CM RizwanColumn

متحارب قائدین نفرت، محبت کے دوراہے پر

 

سی ایم رضوان
دونوں سابق اور موجودہ مدمقابل امیدواران برائے وزارت عظمیٰ بانی پی ٹی آئی اور محمد نواز شریف پاکستانی سیاست کے دو ایسے سیاسی قائدین ہیں جن کے سیاسی کیرئیر میں متعدد مماثلتوں کے باوجود دونوں کے مابین اس وقت بدترین باہمی سیاسی رقابت بھی چل رہی ہے اور یہاں تک کہ آٹھ فروری 2024ء کے انتخابات میں دونوں کی سیاسی ترجیحات اور ضروریات بھی یکساں ہو چکی ہیں۔ دونوں اس وقت عوامی اکثریت کی نفرت اور محبت کی بناء مسترد یا منتخب ہونے کے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ پچھلے انتخابات 2018ء میں نواز شریف جیل میں تھے اور ان کے سابقہ اور موجودہ نمبر ون مدمقابل دھرنوں پر گرج چمک رہے تھے جبکہ موجودہ انتخابات میں نواز شریف آزاد ہیں اور ان کا مدمقابل جیل میں ہے۔ سابقہ ادوار میں سیاسی بلندی کی انتہائوں کو چھونے والے ان دونوں سیاستدانوں کی سب سے بڑی مماثلت یہ ہے کہ ان دونوں کی کامیاب سیاست کا آغاز اسٹیبلشمنٹ کا مرہون منت ہے اور پچھلے دس سالوں کے پاکستانی سیاست کے ملتے جلتے واقعات کے بعد یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ دونوں کو اقتدار کے ایوانوں میں رہتے ہوئے پیش آنے والی مبینہ مشکلات کا باعث بھی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کی تبدیلیاں ہی بنی ہیں۔ 2014ء میں بانی پی ٹی آئی کی طرف سے اپنے سیاسی حریف نواز شریف کے خلاف احتجاجی تحریک سے کچھ عرصہ پہلے تک عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں یہ عمومی تاثر پایا جاتا تھا کہ ان میں بانی پی ٹی آئی کے لئے نرم گوشہ پایا جاتا تھا۔ اس وقت سے چند سال بعد تک کے عرصے میں متعدد عدالتی فیصلے اور اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیاں ان کی حامی و مدد گار رہیں تاکہ وہ اپنے سیاسی اہداف کو حاصل کر سکیں۔ پھر ہوا بھی یہی کہ ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت بھی بن گئی اور بعدازاں بانی پی ٹی آئی اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے بعض بیانات اور اعترافات نے یہ ثابت بھی کر دیا کہ اس حکومت کے قیام اور چلن کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کی مہربانیاں کافی حد تک کار فرما تھیں لیکن ان مہربانیوں کو بانی پی ٹی آئی کی نادانیوں نے جلد ہی رویہ بدلنے پر مجبور کر دیا تھا۔ حکومت سے نکلنے کے بعد بانی پی ٹی آئی چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تب سے اب تک خود کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ ثابت کرنے کا ڈرامہ کر رہے ہیں جبکہ نواز شریف اس معاملے میں اب نسبتاً باوقار اور سنجیدہ سیاسی رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے واضح طور پر یہ کہہ دیا ہے کہ ان کے دل میں ان کے مخالفین کے لئے ذرا سا بھی انتقام کا جذبہ نہیں ہے۔ جبکہ ان کے مدمقابل نے اپنی مرکز کی حکومت کے خاتمے کے پیچھے مبینہ غیر ملکی سازش کا پروپیگنڈا کرتے ہوئے انتہائی اقدامات کیے۔ جن کے بعد بانی پی ٹی آئی کے ستارے اب تک بری طرح گردش میں ہیں۔ قوی خدشہ ہے کہ وہ مستقبل قریب میں کسی نہ کسی جرم میں سزا بھی پا لیں گے۔ یہاں تک کہ ان کی طرف سے فوجی حکام کے خلاف نو مئی جیسے جرائم نے تو انہیں سیاستدان کی بجائے ایک تخریب کار بنا دیا ہے۔
یہ درست ہے کہ عمران خان نے اکثر پاکستانیوں کو سکھایا کہ کرکٹ کیسے کھیلنی ہے۔ وہ ایک دور میں کرکٹ کے کھلاڑیوں کو نصیحت کرتے تھے کہ جب آپ دفاعی انداز میں کھیلتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ میچ برابر ہو جائے تو شکست کا قوی امکان ہوتا ہے لیکن جب آپ میچ جیتنے کے لئے جارحانہ انداز میں کھیلتے ہیں تو اس صورت میں آپ ہار بھی جائیں تو آپ بہترین کارکردگی کی اپنی صلاحیت حاصل کریں گے۔ سیاست میں بھی انہوں نے یہی رویہ اختیار کیا اور اسی فلسفے پر چلتے ہوئے پہلے مقبولیت اور اب نامعقولیت کے مقام پر جا گرے ہیں کیونکہ کھیل اور سیاسیات میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیراعظم بانی پی ٹی آئی کے درمیان مماثلتوں کا جائزہ یہ بھی بتاتا ہے کہ دونوں کا پنجابی مڈل کلاس پر مشتمل وسطی پنجاب میں ووٹ بینک ہے۔ یہ ووٹ بینک ہی ان دونوں کو اقتدار میں لانے کا بنیادی عامل بنا تھا۔ دونوں میں یہ بھی قدر مشترک ہے کہ ان کو لانے والے سرپرستوں اور مربیوں نے ہی ان کو داخل دفتر بھی کیا اور دونوں ہی کے اقتدار کے خاتمے سے قبل انہی طاقتوں سے کشمکش بھی دکھائی دی۔
نواز شریف اور اسٹیلشمنٹ کے تعلقات کی دھوپ چھاں حیران کن ہے کہ نواز شریف کا سیاسی سفر بہت سارے نشیب و فراز کا مرکب ہے جس میں وزیراعظم ہائوس سے جدہ جلاوطنی کے بعد دوبارہ وزیر اعظم ہائوس واپسی اور ایک بار پھر جیل یاترا، مالی کرپشن کے مقدمے میں سزا تک کے مراحل آئے ہیں۔ نواز شریف کے سیاسی سفر میں ایک مستقل پہلو فوج کے ساتھ ان کے تعلقات ہیں جو قربت اور رقابت کی انتہائوں کو چھوتے رہے۔ نواز شریف نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز فوج کی حمایت سے کیا تھا لیکن بعد میں ان کا انداز سیاست ایک خود مختار سیاستدان کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ ان کا سیاسی سفر فوج اور انٹیلی جنس نظام کی سرپرستی میں 1980ء میں شروع ہوا تھا۔ بعدازاں ان کی سیاسی زندگی میں آنے والے غیر معمولی پیچ و خم کے سبب وہ ایک مقبول عام سیاسی رہنما کے طور پر ابھرتے گئے جنہوں نے ملک میں حقیقی جمہوریت کے قیام کا مطالبہ اور اصرار کرنا شروع کیا کہ ہر قسم کی بیرونی مداخلت سے پاک سیاسی نظام وجود میں آئے۔ 12اکتوبر 1999ء کی فوجی بغاوت اور اس کے نتیجے میں فوجی قانونی کارروائی کے سامنے اور جنرل مشرف کی طرف سے اپنی حکومت کا تختہ الٹائے جانے سے کہیں پہلے سے نوازشریف کی پاکستانی صدور سے ایک سے زیادہ مواقع پر مڈ بھیڑ اور چپقلش ہو چکی تھی۔ ہر مرتبہ نہ صرف یہ کہ وہ بالآخر بچ گئے بلکہ ان کی سیاسی قوت میں مزید اضافہ ہوا۔ سیاسی قوت میں اس اضافے کی وجہ ان کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ بن گیا۔ 1993ء سے نواز شریف کا حقیقی سیاسی اور مقبول عام رہنما کا تشخص بننا شروع ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب انہوں نے صدر غلام اسحاق خان کو بحیثیت وزیر اعظم چیلنج کیا اور آئین میں ترمیم کے ذریعے صدر کے اختیارات کو کم کرنے کی کوشش کی۔ ردعمل میں صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی حکومت ختم کر دی اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں لیکن اس کے نتیجے میں نواز شریف کی سیاسی قوت میں اضافہ ہو گیا۔ انہوں نے ایک طاقتور صدر کے سامنے سرکشی کی تھی جو اس وقت پاکستانی سیاست میں ایک اجنبی سی بات تھی۔ یہ بھی نواز شریف اور عمران خان کی سیاست میں ایک اور قدر مشترک ہے کہ 1980ء اور 1990ء کے اوائل میں جب نواز شریف خفیہ اداروں کے زیرِ سایہ سیاست کر رہے تھے تو ان کے سیاسی بیانیے کی بنیاد بینظیر بھٹو کو پاکستان کے قومی مفادات کے خلاف کام کرنے کے الزامات کے تحت نشانہ بنانے پر تھی۔ کئی مواقع پر انہوں نے یہاں تک الزام لگایا کہ بینظیر بھٹو انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ یہی حربہ 2018ء میں نواز شریف کے خلاف استعمال ہوا۔ ان انتخابات میں اپنی انتخابی مہم کے دوران بانی پی ٹی آئی نے یہ کارڈ خوب کھیلا۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کو اقتدار سے نکال باہر کرنے کا فیصلہ دیا اور وہ سزا یافتہ قرار پائے تو مشکوک لنکس والے سوشل میڈیا کے سرگرم افراد نے انہیں ملکی مفادات کے خلاف کام کرنے والے شخص کے طور پر پیش کرنا شروع کیا اور ان پر اِن الزامات کی بھرمار کر دی گئی کہ وہ را ( انڈین خفیہ ادارے) کی ایما پر قومی مفادات کے خلاف سرگرم عمل رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر اس خبر کا خوب چرچا رہا کہ پاکستانی خفیہ اداروں نے نواز شریف کی شوگر ملز سے را کے دو ایجنٹوں کو گرفتار کر لیا۔ ان اطلاعات نے پی ٹی آئی کے اِن الزامات کی آگ پر تیل کا کام کیا کہ انہوں نے نیپال میں انڈین وزیراعظم نریندرا مودی سے خفیہ ملاقات کی ہے۔ پھر یہ بھی الزام لگایا گیا کہ پاکستان مسلم لیگ ( ن) نے ختم نبوت کے مسئلے پر سودے بازی کی ہے۔ اسی الزام نے وسطی پنجاب میں مسلم لیگ ( ن) کو14نشستوں سے محروم کر دیا تھا۔ اب دونوں قائدین میں مماثلت یہ ہے کہ دونوں کو کارکردگی یا آئندہ کے انتخابی منشور یا مہم کی بناء پر نہیں عوامی اکثریت کی محبت یا نفرت کی بناء پر کامیابی یا ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہی نقطہ موجودہ انتخابات کا بنیادی نقطہ قرار پایا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ عوام ان سیاست دانوں کے باہمی سیاسی پروپیگنڈوں کا شکار ہوتے ہیں یا کوئی حیران کن تبدیلی لے کر آتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button