Column

یونان ہلاکتیں: متاثرین، حکمران، حکام سب ہی ذمے دار

محمد ناصر شریف

انسانی سمگلنگ اور تارکین وطن کی سمگلنگ دو الگ الگ جرائم ہیں، جنہیں آپس میں گڈ مڈ کر دیا جاتا ہے یا ان کا حوالہ ایک جیسے جرائم کے طور پر دیا جاتا ہے۔ انسانی سمگلنگ کے متاثرین کو بین الاقوامی قانون کے تحت جرم کا شکار ہونے والے افراد سمجھا جاتا ہے جبکہ سمگل کئے جانے والے تارکین کو ایسا نہیں سمجھا جاتا۔ اس لیے کہ وہ سمگلروں کو انہیں ایک ملک سے دوسرے ملک لے جانے کے لیے رقم ادا کرتے ہیں۔ انسانی سمگلنگ ایک ایسا جرم ہے جس کا تعلق طاقت کے استعمال، دھوکہ دہی یا دبائو کے ذریعے جبری مشقت یا جسم فروشی کے کام کرنے پر مجبور کرنا ہوتا ہے۔ تارکین وطن کی سمگلنگ اس وقت عمل میں آتی ہے جب کوئی شخص غیر قانونی طریقے سے کسی غیر ملک میں داخل ہونے اور بین الاقوامی سرحد کو پار کرنے کے لیے کسی سمگلر کے ساتھ اپنی مرضی سے ایک معاہدہ کرتا ہے۔ تارکین وطن کی سمگلنگ کا تعلق عام طور پر جعل سازی سے دستاویزات حاصل کرنے اور کسی ملک کی سرحد کے پار لے جانے سے ہوتا ہے۔ تاہم بعض ممالک اس میں ٹرانسپورٹیشن اور دوسرے ملک میں اپنی منزل پر پہنچ جانے کے بعد ان افراد کو محفوظ ٹھکانے مہیا کرنے کو بھی شامل کرتے ہیں۔ اس کے باوجود جن لوگوں کو سمگل کیا جاتا ہے انہیں انسانوں کی خریدوفروخت، ناروا سلوک اور جرائم کے شدید خطرے کا سامنا رہتا ہے، اس لیے کہ وہ غیر قانونی طور پر کسی غیر ملک میں رہ رہے ہوتے ہیں اور ان کے ذمے سمگلروں کے بھاری واجب الادا قرض ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ محض بہتر زندگی، اقتصادی مواقع، یا بیرون ملک اپنے خاندان میں شامل ہونے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ اسمگل کیے جانے والے بعض تارکین وطن افراد کو عبوری مرحلے کے دوران یا دوسرے ملک میں پہنچ جانے کے بعد، جسم فروشی یا محنت کشوں کی خرید و فروخت کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ اس طرح یہ افراد انسانی اسمگلنگ کا شکار بن جاتے ہیں۔ تاہم اسمگلنگ کے تمام واقعات میں انسانوں کی خرید و فروخت نہیں ہوتی، اور نہ ہی انسانوں کی خرید و فروخت کے تمام واقعات، تارکین وطن کی سمگلنگ سے شروع ہوتے ہیں۔ پاکستان سے یورپ انسانی سمگلنگ کا خونی کھیل گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، انسانی سمگلرز لوگوں کو پاکستان سے یورپ بھیجنے کے لیے دو مختلف روٹ اختیار کرتے ہیں۔ غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کے لیے پہلے اور قدیم روٹ کوترکی روٹ کہا جاتا ہے اس میں انسانی سمگلرز لوگوں کو بلوچستان کے تفتان بارڈر سے ایران اور پھر ایران سے مکو پہاڑی کے راستے ترکی لے جاتے ہیں۔ ترکی سے پھر انسانوں کو یونان سمگل کیا جاتا ہے، اس روٹ کا زیادہ حصہ خشکی کے راستوں پر مشتمل ہے۔ صرف یونان سے پہلے سمندر کا ایک چھوٹا حصہ عبور کرنا پڑتا ہے، اس راستے پر یونان نے کچھ عرصہ قبل اتنی سکیورٹی بڑھا دی ہے کہ اب یہاں سے داخل ہونا آسان نہیں ہے۔ یونان کا روٹ بند ہونے پر انسانی سمگلرز نے اپنا دھندہ چلانے کے لیے لیبیا کے ذریعے اٹلی کا نیا روٹ بنا رکھا ہے، اس میں پاکستانیوں کو یہاں سے ہوائی راستے سے پہلے دبئی، مصر اور پھر لیبیا لے جایا جاتا ہے جہاں انہیں بن غازی اور تبرک کے علاقوں سے طویل سمندری راستے کے ذریعے اٹلی منتقل کیا جاتا ہے۔ یونان میں گزشتہ روز کشتی ڈوبنے کا تاریخ کا بدترین سانحہ رونما ہوا۔ لیبیا کے ساحلی شہر تبرک سے اٹلی جانے والی کشتی میں اطلاعات کے مطابق 750سے زائد افراد سوار تھیجن میں 100سے زائد معصوم بچے اور متعدد خواتین بھی شامل تھیں، اب تک 78افراد کی میتیں نکال لی گئی ہیں جبکہ 100سے زائد افراد کو زندہ بچالیا گیا ہے، پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ زندہ بچنے والوں میں 12پاکستانی بھی شامل ہیں، مبینہ طور پر کشتی پر 310پاکستانی سوار تھے ، اطلاعات کے مطابق کشتی حادثے میں لاپتہ 500سے زائد افراد میں 298پاکستانی بھی شامل ہیں، عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ یونانی بحریہ نے رسوں کے ذریعے سے کشتی کو ساحل پر لانے کی غلط کوشش کی اسی دوران کشتی غرق آب ہوگئی، تاہم یونانی حکام نے ان الزامات کی تردید کی ہے، یورپی کمشنر برائے داخلہ یلوا جوہانسن نے کہا کہ تاحال کشتی حادثے میں ہلاکتوں کی اصل تعداد کے بارے میں معلوم نہیں ہوا ہے تاہم بظاہر یہ بحیرہ روم میں پیش آنے والا بدترین سانحہ ہوسکتا ہے، انہوں نے سمگلرز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ لوگوں کو یورپ نہیں بلکہ موت کے منہ میں بھیج رہے ہیں، انہیں روکنا لازمی ہے، ان کا کہنا تھا کہ رواں برس کے آغاز سے اب تک یورپ آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد میں 600فیصد اضافہ ہوا ہے، انہوں نے بتایا کہ بدقسمتی سے مچھلی کے شکار میں استعمال ہونے والی کشتیوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا گیا ہے اسی لئے ہمیں سمگلرز کیخلاف لڑائی اور انسانوں کی جانیں بچانے کیلئے دیگر طریق کار اختیار کرنے پڑیں گے، ہمیں انٹیلی جنس کیساتھ ساتھ دیگر خطوں کی پولیس کیساتھ مل کر تفتیش کرنا ہوگی ، اقوام متحدہ میں مہاجرین کی ایجنسی نے بحیرہ روم میں مزید سانحات سے بچائو کیلئے اقدامات کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سمندر میں لوگوں کو بچانے کی ذمہ داری بلا تاخیر پوری کی جائے، یونانی حکام کو تارکین وطن کو کشتی کو امداد فراہم کرنے میں غفلت برتنے پر شدید تنقید کا بھی سامنا ہے۔ برطانوی میڈیا کی رپورٹ میں بچ جانے والے مسافر نے بتایا کہ کشتی ڈوبنے سے پہلے ہی پانی نہ ملنے کی وجہ سے اس میں موجود 6لوگ مر چکے تھے۔ ڈوبنے سے تین روز پہلے ہی انجن فیل ہوگیا تھا، بچ جانے والوں میں کوئی بھی خاتون یا بچہ شامل نہیں ہے۔ پاکستانی مسافروں کو کشتی کے نچلے حصے میں جانے پر مجبور کیا گیا، دوسری قومیت والوں کو کشتی کے اوپری حصے میں جانے کی اجازت تھی۔ مسافروں نے کہا کہ کشتی کے اوپری حصے کے مسافروں کے بچنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، کشتی کے نچلے حصے سے پاکستانی اوپر آنا چاہتے تو ان سے بدسلوکی کی جاتی، خواتین اور بچوں کو بظاہر مردوں کی موجودگی کے سبب بند جگہ پر رکھا گیا تھا۔ ادھر یونانی کوسٹ گارڈ کی جانب سے دیئے گئے بیانات پر شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں۔ اس علاقے میں موجود دیگر بحری جہازوں کی نقل و حرکت کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ گنجائش سے زیادہ مسافروں سے بھری کشتی سمندر میں ڈوبنے سے قبل کم از کم سات گھنٹے تک حرکت کرنے کے بجائے ایک ہی جگہ پر کھڑی رہی تھی۔ تارکین وطن کو لے جانے والی ماہی گیری کی اس کشتی میں کوئی ٹریکر موجود نہیں تھا اس لیے وہ نقشے پر نہیں دکھائی دی۔ ان شواہد کے برعکس کوسٹ گارڈ اب بھی اپنے دعوے پر قائم ہیں کہ اس دورانئے میں کشتی اٹلی کے راستے پر گامزن رہی تھی اور اسے کسی مدد کی ضرورت نہیں تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 23،23لاکھ روپے دیکر جانے والے کیا بہت ہی غریب لوگ تھے، اور جب آپ اتنی بڑی رقم خرچ کر رہے ہیں تو آپ نے بہتر مستقبل کے لیے قانونی راستہ کیوں نہیں اختیار کیا، اس کھیل میں اگر آپ پار ہوجاتے ہیں تو کچھ عرصے میں خرچ کی گئی رقم سے کئی گنا زیادہ کما لیتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس سانحہ پر قومی سوگ کا اعلان کیا اور منایا بھی گیا۔ جناب وزیراعظم یہ کسی ایک یا دو افراد کے وطن چھوڑنے کا معاملہ نہیں تھا کہ ادارے غفلت میں رہتے ،یہ چارسو سے زائد انسانوں کی غیر قانونی طور پر منتقلی کا معاملہ تھا ۔ یقینا متعلقہ اداروں کے حکام کو بھی 23،23لاکھ میں سے کچھ تو ملاہو گا۔ ان حکام کے دو ماہ کے بینک اسٹیٹسمنٹ اور اثاثوں کی تحقیقات کی جائے تو بہت کچھ سامنے آجائے گا ۔ اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی شہری بیرون ملک منتقل ہورہے ہوں اور ہمارے حکام آنکھیں بند کیے رکھیں۔ ہمارے وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال فرماتے ہیں کہ یونان میں کشتی حادثے پر جتنا دکھ کا اظہار کیا جائے کم ہے، کئی گھرانے اجڑ گئے، یونان کی کوسٹ گارڈ نے ظلم کیا۔ ڈوبتے لوگوں کو نہیں بچایا۔ وزیر دفاع نے کہا کہ یہ سلسلہ 70کی دہائی میں شروع ہوا جب لوگوں نے روزگار کیلئے باہر جانا شروع کیا، اس عمل کیساتھ ہی غیر قانونی کام کا سلسلہ شروع ہوگیا، ملک میں روزگار نہ ہونے کی وجہ سے بچے باہر جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ مجبوری کی وجہ سے سمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، انسانی سمگلروں کیخلاف سخت ترین ایکشن ہونا چاہئے۔ وزیر موصوف کو بھی پتہ ہے کیا ہورہا ہے اور کس طرح ہوتا ہے ۔ حکمران، ادارے، حکام سب ہی ان ہلاکتوں کے ذمے دار ہیں، سب ہی مائوں کی گود اجاڑنے میں، بچوں سے باپ کا سایہ چھیننے میں اور بیٹیوں کو بیوہ کرنے کے اس عمل میں برابر کے شریک ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button