ColumnJabaar Ch

ٹارزن کی واپسی

جبار چودھری

نوازشریف کوقسمت کادھنی کہاجاتا ہے ۔وہ کئی باراقتدار سے نکالے گئے لیکن ان کی ہربار کامیاب واپسی ہوئی۔ان کی سیاست کو اسٹیبلشمنٹ کی دین کہا جاتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ الزام بھی کہ ان کی کسی آرمی چیف سے نہیں بنتی۔ان پر جس فوج کے کندھوں اورنرسری میں لگنے کے الزامات لگتے ہیں اسی فوج سے ان کی لڑائی یا فوج کی ان سے لڑائی بھی تاریخ کا حصہ ہے۔وہ ایک بار پھرواپسی کی اڑان بھرنے کو ہیں۔میں نوازشریف بلکہ پاکستان سے باہر بیٹھ کرسیاست کرنے والوں سے اختلاف رکھتا ہوں ۔میرا اصولی مؤقف ہے کہ اس ملک میں سیاست کرنے والوں کو ہرقسم کی گرمی سردی اورمشکل ،آسانی میں اسی ملک میں عوام کے ساتھ تکالیف برداشت کرنی چاہئیں لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔نوازشریف کی واپسی پران کی بیٹی مریم نوازاستقبال کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔وہ روزانہ کی بنیادپر اپنے کارکنوں کے تنظیمی اجلاس بلارہی ہیں۔میاں نوازشریف لاہور میں لینڈکریں گے اور ان کی قانونی ٹیم کا خیال ہے کہ ان کے راستے کی رکاوٹیں دورکرکے ان کو جیل کی بجائے گھرپہنچایا جائے گا۔
اس سے پہلے جب بھی میاں نوازشریف سیاست سے نکلے اور واپس پلٹے تو لاہوراور پنجاب نے ان کا کھلے دل سے استقبال کیا ۔اس بار یہ امتحان لاہوریوں کا کم اور ان کی اپنی پارٹی کا زیادہ ہوگا۔لاہور ہویا پنجاب ،سیاسی طورپرمختلف ادوارمیں مختلف سیاسی جماعتوں کے لیے اپنے دروازے کھولتا رہا ہے۔ساٹھ کی دہائی کے اواخرمیں پیپلزپارٹی کا جنم اس شہر میں ہوا تویہ شہر بھٹوکا دیوانہ کہلایا۔سترکے بعد بھٹوکے وزیراعظم بننے تک اس شہرنے کسی اور کو ووٹ نہ دیا۔الیکشن کی پرچی پرصرف تلوار کا نشان دیکھا اورٹھپہ لگادیا۔ اس شہر نے حقیقی معنوں میں اس محاورے کو سچ کردکھایاکہ بھٹوکے نام پرلاہوریے کھمبے کو بھی ووٹ ڈالتے رہے۔مجھے پیپلزپارٹی کے یہاں سی واپسی اور لاہوریوں کی پیپلزپارٹی سے بے وفائی کے زیادہ عوامل تو نہیں معلوم لیکن ایک بات صراحت سے کہی جاسکتی ہے کہ ضیائی مارشل لانے یہاں پورے ملک سے سیاست کو ختم کیا وہیں لاہوراور پنجاب سے بھی پیپلزپارٹی کاخاتمہ کردیا۔جب مارشل لاکا سورج غروب ہوا تو لاہور کی آسمان پر لاہورکا نیا پاوا بھی طلوع ہوا۔یہ پاوامیاں محمد نوازشریف تھا۔وہ دن گیا اور دوہزار اٹھارہ کا الیکشن آیا لاہوراور لاہوریوں نے کسی اور جماعت کو اپنے ووٹ کے قابل نہیں سمجھا۔
پیپلزپارٹی نے کئی بار لاہورکو لاڑکانہ بنانے کے دعوے کیے ،نعرے مارے لیکن لاہورلاہورہی رہا۔دوہزار سات میں جب بے نظیربھٹوکونظر بندکیا گیا تو وہ لاہورمیں ہی تھیں۔بے نظیربھٹو لاہورمیں سردارلطیف کھوسہ کے گھرنظر بندرہیں لیکن ان کی موت کے بعد آصف علی زرداری نے لاہورمیں موجودہ چیئرمین پی سی بی ذکااشرف کے گھرڈیرہ ڈال کر یہیں سے دوہزار آٹھ کا الیکشن لڑااور الیکشن جیت بھی لیا لیکن لاہورسے پیپلزپارٹی کو صرف ایک سیٹ پر کامیابی ملی وہ بھی لاہورکے نواحی علاقے واہگہ بارڈروالی سائیڈکی قومی اسمبلی کی نشست تھی۔پیپلزپارٹی پانچ سال حکمران رہی لیکن اس شہرمیں اپنے قدم جمانے تو ایک طرف لاہور کی اکلوتی نشست بھی اس کے ہاتھ سے جاتی رہی۔
لاہور شہر نے اس وقت بھی نوازشریف کا ساتھ دیا جب مسلم لیگ ن سخت مشکل میں تھی۔یہ دوہزار دو کے انتخابات تھے۔یہ وہ وقت تھا جب پرویز مشرف کا مارشل لا ملک میں نافذتھا۔میاں نوازشریف اپنی اورخاندان کی جان بچانے کے لیے ملک سے سعودی عرب جاچکے تھے ۔اس الیکشن میں مسلم لیگ ن کے پاس صرف پندرہ بیس نشستیں رہ گئی تھیں ۔اس وقت بھی لاہورنے اپنی ساری نشستیں نوازشریف کے نام کیں جب پورے ملک میں ن لیگ کانام لینے والا کوئی نہیں تھا۔چودھری شجاعت اور پرویزالٰہی کا تعلق بھلے گجرات سے تھا لیکن مشرف کی چھتری تلے ق لیگ بنانے والے ان چودھری برادران نے الیکشن لاہورمیں بیٹھ کر لڑا۔پورے ملک میں سیٹوں کی بندربانٹ کا منصوبہ لاہورمیں ظہورالٰہی روڈ پرہی بنااور یہیں سے عمل پذیررہا لیکن لاہورنے ق لیگ کو بھی نظر اندازکیے رکھا۔
دوہزار تیرہ کے الیکشن میں لاہورسے دونشستیں ن لیگ سے باہر گئیں تو پاکستان تحریک انصاف کے حصے میں آگئیں۔آخری انتخابات دوہزار اٹھارہ میں ہوئے ۔ان انتخابات کے ووٹ شمارکریں یا نشستوں کی گنتی کرلیں ۔آخری الیکشن میں بھی لاہورن لیگ کے ساتھ تھا ۔لاہور کی چودہ میں سے صرف چار سیٹیں ن لیگ سے ٹوٹ کرپی ٹی آئی کے حصے میں آئیں ان میں سے بھی ایک خواجہ سعد رفیق نے واپس لے لی۔نوازشریف اپنی پارٹی کو لاہورمیں اس پوائنٹ پر چھوڑ کرلندن گئے تھے ۔ میں نے چند ماہ پہلےلاہورداپاوا کے عنوان سے ایک کالم انہی صفحات پر لکھا تھا۔ یہ نومئی سے پہلے کا وقت تھا اور اس وقت کے میرے تجزیے کے مطابق بھٹواور نوازشریف کے بعد لاہورنے اپنا پاواتبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔لاہور اور پنجاب پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو وہ مقام اور قبولیت دینے جارہاتھا جو کسی زمانے میں بھٹواورماضی قریب میں میاں نوازشریف کو حاصل تھی۔
سانحہ نو مئی نے یہاں بہت کچھ تبدیل کیا وہیں نوازشریف کے اس پاکستان جب وہ چار سال پہلے یہاں سے نکل کرلندن گئے تھے اورآج کے پاکستان میں بہت فرق آچکا ہے۔ جب نوازشریف گئے تھے تو ملک میں عام آدمی کے حالات آج سے بہت بہتر تھے۔ اس وقت مہنگائی ابھی آنے کے لیے کروٹیں لے رہی تھی اور آج مہنگائی اپنے پنجے پوری طرح گاڑچکی ہے۔جب نوازشریف گئے تھے تو معیشت میں کچھ جان باقی تھی اور آج معیشت تباہ اور عام آدمی ڈیفالٹ کرچکا ہے۔جب نوازشریف یہاں سے گئے تھے تو ایک ڈالر ایک سوچالیس روپے کا تھا اور آج وہی ڈالر تین سوروپے کا ہوچکا ہے۔اسی طرح چار سال پہلے پٹرول کا ایک لٹر ایک سوتیس روپے کا تھا جو آج تین سو تیس کاہوچکاہے۔ میرے خیال میں ان حالات میں بھی نوازشریف کی واپسی کو لوگ ہاتھوں ہاتھ لے لیتے اگر اس ملک میں ان کی پارٹی اور چھوٹے بھائی سولہ ماہ کی حکمرانی سے بازرہ جاتے۔اگر ملک کو اس تباہی تک پہنچانے میں صرف عمران خان اور ان کی پارٹی کا ہی ہاتھ ہوتا تو بھی نوازشریف کو اس وقت لوگ مسیحا سمجھ کر قبول کرتے ۔لوگ ان کے دور کو یاد کرکے ان کی واپسی کی دعائیں مانگتے لیکن گزشتہ سولہ ماہ میں خاص طوپرحالات کا پلڑایکسرگھوم چکا ہے ۔ وہ ناکامیاں جو عمران خان کے حصے کی تھیں وہ بھی شہبازشریف اپنی جھولی میں ڈال چکے ہیں ۔گزشتہ دنوں میں میری مسلم لیگ ن کے ایک سابق ایم این اے سے بات ہوئی ۔ وہ مجھ سے تب بھی ملتے تھے جب عمران خان کی حکومت تھی ۔وہ اس وقت اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی حلقے کے حوالے سے بہت مطمئن ہوتے تھے ۔میں پوچھتا تھا لوگ اپنے نمائندے سے سوال کرتے ہیں کہ کام کروائے آپ کیا جواب دیتے ہیں ۔وہ مجھے کہتے میرے حلقے کے لوگ میرے ساتھ ہیں میں ان کو سیدھا کہتا ہوں کہ میں اپوزیشن میں ہوں آپ کے لیے فی الحال کچھ نہیں کرسکتا تو وہ اس بات کو سمجھ لیتے تھے۔ یہی سوال میں نے اب کیا تو پریشانی واضح تھی ۔ کہنے لگے ان سولہ ماہ نے ہمارا بہت نقصان کیا ہے ۔اب لوگ ناراض ہیں کہ پہلے تو اپوزیشن میں تھے اب سولہ ماہ حکومت کی ہے توہمارے حصے میں کیا آیا سوائے مہنگائی کے۔اس لیے اب الیکشن لڑنا بہت مشکل ہے۔کیا نوازشریف واپس آکر ان مشکل حالات میں ووٹر کو اپنی طرف کرپائیں گے یہ بہت بڑا سوال ہے ۔اور اس بار ان کے سامنے مخالف پارٹی پیپلزپارٹی نہیں جس کو پنجاب کے لوگ سالوں پہلے تیاگ چکے ہیں بلکہ اب ان کے سامنے پی ٹی آئی اور عمران خان کی مقبولیت ہے جو پنجاب اور لاہورکے دلوں میں رچ بس گئی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ نگران دورکو جتنا بھی طویل کرلیں۔ اس دور میں جتنی بھی مزید مہنگائی کرلیں عوام کے ذہنوں سے سولہ ماہ کی تباہی کو نکالنا انتہائی مشکل ہے۔ہاں ناممکن نہیں ہے ۔ لاہورمیں ن لیگ سے پی ٹی آئی کی تبدیلی میں صرف سولہ ماہ کا ہی کمال نہیں ہے بلکہ پچھلے پانچ سالوں کا کیا دھرا ہے۔ ان پانچ سالوں میں ن لیگ نے لاہوریوں سے ناطہ توڑے رکھا۔میاں نوازشریف باہر چلے گئے ۔مریم نوازبھی جیل گئیں اور واپس آکر مصلحت کے تحت خاموش ہوکر بیٹھ رہیں ۔ حمزہ شہبازبھی غیر فعال ہوگئے ۔شہبازشریف نہ پہلے لاہورکو کنٹرول کرتے تھے نہ اب ان کی کوئی سنتا ہے۔لوگ ناراض ہوکردوسری طرف چلتے بنے۔ یہ وہ پہاڑجیسے چیلنجز ہیں جو میاں نوازشریف کی واپسی پر ان کا انتظار کررہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button