سمجھ کر نا سمجھی کے فیصلے

اختیار اور طاقت کے حصول کی دوڑ میں ہر فرد شامل ہو چکا ہے، محلوں، علاقوں میں کھینچا تانی دیکھ کر تھوڑا دنگ سا رہ گیا، ساتھ بیٹھ کر کھانے والے چند پیسے کے مفاد کے چکر میں سب لحاظ مروت ایک سائیڈ کر دیتے ہیں، ایسا ہی کچھ حکومتی حلقوں میں چل رہا ہے۔ حکومت کی پلاننگ، پالیسی پر کیا بات کریں، آج کل ایوانوں کے حالات بھی کچھ بہتر نہیں، نگران حکومت نے پٹرول کی قیمتوں میں دو بار تگڑا اضافہ کیا ہے، بجلی کے بلوں میں تگڑا اضافہ کیا تاکہ ملک میں استحکام رہے، استحکام کے لیے مہنگائی نہیں پلاننگ کی ضرورت ہے تاکہ ڈیفالٹ کا خطرہ نہ ہو، قرض دار کے وعدے وفا رہیں۔ معاشی استحکام کے لیے نگران حکومت نے اپنی کابینہ میں ایک اور وزیر کا اضافہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے بھی خط لکھا کہ جناب نگران وزیر اعظم صاحب تھوڑا خیال کریں۔ نگران وزیر سے مسلم لیگ ن والوں کی سیاسی قربتیں رہیں، نگران حکومت کا کام نگرانی ہے لیکن اگلے سال الیکشن کی امید پر4لوگ قابل سمجھے گئے ہیں ۔ جناب وزیر صاحب نے زیادہ وقت مسلم لیگ ن کے دور حکومت کے ساتھ گزارا ہے، سینئر صحافی و اینکر جناب رئوف کلاسرا نے وزیر کی سیاسی وابستگی پر اپنا تجزیہ پیش کیا۔ کلاسرا صاحب نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ’’ سر آپ کی قابلیت کا تو میں اس وقت سے قائل ہوں جب آپ برسوں پہلے وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری تھے، ارشد شریف شہید نے اپنے شو میں بڑا سیکنڈل بریک کیا تھا۔ سیکنڈل کے حوالے سے سینئر اینکر رئوف کلاسرا نے مزید کہا کہ ملتان، سکھر حیدر آباد موٹر وے کا MOUچینی کمپنی کے ساتھ سائن کیا گیا تھا، اس چینی کمپنی کا کنٹری مینجر اور کوئی نہیں سیف الرحمان نکلا تھا، آپ نے ڈٹ کر اس فیملی کا دفاع کیا تھا۔ وہ ایم او یو سکینڈل بعد میں کینسل بھی کیا گیا۔ اس ایم او یو کے دونوں کردار اس وقت نگران وزیر ہیں، یہ کلاسرا صاحب کی ٹویٹ سے اقتباس ہے۔ اس اقتباس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ وفا داروں کو یاد بھی رکھا جاتا ہے اور نوازا بھی جاتا ہے۔ پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے ہر دور حکومت میں کئی طرح کی پلاننگ بنائی گئیں لیکن کوئی بھی حکومت اپنے مقرر کردہ ہدف حاصل نہ کر سکی، وہ ہدف کیا تھے ، سب سے پہلے ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر کرنا، ملک کو قرض سے آزاد کرانا تھا، اس آزادی کے لیے 24کروڑ لوگوں کو ہر دور میں مہنگائی کی چکی سے گزارا گیا لیکن ایکسپورٹ کو بڑھانے کے لیے صنعتکاروں کو گیس، بجلی پر سبسڈی کی مد میں اربوں روپے مراعات دی گئیں، نتیجہ آج کے حالات سب کے سامنے ہیں، یہ صنعتکار کون ہیں ؟ لوگوں کے روزگار کے لیے کوئی صنعتی پراجیکٹ نہیں قائم ہوئے۔ منافع کو ڈبل کیا گیا اور سرکاری مال سے دوسرے ممالک میں کاروبار قائم کئے گئے۔ حکومتوں کی طرف سے بجلی کے مہنگے پراجیکٹ، امپورٹڈ کوئلے، گرین، ریڈ لائن اور صاف پانی کی فراہمی کے پراجیکٹ ریاست پر مزید بوجھ ثابت ہوئے۔ قرض اتارو ملک سنوارو، پیلی ٹیکسی جیسے کئی پراجیکٹ ملک کا قرضہ نہیں اتر سکے۔ اداروں میں ضرورت سے زیادہ افراد کو بھرتی کر کے سیاسی مفادات کا تحفظ کیا گیا۔ لوگوں کے لیے روزگار کیلئے کوئی سیکنڈ پلاننگ نہیں کی گئی۔ پاکستان کا ہر عام فہم شہری سیاست دانوں کی چالاکیوں کو دیکھ چکا ہے، ملکی قرضوں میں اضافہ، امپورٹ بل میں اضافہ، آبادی میں اضافہ، کرپشن نے ادارے کو تباہ کر دیا ہے، اداروں میں اقربا پروری جیسے مسائل کھڑے ہیں، طاقتوروں نے اپنے اپنے جتھے بنا رکھے ہیں، حکومتی ایوانوں میں ان کے سپورٹر بیٹھے ان کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں ، گزشتہ روز سابق سیکرٹری فوڈ پنجاب زمان وٹو کو سچ لکھنے اور بولنے پر سیٹ سے ہٹا دیا گیا، زمان وٹو نے تو عوامی مفاد اور معیشت کی بہتری کے لیے بات کی لیکن گھر بیٹھنا پڑا۔ روزانہ ایسے کئی فیصلے سچ کی آواز کو دبا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن خط تو لکھ رہا ہے لیکن کہیں پر اس کی عملداری نظر نہیں آ رہی۔ جہاں پر طاقتور کو سنا جائے اور ایماندار افسروں کو خاموش کر دیا جائے تو پھر اسی کمزور معاشی صورتحال کو کوئی بہتر نہیں کر سکتا، بٹی جماعتیں نعرے لگا رہی ہیں کہ ہم نے ملک کو بہتر کیا، لیکن بہتری نظر نہیں آ رہی۔ آمریت کے دور میں بھی ایسا کچھ چلتا رہا ، مشرف صاحب نے جن کو چور کہا بعد میں وہی ان کے لیے ایماندار اور کابینہ کا حصہ بنے ۔ خان جن کو ڈاکو کہتا تھا آج وہ خان کے نظرے کے حامی ہیں۔ نواز شریف نے بھگوڑوں کے خلاف تھا وہ آج اس کے ہمدرد اور ساتھ کھڑے ہیں، آصف زرداری اینٹ سے اینٹ بجنا چاہتا تھا لیکن وہ بھی جوڑ توڑ کی سیاست کا بادشاہ بن گیا۔ سیاسی جماعتوں کے اپنی اندر جمہوریت نہیں تو وہ ملک کے جمہوری نظام میں کیسے بہتری لا سکے ہیں، جس طرز پر وقت گزارنے کی روش اختیار کی جا رہی ہے، اس سے کوئی حاصل نہیں ہو گا، عارضی ریلیف سے کچھ بہتر ہونے والا نہیں ہے، زرعی ملک جب 10ارب کی اجناس امپورٹ کرے گا تو پھر حکمرانوں کو بہتری کی باتیں کرنی نہیں چاہئیں۔ یہ نعرے ان کو سجتے نہیں ہیں ۔ جو وزیر مشیر سالوں حکومت کا حصہ رہے وہ ان حالات میں کیا بہتری لا سکتے ہیں جب پٹرول کی قیمت بلند ترین سطح پر کھڑی ہو اور تاجر برادری اپنے منافع کو ڈبل فگر میں وصول کر رہی ہو، اچھے کی امید کم رہ جاتی ہے لیکن مسلمان ہیں نا امیدی گناہ ہے، اس امید پر 76سال ہو چکے ہیں۔ یہ طاقتور بھی نہ ہوں گے ہمارے بعد والے طاقتور اپنے ملک کی بہتری کے لیے اچھے فیصلے کریں۔ اس ملک میں فیصلے طاقتور کا حق ہے۔ ہم یا ہمارے بعد بھی طاقتور کرے گا۔ ہم تو طاقتوروں کے لیے دعا گو ہیں۔