ColumnNasir Naqvi

نورا کشتی کا موسم

ناصر نقوی

ابھی انتخابات کا حتمی چاند دکھائی نہیں دیا کیونکہ ملک کے طول و عرض میں نہ صرف بادل چھائے ہوئے ہیں بلکہ گھن گرج کے ساتھ بارش سے زیادہ ’’ اولے‘‘ پڑنے کے امکانات ہیں۔ اشاروں کی زبان جس جس کو سمجھ آ گئی وہ الیکشن کمیشن کے سربراہ راجہ سکندر سلطان پر نظریں جما کر ہمہ تن گوش ہے کیونکہ آخری فیصلہ تو امپائر کا ہی ہوتا ہے، اسے چیلنج کرنے کی کس میں ہمت ہے یہ بعد کی بات ہے جس طرح رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ کے مشاورتی اور حتمی فیصلے کے بغیر ملک میں عید نہیں ہو سکتی، بالکل اسی طرح سیاسی افق پر چاند کی تصدیق الیکشن کمیشن کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔ لیکن ہم تو بڑے خوش قسمت ہیں ہمیں ’’ حضرت مولانا پوپلزئی‘‘ کی بدولت دو دو عیدیں نصیب ہو جاتی ہیں اسی طرح سیاسی رویت بھی قائم کر کے دو دو الیکشن کی رعایت بھی ڈالنے کی کوشش کی لیکن پارلیمنٹ نے اپنے اختیار سے یہ معاملہ ٹھپ کر دیا، جس کے نتیجے میں نہ ’’ عید‘‘ کی طرح کے پی کے بلکہ پنجاب میں بھی الیکشن ہو سکے اور نہ ہی کسی نے اس روایت کو رواج دینے کی کوشش کی۔ جمہوریت کے علامہ پوپلزئی عارف علوی اور عدلیہ کے مجتہد حضرت عمر عطا بندیال نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا پھر بھی کچھ حاصل نہ ہو سکا لیکن بڑھاپے کا عشق ہمیشہ باعث رسوائی ہوتا ہے لہٰذا اس کا مزہ دونوں نے چکھ لیا۔ جن کی ذمہ داری تھی کہ وہ قومی اور اجتماعی معاملات میں سلجھائو پیدا کریں وہ خواہشات، خوابوں اور اپنی بقراطی خصوصیات میں بہت کچھ ایسا کر گئے کہ مستقبل میں عدالت عظمیٰ کے حوالوں سے انھیں یاد ضرور کیا جائے گا خواہ وہ یادیں منفی ہی کیوں نہ ہوں، معزز چیف صاحب نے اپنی بیگم، ساس اور بچوں کی محبت میں بہت کچھ نیا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ عزت و ذلت مالک کائنات دیتا ہے حضرت انسان تو زبردستی کے ’’ عقلِ کل‘‘ بن کر اکڑے پھر رہے ہیں حالانکہ زندوں کی خصوصیات عجز و انکساری ہے ’’ اکڑ‘‘ تو خالصتاً مردوں کی خاصیت ہے حضرت منصب و مرتبے کے بعد بھی نہیں سمجھے تو ان کا حال بھی دھوبی کے کتے والا ہوا؟ لیکن دندان ساز عبوری صدر مملکت کو پی ٹی آئی نے خط لکھ کر یقین دہانی کرائی کہ جناب اب بھی صدر ہیں۔ آئینی مدت پوری ہو چکی اب آپ کی تمام مراعات محفوظ ہو گئیں لہٰذا اختیارات کا ہتھیار استعمال کریں۔ اس یاددہانی کے بعد وہ کوئی دندان شکن کارروائی تو نہیں کر سکے لیکن انہوں نے الیکشن ساز ادارے کو ایک نئے منجن کا نسخہ ارسال کر دیا۔ جس سے ان کی بے بسی قابل رحم ہے کہ میں ملک پاکستان کا صدر لگا ہوا ہوں میں نے آپ کو بلایا، آپ نے میرے پیغام کو نظرانداز کر دیا لیکن میں ایوان صدر میں اب بھی موجود ہوں لہٰذا یاددہانی کراتا ہوں کہ آئین و قانون کی ڈیمانڈ پوری کرنے کے لیے 90روز میں الیکشن ضروری ہیں یہ تاریخ 6نومبر بنتی ہے؟؟؟ دوسری جانب ٹویٹ بھی صدارتی اکائونٹس سے کر دیا کہ 6نومبر تک الیکشن کرائے جائیں۔ صدر مملکت بھول گئے کہ نئی حلقہ بندیوں کی ذمہ داری بھی الیکشن کمیشن کی ہے جس نے اپنی محدود مدت میں نومبر کے آخری ہفتے میں یہ کام مکمل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر مملکت جانتے ہیں کہ جب فضاء میں الیکشن الیکشن کی آوازیں گونجنا شروع ہو جائیں تو وہ موسم ’’ نورا کشتی‘‘ کا ہوتا ہے۔ نعرے، دعوے اور مطالبے اَن گنت ہوتے ہیں۔ یقین دہانیاں بھی کرائی جاتی ہیں لیکن ضرب جمع تقسیم حاصل ضرب کچھ نہیں، والی بات ہوتی ہے اسی لیے انھوں نے یہ خط لکھ کر اپنا نام دلیروں، بہادروں اور اصول پرستوں میں شامل کرانے کی کوشش کی ہے، پتہ انھیں بھی ہے کہ اس کا ہونا کچھ نہیں، لیکن پی ٹی آئی، عمران خان اور بشریٰ بی بی کے سامنے سرخرو ہونے کے لیے ضروری تھا کہ یہ خط لکھا جائے لہٰذا لکھ دیا ورنہ پہلے بھی دو بلوں کو اپنی میز کی دراز میں رکھ کر وقت گزاری کر چکے ہیں اور سچے وفادار بننے کے لیے اپنی رنگ بازیوں کا ملبہ سیکرٹری وقار احمد پر ڈالنے کی کوشش کی کیونکہ ’’ بل‘‘ مقررہ مدت کے بعد از خود منظور ہو گیا، بحث چل نکلی کہ یہ دو نمبری ہوئی، زیادہ شور مچا تو صدر صاحب نے متاثرین سے معذرت بھی کر لی جبکہ سب سے زیادہ متاثر عمران خان ہوں گے، بلکہ اس قانون کی منظوری سے سابق وزیراعظم کے گلے میں پھندا ڈالنا آسان ہو گیا، حالات بتا رہے تھے کہ صدر علوی اپنی آئینی مدت پوری ہونے سے پہلے استعفیٰ دے دیں گے لیکن پھر اسی منصب پر رہنے کے قانونی اور مالی فوائد کی بریفنگ نے انھیں گھر جانے نہیں دیا۔ ’’ لمحہ موجود‘‘ میں وہ بھی عمران خان کے لیے نادان دوست ثابت ہو رہے ہیں ، اب تو پی ٹی آئی کو از خود ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دینا چاہیے کیونکہ صدر علوی نہ کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے ثابت ہوگئے ہیں وہ نہ مملکت کے معیار پر پورے اتر رہے ہیں، نہ ہی پی ٹی آئی اور اس کی قیادت کے؟ تحریک انصاف اور چیئرمین عمران خان پر بُرا وقت آیا تو حسب روایت اپنے بھی پرائے ہو گئےعمر عطا بندیال صرف ’’ بیسٹ آف لک‘‘ اور ’’ گڈ ٹو سی یو‘‘ کہہ کر حوصلے سے زیادہ وقتی ریلیف کے سوا کچھ نہیں دے سکے اور صدر علوی بھی صرف دندان نمائش کے علاوہ دندان شکن نہیں بن سکے انھیں بھی دم رخصت اپنے محسن عمران خان سے زیادہ تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ عزیز نظر آیا۔
صدارتی اور الیکشن کمیشن کی نورا کشتی وقت گزاری کے لیے جاری ہے لیکن حقیقی نورا کشتی سیاسی میدان میں کھیلی جا رہی ہے۔ معصوم عوام حیران پریشان ہے اسے بالکل اندازہ نہیں کہ اچانک آصف زرداری اور بلاول بھٹو آمنے سامنے کیوں آ گئے، شریف برادران دو مختلف انداز بیان و سیاست رکھنے کے باوجود ’’ ہم آواز اور ہم قدم‘‘ کیسے ہوگئے، عمران خان مقبول ترین لیڈر ہوتے ہوئے بھی کیا الیکشن سے باہر ہی رہیں گے، مولانا فضل الرحمان ہمیشہ سے پیپلز پارٹی کے اتحادی رہنے کے باوجود بھی اعلان کر رہے ہیں کہ پی پی پی کے علاوہ تمام جماعتوں سے اتحاد ہو سکتا ہے آخر کیوں؟ اگر اس صورت حال کو مثبت سوچ کے ساتھ دیکھیں تو امجد اسلام امجد کی بات یاد رکھیں ’’ یہ سب کچھ محبت کا پھیلائو ہے‘‘ گہرائی اس کی صرف اتنی ہے کہ رنگ برنگے نعرے، مختلف منشور، سیاسی معرکہ آرائی کا حقیقی مقصد منصب اقتدار جس کی محبت میں اس کے دیوانے اور غلام بھانت بھانت کی بولی بول رہے ہیں وقت آنے پر سب ایک ہوں گے۔ مطلب ’’ موسمی نورا کشتی‘‘ ۔۔۔۔۔۔ ابھی اتحادی حکومت گھر جانے سے پہلے ’’ یک قالب یک جان‘‘ تھے۔ اب میدان کھلا ہے۔ سب اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں، الیکشن ہوں گے تو سب زور لگائیں گے پھر جتنی کامیابی ملے گی اس سے حکمت عملی بنا کر ’’ تخت اقتدار‘‘ کا راستہ ڈھونڈیں گے، فی الحال کوئی نہیں جانتا کہ اقتدار کا ’’ ہما‘‘ کس کے سر پر بیٹھے گا لیکن دعوے سب کے وکھری ٹائپ کے ہیں۔ سابق وزیراعظم شہباز شریف کہتے ہیں ’’ شیر اک واری فیر‘‘۔ نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم پاکستان بنیں گے؟ جبکہ دعویٰ ان کا یہ ہے کہ وہ مقتدر حلقوں کی آنکھ کا تارا ہیں، حقیقت یہی ہے کہ نواز شریف اینٹی اسٹیبلشمنٹ ایجنڈے اور نعرے پر ایک مرتبہ پھر چار ہفتوں کی اجازت پر جانے کے بعد چار سال بعد آئیں گے ،انھیں تین مرتبہ وزیراعظم ہونے کا انفرادی اعزاز حاصل ہے لیکن تین مرتبہ نکالے گئے منفرد وزیراعظم بھی تو وہی ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کو سابق صدر آصف زرداری وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں لیکن فی الحال وہ آمنے سامنے ہیں۔ آصف زرداری مفاہمتی سیاست میں معاشی بحران کا خاتمہ پہلے چاہتے ہیں۔ بلاول بھٹو پی ٹی آئی کی آواز پر ہم آواز ہو کر 90روز میں الیکشن کے حامی ہیں۔ دیوار پر انتہائی موٹے الفاظ میں لکھا ہے کہ 90روز میں الیکشن ممکن نہیں، پھر بھی بلاول بھٹو دیوار پر لکھا پڑھ رہے ہیں کہ آئندہ حکومت پیپلز پارٹی کی ہو گی، کب اور کیسے کی بات نہیں کرتے؟ کسی کو نہیں معلوم کہ سزا یافتہ نواز شریف ایک اشتہاری کی حیثیت سے وطن واپس آئیں گے یا آزاد شہری اور ایک عظیم قائد کے ٹائٹل سے۔۔۔۔۔ تاہم یقین دہانی یہی کرائی جا رہی ہے کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ایجنڈے پرآنے والے نواز شریف کو گارنٹی مل گئی کہ ’’ سب اچھا ہے‘‘۔۔۔۔۔۔ میں نے تمام پہلوئوں پر آگاہی صرف اس لیے دی ہے کہ آپ خود انداز لگا لیں کہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا ہونے جا رہا ہے؟ کیونکہ ’’ نورا کشتی‘‘ کے اس موسم میں ابھی اور بھی بہت کچھ ہونا باقی ہے لیکن حقیقی صورت حال یہ ہے کہ چترال اور گلگت میں خصوصی آباد کاروں نے بدامنی پیدا کر کے ریاستی رٹ کو چیلنج کر رکھا ہے اور ’’ افغان بارڈر‘‘ پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس نورا کشتی کے موسم میں ’’ نورا کشتی‘‘ ہرگز نہیں؟ ؟ لیکن یہ نورا کشتی ہی ہے کہ ’’ پھانسی گھاٹ‘‘ کو براستہ عمران خان راستہ واضح دکھائی دے رہا ہے لیکن کہہ رہے ہیں شاہ محمود قریشی کہ اگر میں غدار ہوں تو پھانسی پر لٹکا دیا جائے؟؟؟ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور کو چیئرمین آصف علی زرداری کے درمیان مشروط صلح سمجھوتہ کرا دیا ہے کیونکہ آصف علی زرداری نے کمیٹی کو بتایا کہ وہ مسلم لیگ ن کے ساتھ مختلف پس پردہ معاہدے کر چکے تھے جس پر انھوں نے عمل درآمد کیا ہے ۔ اب مسلم لیگ ن نے عمل درآمد کرانا ہے اگر انھوں نے اپنے وعدے کی وفائی نہ کی تو پھر ہمارے اور اُن کے راستے جدا ہوں گے۔ لہٰذا یہ ’’ نورا کشتی‘‘ فی الحال دوسرے رائونڈ کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button