Ali HassanColumn

سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور

 

علی حسن
انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کر دیا ہے۔ بہت سارے وعدے کئے گئے ہیں جو ہر انتخابات سے قبل کئے جاتے ہیں لیکن انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد ان پر دوبارہ غور بھی نہیں کیا جاتا ہے۔ ن لیگ نے اپنے منشور میں اعلان کیا ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کئے جائیں گے، ایک کروڑ ملازمتیں فراہم کی جائیں گی، پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کی جائے گی، نیب کو ختم کر دیا جائے گا، عدالتی اصلاحات کی جائیں گی، مہنگائی، بیروزگاری میں کمی کی جائے گی اور اقتصادی شرح نمو 6فیصد سے زائد پر لائی جائیگی۔ منشور کے اعلان کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے نوازشریف کا کہنا تھا کہ ماضی کی زیادتیوں کو فراموش کرکے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے آیا ہوں، اس طرح نہیں کرینگے جس طرح ماضی میں انہوں نے کیا تھا۔ نواز شریف کی صدارت میں پارٹی سیکرٹریٹ ماڈل ٹائون میں تقریب ہوئی جس میں منشور کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی نے 40صفحات پر مشتمل پارٹی منشور پیش کیا۔ مسلم لیگ ( ن) کی جانب سے اپنا انتخابی منشور عوام کے سامنے پیش کرنے کی تقریب میں مسلم لیگ ن کی منشور کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی نے ماڈل ٹائون میں نواز شریف اور شہباز شریف کی موجودگی میں پارٹی منشور کا اعلان کیا۔ سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا منشور کی تشکیل کے لیے 32کمیٹیوں نے دن رات محنت کی، میرے لیے بہت آسان تھا کہ میں 8سے 10صفحے کا منشور لکھ کر کسی لیڈر کو دے دیتا اور کہتا کہ اسے پڑھ دیں یہ منشور ہے لیکن ہم نے اس میں یہ بتایا کہ پچھلی حکومتوں کی کارکردگی کیا رہی اور کس حکومت نے کیا کام کیے۔ ان کا کہنا تھا میں نے احسن اقبال سے کہا کہ ذیلی کمیٹیوں نے اتنے بڑے بڑے مضامین بھیج دئیے ہیں کہ ان پر تو الگ سے کتاب لکھی جانی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا منشور پر موثر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے خصوصی کونسل اور عمل درآمد کونسل قائم کی جائیگی، خصوصی کونسل اور عمل درآمد کونسل حکومتی کارکردگی کی سہ ماہی رپورٹ مرتب کریگی۔ ن لیگ کے منشور میں یہ کمی شدت سے محسوس کی گئی کہ یہ نہیں بتایا گیا کہ ملک پر جو بیرونی قرضے ہیں، ان کی ادائیگی کیسے اور کہاں سے ہوگی۔ منشور میں بعض ایسے بھی وعدے کئے گئے ہیں جن کی تکمیل کے لئے بھی بیرونی قرضوں پر انحصار کیا گیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمان نے 2024ء کے عام انتخابات کیلئے پارٹی کے منشور کا اعلا ن کیا جس میں اجرت پر کام کرنے والوں کی حقیقی آمدن کو دوگنا، غریبوں، بے زمینوں اور محنت کشوں کو رہائشی مکان، بھوک مٹائو پروگرام شروع کرنے، معاشی بہتری، ماحولیاتی استحکام، غربت کا خاتمہ اور خواتین کو بااختیار بنانا شامل ہیں۔ ہفتہ کو سینیٹر شیری رحمان نے یہاں پارٹی آفس میں میڈیا بریفنگ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ منشور خاموش ہے کہ منشور پر عمل در آمد کے لئے سرمایہ کہاں سے آئے گا۔ تحریک انصاف کی جانب سے رہنما گوہر خان نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے انتخابی منشور کا اعلان کیا۔ انتخابی منشور میں اقتدار میں آنے کے بعدtruthاور reconciliation کمیشن بنانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ مستحکم معیشت، برابری کے انصاف کے نظام، صحت، تعلیم اور موسمیاتی تبدیلیوں سے بچائو کی اصلاحات متعارف کروا نے کے لئے وعدہ کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی آئینی ترمیم لائے گی، وزیراعظم کا انتخاب براہ راست عوام کے ووٹوں سے ہوگا اور اسمبلیوں کی مدت 4سال تک محدود کریں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں الیکشن مہم چلانے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے راستے میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں، لیول پلیئنگ فیلڈ تو کیا فیلڈ ہی نہیں دی گئی، ہم سے بلا چھین لیا گیا۔ آج ہمیں منشور پیش کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں تو اندازہ لگائیں کہ صورتحال کیا ہے۔ ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف، منشور کے بعض نکات تو ایسے لگتے ہیں جیسے بس بات کر دی گئی ہے۔ عمل ہو یا نہ ہو، ان کی بلا سے۔
حیدرآباد میں ایک ظہرانے میں ایم کیو ایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے اپنی پارٹی کے اہم نکتے کی طرف توجہ مبذول کرائی ، انہیں نے کہا کہ آئین میں 20ترامیم ہوچکی ہیں۔ ہم تین ترامیم کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کو یہ آئین تحفظ دیتا ہے اسی طرح یہ آئین شہری دیہی اور ضلعی حکومتوں کو بھی تحفظ اور اختیار دے دوسری ترمیم یہ ہے جس طرح وفاق اور صوبے کے محکمے درج ہیں ایسے ہی ضلعی حکومت کے محکمے درج ہوں، تیسری ترمیم یہ کہ جس فارمولے کے تحت وفاق صوبوں کو وسائل دیتا ہے اسی طرح صوبے ضلعی اور شہری حکومتوں کو وسائل دیں۔ جب تک بلدیاتی حکومتیں موجود نہ ہوں آئین لکھ دے کے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے الیکشن نہیں ہونگے بلدیاتی حکومتوں کی مدد پوری ہونے کے بعد نگراں مئیر آئے اور تین ماہ میں انتخابات کرائے یہ اصل جمہوریت ہے اور ایم کیو ایم اسکی جدوجہد کر رہی ہے۔ ان کی بات کونوں کو بھلی تو لگتی ہے لیکن خواب بیچنے کے مترادف ہے۔ آئین میں ترمیم کے لئے دو تہائی اکثریت درکار ہو گی ، اول تو ایم کیو ایم نے ان انتخابات میں ن لیگ سمیت جن سیاسی جماعتوں سے اتحاد کیا ہے، کیا وہ دو تہائی اکثریت حاصل کس سکیں گی۔ ایم کیو ایم کی ترامیم کے لئے پیپلز پارٹی یا دیگر جماعتوں کو کیا غرض کہ ضلعی حکومتوں کا کیا بنتا ہے۔ دیکھنے میں تو یہ ہی آیا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ضلعی حکومت یا بلدیاتی نظام کے استحکام میں دلچسپی ہی نہیں رکھتی ہیں۔ سارے سیاسی رہنما بلدیاتی اداروں کو اپنے انگوٹھوں کے نیچے ہی رکھنا چاہتے ہیں ۔
انتخابات کے موقع پر ہی یہ بحث بھی چھڑ گئے ہے کہ بقول بلاول بھٹو زرداری 1ویں ترمیم سے عوام کو فائدہ ہوا ہے۔ 18 ویں ترمیم ختم کرنے کا مقصد اختیارات اسلام آباد کو دینا ہوگا۔ ایسی حکومت بنانی پڑیگی جو18 ویں ترمیم پر عمل کرے۔ نواز شریف ووٹ کی بے عزتی نہ کریں انتظامیہ کے بجائے اپنے بل پر الیکشن لڑیں، سلیکٹڈ حکومتیں ہمیشہ ناکام ہوئیں، نیا فرشتہ نہ بنائیں نئی سیاست لائیں۔ پاکستان مسلم لیگ ( ن) نے کہا ہے کہ18ویں ترمیم رول بیک نہیں کرینگے بلکہ اس ادھوری ترمیم کو مکمل کرینگے۔ مسلم لیگ ( ن) کے رہنما رانا ثناء اللہ اور احسن اقبال نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ واضح طور پر اعلان کرتے ہیں کہ18ویں ترمیم ختم کرنے بارے ہم کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ 18ویں ترمیم ابھی ادھوری ہے، ہم مرکز سے صوبوں کو جانے والے اختیارات کو بلدیاتی اداروں کے ذریعے نچلی سطح تک لیکر جائینگے۔ ہمارا پلان 18ویں ترمیم کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانا ہے، اوئے، توئے کلچر نے جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، بلاول سمجھتے ہیں ن لیگ پر تنقید سے ووٹ لے سکتے ہیں تو پورا زور لگائیں۔
پاکستان میں ابتداء سے ہی منشور انتخابات کی ایک کاغذی خانہ پری ہی تصور کی گئی ہے۔ اسی وجہ سے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر تنقید تو کرتے ہیں لیکن کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کرتے کہ ان کے دئیے گئے منشور پر کتنا عمل ہوا اور جن نکات پر عمل نہیں ہو سکا ، اس کی کیا وجوہات تھیں اور انہیں آئندہ انتخابات کیوں کر مکمل کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں ذہنی ہم آہنگی ہی نہیں ہے، اسی وجہ سے کسی بھی حکومت کے دئیے گئے پروگرام اور منشور پر عمل ہی نہیں ہو سکا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو خود بھی یقین نہیں ہوتا کہ ان کے حکومت کی مدت کیا ہو گی اور اسی کتنے عرصے تک چلنے دیا جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button