ColumnTajamul Hussain Hashmi

سیاسی جماعتیں مطمئن ہیں؟

تجمل حسین ہاشمی

انٹرا پارٹی الیکشن کی تقریب کا آغاز شروع ہوا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما جن کا تعلق بلوچستان سے تھا، انہیں نے گلہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے صوبے کے بہت سے دوست اس بات پر ناراض ہیں کہ ( پارٹی میں) ان کی بات سنی نہیں جاتی، سٹیج پر موجود تمام قیادت سن رہی تھی تاہم انہوں نے اس وقت یا بعد میں بھی اس پر کوئی جواب نہیں دیا، مسلم لیگ (ن) کے الیکشن کمیشن چیئرمین اور ممبران ڈائس پر آ گئے، پنڈال میں دوسری طرف شور سا مچنا شروع ہوگیا، پارٹی کی صدارت کیلئے شہباز شریف کے کاغذات نامزدگی جمع تھے اور بلامقابلہ جماعت کے صدر منتخب ہوگئے، کامیابی ملنے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے سٹیج کی نشستوں پر بیٹھے رہنمائوں سے ہاتھ ملائے، اس کے بعد مریم بی بی بھی بلامقابلہ جماعت کی سینئر نائب صدر و چیف آرگنائزر منتخب ہوگئیں۔ احسن اقبال مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل، مریم اورنگزیب سیکرٹری اطلاعات، اسحاق ڈار صدر اوورسیز و سیکرٹری فنانس، عطا تارڑ ڈپٹی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے، بعد ازاں مرکزی جنرل کونسل کی منظوری کیلئے قرارداد پیش کی گئی جس کی پنڈال میں موجود افراد نے منظوری دی، انٹر پارٹی الیکشن کے دوران نو مئی کے واقعات کی مذمت کی گئی۔ مریم نواز کو سٹیج پر بلایا گیا، مریم بی بی نے اپنی سیاسی جماعت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جس جماعت کو کنگز پارٹی کہا جاتا تھا اسے ڈرائنگ روم سے نکال کر عوامی جماعت بنایا۔ مریم نواز نے بیشتر تقریر سابقہ وزیراعظم سے متعلق نام لئے بغیر کی۔ مریم نواز نے کہا کہ نوازشریف نے کبھی بھی مشکلات میں امریکہ کو فون نہیں کیا، انہیں کئی مٹانے والے آئے اور گئے، نوازشریف نے ملک کی خاطر صعوبتیں بہت برداشت کی ہیں، مسلم لیگ (ن) پر مشکلات آئیں لیکن ہم نے برداشت کیا، نوازشریف نے کبھی جلائو گھیرائو کا نہیں کہا۔ پنڈال مسلم لیگ (ن) کے اراکین اور کارکنان سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مریم نواز کے بعد تقریر جناب شہباز شریف کی تھی، وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ مرکزی جنرل کونسل کا اجلاس متعدد مرتبہ موخر کر چکا ہوں، اس لئے کہ نوازشریف صاحب واپس آئیں اور یہ صدارت والی امانت میں ان کو واپس کر دوں۔ جو پگڑی آپ سب نے میرے سر پر دوبارہ پہنائی ہے یہ ان ( نواز شریف) کی امانت ہے، وہ جس دن پاکستان آئیں گے میں انہیں واپس کردوں گا، نوازشریف کا انتظار کرتا رہا لیکن ناگزیر وجوہات کی بنا پر وہ نہیں آ سکے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی تقریر میں نام لئے بغیر ان افراد پر تنقید کی جو اسحاق ڈار کو پارٹی میں رہ کر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، انہوں نے کہا جو پارٹی کے لوگ اسحاق ڈار کی ٹانگ کھینچ رہے ہیں، انہیں جماعت میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ انٹرنیشنل ذرائع ابلاغ نے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالہ سے پبلش کی گئی تفصیل کو اپنے کالم کا حصہ بنایا ہے، نجی میڈیا کو انٹرا پارٹی الیکشن میں مدعو نہیں کیا گیا تھا، الیکشن کے دوران اہم نکات غور طلب رہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایک تو اپنے بھائی کے ساتھ وفا کو قائم رکھا، صدارت کو میاں نوازشریف کی امانت قرار دیا، ساتھ میں پارٹی کے ان رہنمائوں کو واضح پیغام دیا جو حکومت کی معاشی پالیسی پر تنقید کر رہے ہیں، ان رہنمائوں کے نام لئے بغیر ان کو واضح پیغام دیا گیا ہے، دوسری طرف مریم بی بی نے نام لئے بغیر ان طاقتوں کو بھی پیغام دیا جنہوں نے نوازشریف کو ختم کرنے کی کوششیں کی تھیں، مریم نواز نے کہا کہ ان کو کئی مٹانے والے آئے اور گئے، نوازشریف نے ملک کی خاطر مشکلات اور صعوبتیں برداشت کی ہیں، مریم بی بی نے مسلم لیگ (ن) کو مٹانے والوں کو بغیر نام لئے تنقید کی۔ انٹرا پارٹی الیکشن کی اہم سیٹس کے مدمقابل کوئی امید وار کھڑا نہیں ہوا۔ سوال یہ ہے کیا انٹرا پارٹی الیکشن میں جیتنے والے نام ہی مسلم لیگ (ن) کی فرنٹ لائن قیادت کیلئے اہل تھے، کئی تگڑے سیاسی قد رکھنے والے رہنما (ن) لیگ کا حصہ ہیں۔ ان کی شمولیت نظر نہیں آئی۔ وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے پارٹیوں میں الیکشن پر بھرپور آواز اٹھائی تھی۔ ان کا موقف تھا کہ جب تک نچلی سطح سے لوگ اسمبلیوں میں نہیں پہنچیں گے اس وقت تک ایسے حالات پیدا ہوتے رہیں گے، سابقہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابقہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی کھلی تنقید کر رہے ہیں، حال میں ہونیوالی الیکشن کے حوالے سے عوامی تبصرے سوشل میڈیا پر جاری ہیں لیکن الیکشن کے طریقہ کار اور جمہوریت کی بنیادی روح کی بحالی سے ملکی معیشت میں بہتری ممکن ہے، کراچی میں پیپلز پارٹی کے میئر کی کامیابی کے بعد بلاول بھٹو نے پورے ملک میں اسی طرح الیکشن جیتنے کا اظہار کیا، نبیل گبول نے ٹی وی پروگرام میں کہا کہ الیکشن کے حوالہ سے تیاری مکمل ہے، اگلی حکومت پیپلز پارٹی کی ہوگی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی نے اپنے خدشات، مطالبات نہ پورے ہونے کے حوالہ سے حکومت سے رابطہ کیا ہے، آنے والے دنوں میں سیاسی اتحادیوں کے اتحاد میں تبدیلی ممکن ہے، اگلے الیکشن میں مقابلہ دونوں جماعتوں کے درمیان نظر آ رہا ہے، استحکام پاکستان کتنی سیٹوں پر کامیاب ہوگی، تحریک انصاف کے لیڈر کے حوالہ سے عدالتی فیصلہ آنا باقی ہے۔ فیصلوں میں تاخیر کی بنیاد تحقیقات کا نامکمل ہونا ہے، اس حوالہ سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ فیصلہ بھی چند دنوں میں نظر آ رہا ہے۔ لندن میں اکٹھ کو بھی فیصلہ کن سمجھا جارہا ہے لیکن گرائونڈ میں صدیوں سے پاکستانی سیاست کا مرکز رہنے والے خاندانی لوگ خاموش ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button