ColumnImtiaz Aasi

نیب ترامیم کا خاتمہ امید کی کرن ثابت ہو گا؟

امتیاز عاصی

سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس جناب عمر عطاء بندیال کا نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینا امید کی کرن ثابت ہوگا؟ ملکی تاریخ میں یہ بات بھی یاد رکھی جائے گی پی ڈی ایم حکومت نے جانے سے ایک روز پہلے من پسند قانون سازی کا ریکارڈ قائم کیا۔ سابق چیف جسٹس کے تاریخ ساز فیصلے نے مبینہ کرپشن میں ملوث ملزمان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ کرپشن مقدمات میں ملوث سیاست دانوں کو انتخابات کی بجائے اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنا ہوگا۔نیب ترامیم کالعدم قرار دینے سے 598مقدمات پھر سے احتساب عدالتوں میں چلیں گے اور سیکڑوں انکوائریاں دوبارہ کھل جائیں گی ۔بظاہر دیکھا جائے تو نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے اس فیصلے سے نیب اور عدلیہ کو اپنی ساکھ بحال کرنے کا ایک نیا موقع مل گیا ہے۔اب یہ دونوں اداروں پر منحصر ہے وہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کی بحالی کا سامان کس حد تک کرتے ہیں۔ایک طرح سے نیب ترامیم کے خاتمے سے عدلیہ اور نیب دونوں کو قوم کے سامنے سرخرو ہونے کا موقع میسر ہو گیا ہے ۔دراصل نیب قوانین میں ترامیم متنازعہ تھیں پچاس کروڑ کی کرپشن کو نیب کے دائرہ کار سے نکالنے کا مقصد کرپشن میں ملوث افراد کو بچانا تھا۔یہ امر سمجھ سے بالاتر ہے پچاس کروڑ کی کرپشن کو کرپشن نہ سمجھنا ملک وقوم کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا تھا۔پچاس کروڑ تک کرپشن کرلیں تو کوئی پوچھے گا نہیں بلکہ ایک طرح سے کرپٹ لوگوں کو این آر او مل گیا تھا جسے سابق چیف جسٹس کے تاریخ سازفیصلے نے ختم کر دیا ہے۔اب نیب اور عدلیہ دونوں کا امتحان شروع ہے آیا وہ کرپشن میں ملوث لوگوں کے خلاف مقدمات تیزی سے نپٹاتے ہیں یا ماضی کی طرح مقدمات سرد خانوں میں پڑے رہیں گے؟گویا قومی احتساب بیورو اور عدلیہ کے سامنے دونوں راستے ہیں وہ کس راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔حیرت ہے نیب ترامیم میں وفاقی اور صوبائی ٹیکس کے معاملات میں نیب کو کارروائی کرنے سے روک دیا گیا تھا۔یہ بھی حقیقت ہے قومی احتساب بیورو ملک میں واحد ادارہ ہے جس سے کرپٹ لوگ خوف زدہ رہتے ہیںورنہ پولیس اور ایف آئی اے میں مقدمات درج ہونے سے سیاسی لوگ کبھی نہیں گھبراتے۔مرحوم صدر فاروق خان لغاری دور کے احتساب سے جنرل پرویز مشرف دور کے نیب پر نظر ڈالی جائے تو پرویز مشرف کے دور میں قائم ہونے والے قومی احتساب بیورو کی کارکردگی اس لحاظ سے حوصلہ افزاء رہی ہے خاص طور پر ہائوسنگ سوسائٹیوں کے ہاتھوں لٹنے والے عوام کو اربوں روپے کی واپسی آسان کا م نہیں تھا۔اس کے برعکس نیب میں مقدمات کی بھرمار نے بھی اس کی کارکردگی پر منفی اثرات چھوڑے ہیں۔نیب کی طرف سے مقدمات کے چالان عدالتوں میں بھیجنے کے باوجود مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔نیب قوانین میں مقدمات کے چالان عدالتوں میں بھیجنے کے لئے وقت مقرر ہے اور نیب عدالتوں کو بھی مقدمات کے فیصلوں کے لئے پابند کیا گیا ہے۔ عام طور مشاہدہ کیا گیا ہے اعلیٰ عدالتیں ماتحت عدالتوں کو مقدمات کا جلد فیصلہ کرنے کی ڈائریکشن دیتی ہے بلکہ فیصلوں کے لئے وقت مقرر کر دیا جاتا ہے ۔ جس کے بعد ایسے مقدمات کی روزانہ بنیادوں پر سماعت کا عمل شروع ہو جاتا ہے لیکن نیب جیسے اہم مقدمات میں یومیہ بنیادوں پر سماعت میں تساہل سمجھ سے بالاتر ہے ۔عام طور پر قتل کے مقدمات کا برسوں فیصلہ نہیں ہو پاتا تھا ۔ سابق چیف جسٹس جناب آصف سعید خان کھوسہ نے ماڈل عدالتیں قائم کرکے برسوںمیں ہونے والے فیصلوں کو چند ماہ میں کرنے کویقینی بنایا۔کیا نیب مقدمات کے برسوں میں ہونے والے فیصلوں کو چند ماہ میں نپٹانے کی حکمت عملی نہیں اپنائی جا سکتی تھی ؟دراصل اس معاملے میں حکومتوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ ہمیں یاد ہے سابق چیف جسٹس گلزار احمد نے عمران خان کی حکومت کو احتساب عدالتوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کو کہا تھا ۔عمران خان کی حکومت ختم ہو گئی وہ عدالتوں کی تعداد میں اضافہ کرنے میں ناکام رہے۔نیب مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کی بڑی وجہ احتساب عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے حالانکہ نیب جیسے اہم ادارے میں قائم ہونے والے مقدمات کے سماعت کے لئے زیادہ سے زیادہ عدالتوں کا قیام بے حد ضرور ی ہے۔نیب مقدمات میں فیصلوںکی تاخیر کے ذمہ دار وکلاء حضرات بھی ہیں۔اگر وہ مقدمات کی سماعت کے لئے غیر ضروری التواء کی روش چھوڑ دیں تو عدالتوں کے لئے فیصلے کرنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔سابق چیف جسٹس جناب آصف سعید خان کھوسہ کا دور اس اعتبار سے یاد رکھا جائے گا ان کے دور میں سزائے موت کے قیدیوں کی اپیلوں کے ریکارڈ فیصلے کئے گئے جس کی وجہ وہ وکلاء کو غیر ضروری التواء نہیں دیتے تھے بلکہ پیش نہ ہونے والے وکلاء پر جرمانہ عائد کرتے تھے۔تاسف ہے آصف علی زرداری کے خلاف عشروں پرانے مقدمات کی اپیلوں کے فیصلے زیر التواء ہیں حالانکہ ایسے کیسوں کی اپیلوں کے جلد از جلد فیصلے ہونا ضروری تھا۔ حال ہی نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے بعد ہونا تو چاہیی جو مقدمات احتساب عدالتوں میں زیر التواء ہیں ان کی یومیہ بنیادوں پر سماعت کا آغاز ہونا چاہیے ۔یہ بات درست ہے آئین کی رو سے دونوں فریقوں کو سنے بغیر مقدمات کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ اگر وکلاء تاریخ سماعت پر پیش ہونے سے گریزاں ہوں تو عدالت کے پاس سرکاری وکلاء سے بحث کرانے کا آپشن ہوتا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے پی ڈی ایم حکومت کی طرف سے نیب ترامیم سے قومی احتساب بیورو کے پر کاٹ دیئے گئے تھے جس سے بدعنوان عناصر کے خلاف کارروائی کرنے والا یہ ادارہ بے وقعت ہو گیا تھا۔ جناب عمر عطاء بندیال نے نیب قوانین میں ترامیم کو کالعدم قرار دے کر نہ صرف قومی احتساب بیورو کی افادیت میں اضافہ کیا بلکہ اپنا نام جسٹس ایم آر کیانی اور جسٹس کارنیلیس جیسے راست باز جج صاحبان کی فہرست میں شامل کر الیا ہے۔ ہمیں امید ہے نگران حکومت بدعنوان سیاست دانوں کے خلاف مقدمات کی سماعت جلد از جلد کرانے کی سعی کرے گی تاکہ ملک و قوم کو لوٹنے والوں ان کے انجام تک پہنچایا جا سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button