ColumnNasir Naqvi

چائنہ کاپی۔ اصل سے اچھی

ناصر نقوی

دنیا کی معیشت پر کچھوے کی چال چل کر قبضہ کرنے والے عوامی جمہوریہ چین کی کہانی سادہ ہرگز نہیں۔ اس نے اپنے منفرد رہنما مائوزے تنگ کی قیادت میں ایک چرسی، بھنگی اور ناکارہ چینی قوم کو جگانے کے لیے نہ صرف انتھک محنت کی بلکہ ناقابل یقین حد تک قربانیاں دیں۔ نشے میں مدہوشوں کو گولیاں بھی کھانی پڑیں اور اصولی پابندیاں بھی سہنی پڑیں۔ آج دنیا میں جس انداز میں معاشی چیمپئن بن کر دندناتے پھرتے ہیں اس کے پس پردہ ’’ مائو‘‘ کی دور اندیشی اور سخت فیصلے بنیاد ہیں۔ ذرا سوچئے چینی قیادت نے عوامی ترقی و خوشحالی اور ملکی استحکام کے لیے ایسی صف بندی کی جس میں ’’ سوشلزم‘‘ کے اصولوں کے تحت نہ صرف ’’ روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ سب کا مقدر بنا بلکہ انہیں سختی سے حکومتی اصولوں کا پابند کر کے برسوں ’’ ایک قوم ایک لباس‘‘ اور کثرت اولاد کو روکنے کے منصوبوں پر قائم کیا گیا۔ برسوں وہاں یہ اصول رائج رہے۔ کرپشن اور نشہ پر سزائے موت مقدر بنایا گیا۔ تعلیم و تربیت کی ایسی پالیسی اپنائی گئی کہ جس کے تحت خواتین و حضرات نے یکساں ہر میدان میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور جونہی اہداف حاصل کر لیے گئے ، رفتہ رفتہ پابندیاں نرم کر کے سب کو وہ سب سہولیات فراہم کر دیں گئیں جو دوسرے ترقی یافتہ ممالک کو حاصل ہیں وہاں قیادت نے اپنے بنیادی اصول ’’ سوشلزم‘‘ سے کبھی انحراف نہیں کیا لیکن انسانی حقوق کی پاسداری میں بے جا پابندی بھی عائد نہیں کی، اپنی زبان اور روایات میں رہتے ہوئے ہر شعبہ زندگی میں کامیابیاں ایک قوم بن کر اپنا مقدر بنائیں۔ اسی لیے آج وہ ہم سے کہیں آگے ہے۔ ہم ایک قوم نہیں بن سکے اس لیے کہ ایک اللہ، ایک نبی، ایک بیت اللہ پر یقین رکھتے ہوئے بھی ہم مسلکی اعتبار سے ٹکڑوں میں تقسیم ہیں ہم نے اپنی زبان، لباس اور روایات کو بھی وہ مقام نہیں دیا جو چینیوں نے اپنایا، لہٰذا ہر موقع پرست نے ہمیں مختلف نعروں میں تقسیم در تقسیم کیا، ہمیں زبان، لباس اور علاقائی تفریق کے فارمولوں پر لسانی طور پر بانٹنے کی ہر ممکن کوششیں اس لیے بھی کی گئی کہ ہم ’’ کلمہ گو‘‘ ہوتے ہوئے بھی اپنی روایات اور بنیادی اصولوں سے بہکے ہوئے ہیں۔ ہمارے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے’’ سوشلزم ‘‘ کے نعرے پر قوم کو جینے کے کچھ اصول سکھانے کی کوشش کی لیکن ’’ اسلام‘‘ خطرے میں پڑ گیا۔ اس لیے کہ ہم تو پاکستان کا مطلب کیا؟ ’’ لاالہ اللہ‘‘ والے ہیں۔ بھٹو صاحب اور ان کے قریبی ساتھی وزیراعلیٰ پنجاب حنیف رامے نے اسلامک سوشلزم، مساوات محمدی جیسی تشریح سے قوم کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی اور نعرہ بھی لگایا کہ سوشلزم سے خطرہ ہے جاگیرداروں، سرمایہ داروں میں اسلام نہیں، خطرہ ہے امریکہ کو اور امریکہ کے یاروں کو۔۔۔۔ لیکن ملکی اور بین الاقوامی طاقتوں کی مشترکہ سازش سے مذہبی رہنمائوں کو استعمال کر کے’’ نظام مصطفیٰ ‘‘ کی زور دار تحریک چلی، بھٹو صاحب پابند سلاسل ہو گئے اور قوم کا نصیب جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء بن گیا۔ گزشتہ 75سالوں میں سب ’’ چالیں‘‘ چلی گئیں لیکن ’’ نظام مصطفیٰ‘‘ کہیں ایسا دائیں بائیں ہوا کہ سودی نظام اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نصیب بنا ہو ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق معاشی بحران سے نجات کے لیے ’’ سود‘‘ سے چھٹکارا حاصل کرنے پر زور دیتے ہیں لیکن کوئی ان کی بات پر کان نہیں دھرتا بلکہ قوم ’’ اسلامی بینکاری‘‘ کے ایک جعلی نظام میں پھنس کر خوش ہے۔ اسلام کے نام پر صرف اعدادوشمار کے نام پر فراڈ ہو رہا ہے۔ ’’ ہم اور آپ‘‘ اسلام زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے سودی معیشت کا حصّہ بنے ہوئے ہیں۔
ہم ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی کے لیے اپنے دیرینہ آزمودہ دوست عوامی جمہوریہ چین کا نظام حکومت تو نہیں لے سکے لیکن ہر اچھے بُرے وقت میں اس کی مدد ضرور لیتے ہیں اس لیے کہ ’’ اسلامی دنیا سے زیادہ وہ کافر ہمارے کام آتا ہے ہم بھی کبھی اس کے بہت کام آئے۔ اب ذرا کمزور ہیں معاملات بگڑ گئے، سیاسی اور معاشی بحران نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، باقی جو کسر رہ گئی تھی وہ آئینی بحران نے پوری کر دی لیکن ہم ایک سخت جان قوم ہیں اس لیے بحرانوں میں بھی جینا جانتے ہیں۔ ہمارا کلیہ ’’ سانس ہے تو آس ہے‘‘ والا ہے۔ اس لیے نہ ڈرتے ہیں نہ گھبراتے ہیں شائد اسی صلاحیت پر ابھی تک قائم ہیں ورنہ ہر میدان میں غلطی نہیں غلطیاں کرنا ہمارا نہیں، ہمارے حکمرانوں کا بھی محبوب مشغلہ ہے۔ کس نے کیا کیا؟ یہ ایک ایسی لمبی بحث ہے جس میں اختلافات کی خاصی گنجائش موجود ہے ہم ایسی بات کرتے ہیں جس میں اختلاف کی بجائے اتفاق ہی اتفاق ہو۔ سوچ مثبت ہے کہ منطقی اس کا فیصلہ آپ خود کریں ہماری ہمالیہ سے بھی بلند، شہد سے میٹھی اور لوہے سے مضبوط دوستی کے مالک عوامی جمہوریہ چین میں اقتصادی سرگرمیاں دنیا بھر سے زیادہ ہیں۔ اسی لیے ہم اور ہمارے تاجروں میں ’’ چین‘‘ جانے اور کاروبار کو فروغ دینے کا رجحان بڑھا لیکن ہم ٹھہرے کم ترقی یافتہ پاکستانی اسی لیے ہم نے وہاں سے سستی ترین اشیاء لا کر چین کی خاصی بدنامی کر دی۔ صرف اپنے مفادات میں، یوں ایک ایسا تاثر پیدا ہوا کہ چائنہ کا مال ہو ناایسی نشانی ہے کہ یہ دیرپا ہرگز نہیں ہوگا۔ چلے تو واہ واہ، نہ چلے تو چائنیز کا مال تو ہی یعنی گارنٹی نہیں، لیکن حقیقت یہ نہیں تھی ہمارے تاجر جان بوجھ کر اپنے منافع کے لیے گھٹیا مال بنواتے تھے۔
ورنہ چائنہ نے تو ایک سے بڑھ کر ایک ایسی اچھی اور سستی اشیاء بنائی ہیں کہ دنیا بھر میں ’’ میڈ اِن چائنہ‘‘ دستیاب ہے پھر تحقیقات نے یہ انکشاف کر دیا کہ آپ چائنہ کا مال خریدیں یا پھر دنیا کے کسی بھی ادارے کی چائنہ کاپی، اپنی مرضی کی قیمت پر بنوا لیں۔ لہٰذا اب ایسی ایشیاء کی چائنہ کاپی بازار میں موجود ہے جو نہ صرف سستے داموں بلکہ اصل سے بھی اچھی ہے یوں ’’ چین‘‘ کا دنیا بھر میں طوطی بول رہا ہے اس کی معاشی صورت حال بھی امریکہ بہادر سے بھی مضبوط ہے۔ بلکہ وہاں بھی چینی اشیاء سستے داموں مل رہی ہیں۔ جرمن، جاپان، فرانس، برطانیہ پریشان ہیں کہ ان کے ممتاز اداروں کی منفرد اشیاء ’’ چین‘‘ ہوبہو کم قیمت پر بنا رہا ہے۔ بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔
پاکستانی سیاست میں ایک نئی سیاسی پارٹی کا جنم ہوا ہے جسے تجزیہ کار مبشر لقمان ’’ تحریک انصاف‘‘ کی چائنہ کاپی قرار دے رہے ہیں۔ ابھی اس کی مضبوطی پر شک کیا جا رہا ہے کیونکہ اس میں سب کے سب ’’ پریس کانفرنس‘‘ والی شخصیات شامل ہیں۔ اور اس کے سرپرست تاحیات نااہل سیاستدان جہانگیر ترین ہیں اور اس کا نام نامی ’’ استحکام پاکستان پارٹی‘‘ رکھا گیا ہے جبکہ اطلاعات کے مطابق یہ نام پہلے ہی کسی اور کے نام پر الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے۔ عبدالعلیم خان کی صدارت میں بننے والی جماعت اپنے پہلے مرحلے میں ہی ’’ چائنہ کاپی‘‘ ثابت ہو گئی۔ اب دوسرا مرحلہ یہ ثابت کرنا ہو گا کہ اصل سے اچھی ہے کہ نہیں؟ اس کا فارمولا ہے کہ جتنا گڑ ڈالو گے یا جتنا سیمنٹ پر مال خرچ کرو گے اتنا ہی اچھا اور مضبوط رزلٹ ملے گا۔ اس سلسلے میں جہانگیر ترین کے پاس گڑ کی کمی ہرگز نہیں، مال اور مال بردار جہازوں میں بھی خودکفیل ہیں لیکن شک اس لیے کیا جا رہا ہے کہ پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والوں کے منہ لٹکے ہوئے ہیں۔ پہلے ان نامور جانے پہچانے لوگوں کی گردن میں حکومتی طاقت کا ’’ سریا‘‘ فٹ تھا، اب نہیں ہے۔ اسی طرح تمام کے تمام ایک ہی سیاسی ریاست سے ہجرت کرنے والے ہیں، کسی ایک کا بھی کسی دوسری سیاسی ریاست سے نہیں، لہٰذا اندازہ کیا جا رہا ہے کہ چائنہ کاپی اصل سے اچھی نہیں، نہ ہی اس کی مضبوطی کی گارنٹی دی جا سکتی ہے؟۔
9مئی کے واقعات نے سیاسی افق پر جو کشمکش پید کی ہے اس سے انکار ممکن نہیں، اس کا سب سے زیادہ نقصان تحریک انصاف کو ہوا، سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا دعویٰ ہے کہ غیر جانبدارانہ تحقیقات سے سازش کے حقیقی محرکات کو بے نقاب کیا جائے تاکہ پتہ چلے کہ فائدہ کس کو ہوا؟ حکومتی ارکان کہتے ہیں نقصان تو ناکامی پر ہوا اگر ’’ نائن مئی‘‘ سازش کامیاب ہو جاتی تو حکومت سے زیادہ فوج کو نقصان پہنچتا۔ حکومت اگست میں نہیں، دو ماہ پہلے مئی میں گھر چلی جاتی لیکن یہ تو سوچیں کہ پھر کسی انقلابی لیڈر نے فتح یابی کا نعرہ لگانا تھا۔ عمران خان کو کون سمجھائے کہ انقلاب اور بغاوت میں صرف اتنا ہی فرق ہے آپ اور آپ کی منصوبہ سازی نے ترکی، یمن، شام، عراق اور مصر جیسے حالات بنانے کی کارروائی کی جو ناکام ہو گئی اس لیے کہ پاکستانی قوم جانتی ہے کہ اس کی سرحدوں کے دفاع کے لیے ہی نہیں، نظریاتی سرحدوں کی بھی افواج پاکستان محافظ ہے جس نے ہر مشکل گھڑی میں جانوں کا نذرانہ پیش کر کے نہ صرف دشمنوں کی سرکوبی کی بلکہ اپنی صفوں میں موجود دشمن کے سہولت کاروں کا خاتمہ کر کے دہشت گردی سے نجات حاصل کی اور ملک کو امن کا گہوارہ بنایا، قوم شہدائے وطن کی قدر و منزلت سمجھتی ہے اس لیے کبھی بھی ان کی یادگاروں کی تباہی کے ذمہ داروں کو معاف نہیں کر سکتی۔ ملک میں معاشی، سیاسی اور آئینی بحران سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں اور نہ ہی مہنگائی کے موجودہ دور کو جھٹلایا جا سکتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بدترین معاشی حالات، آئی ایم ایف کے عدم تعاون کے باوجود دوست ممالک کی مدد اور سخت حکومتی اقدامات سے ’’ مملکت پاکستان‘‘ ڈیفالٹ نہیں ہوئی اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کے کوئی امکانات ہیں۔ حکومت جائے گی اور نئے انتخابات کی سازگار فصاء بھی بنے گی کیونکہ کپتان اور قاسم کے ابو کا نظریہ حقیقی آزادی اور ریاست مدینہ کی حیثیت ’’ چائنہ کاپی‘‘ کا جھانسہ تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button