اس میں کیے گئے فیصلوں کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مزید مضبوطی اختیار کریں گے۔ پاک ایران کے تعلقات کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کرنے والی طاقت کو دونوں ملکوں کو مل کر منہ توڑ جواب دینا چاہیے۔

غلط معلومات پھیلانے میں بھارت کا اوّل نمبر
عرصہ دراز سے بھارت جھوٹے پروپیگنڈوں، من گھڑت باتوں کو پیدا کرنے اور انہیں پھیلانے کے حوالے سے خاصا بدنام ہے۔ اس کا میڈیا بھی جھوٹ کا پلندہ قرار پاتا ہے، جس پر آنے والی خبریں سراسر بے بنیاد اور افواہوں پر مشتمل ہوتی ہیں، اطلاعات کی تصدیق کیے بغیر انہیں پے درپے میڈیا نشر کرکے جھوٹ کو پھیلانے میں اپنا حصّہ ڈالتا ہے، بھارتی حکومتیں بھی جھوٹ کو بڑھاوا دینے اور سچ کو چھپانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ ماضی میں کئی بار اُن کے ڈھول کا پول دُنیا بھر کے سامنے کُھل چکا ہے۔ پچھلے برسوں بھارت کی بہت بڑی ڈس انفولیب کا پردہ بھی فاش ہوا تھا، جس کا کام دُنیا کے دوسرے ممالک سے متعلق بے بنیاد اطلاعات کو پھیلانا تھا۔ دُنیا کو شر کا شکار کرنا تھا۔ دوسرے ممالک میں بھارت کی دہشت گردی کا نیٹ ورک بھی پکڑا گیا تھا۔ بھارت تو وہ دیس ہے کہ جہاں جھوٹ کو پھیلا کر خود کو معصوم بنا کر پیش کرکے رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کیا جاتا ہے۔ مودی سرکار پچھلے دس سال سے اسی طرز عمل پر چل رہی ہے۔ پچھلے انتخابات میں کامیابی بھی اسی پروپیگنڈے کے سہارے اسے ملی تھی۔ بھارت میں کئی عشروں سے سیاسی جماعتیں انتخابی نتائج اپنے حق میں کرنے کے لیے جھوٹ کا بھرپور سہارا لیتی رہی ہیں، جیسے گزشتہ انتخابات میں مودی سرکار نے پلوامہ ڈرامہ رچاکر لیا تھا اور بعد میں اس کا پردہ بُری طرح فاش ہوا تھا۔ یہی سبب ہے کہ گمراہ کن اطلاعات کو بڑھاوا دینے کے لحاظ سے دُنیا میں بھارت اوّل نمبر پر آیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق غلط اور گمراہ کن معلومات کی تشہیر میں بھارت دُنیا بھر میں پہلے نمبر پر آگیا۔ بھارتی ٹی وی کے مطابق بھارت کے عام انتخابات سے قبل منظرعام پر آنے والی رپورٹ میں مودی سرکار کے انتخابات کو بھارت میں پروپیگنڈے اور جھوٹے بیانیے پر مبنی غلط معلومات پھیلانے کے لیے ایک اہم ذریعہ قرار دیا گیا۔ بھارت میں سماجی خلیج اور پولرائزیشن بڑھنے کا خطرہ ہے۔ مبصرین کے مطابق مودی حکومت ہی نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی وقتی سیاسی فائدے اور انتخابات میں کامیابی کے لیے بڑے پیمانے پر مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن ( غلط اور گمراہ کن معلومات) کا غیر معمولی استعمال کر رہی ہیں۔ رپورٹ میں غلط اور گمراہ کن معلومات کو بھارت کے لیے آئندہ 10برس تک سب سے بڑا خطرہ تسلیم کیا گیا۔ جھوٹ کبھی سچ نہیں بن سکتا اور سچ کو کبھی کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ جھوٹ کے ذریعے وقتی فوائد تو سمیٹ لیے جاتے ہیں، ان کے دیرپا اثرات نہیں ہوتے۔ بھارتی عوام کو اب اس جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈوں کے سلسلے اور گمراہ کُن معلومات کی تشہیر کے خلاف اپنی آواز بلند کرنی چاہیے۔ دوسری جانب دُنیا کو بھارت کے اس مذموم طرز عمل پر اس کے خلاف سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے کہ وہ جھوٹ سے تائب ہوسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button