ColumnJabaar Ch

فراڈیے

جبار چودھری

میں اس خیال کا مبلغ کہ صاحب الرائے حضرات ،مبلغین اور لکھنے بولنے والوں کو امید لکھنی اور امید ہی بانٹنی چاہئے لیکن اگر امید کا برتن ہی خالی ہو۔ اس میں ہر وقت سوراخ کرنے والوں کی بہتات ہو تو امید بھی کہاں سے بانٹی جائے؟ پھر بھی میں مایوس نہیں ہوتا۔ اللہ کی رحمت ہر چیز سے وسیع اور مانگنے سے زیادہ بھی ملتی ہے اور بغیر مانگے بھی اس لیے مانگتے رہنا چاہئے۔ ناامیدی کفر ہے کہ اللہ کریم نے قرآن پاک میں فرما دیا کہ: ’’ لاتقنتو من الرحم اللہ ‘‘، لیکن یہ سب کچھ ایمان والے مومنوں کے لیے ہے۔ ہیں تو ہم سب بڑے بڑے مومن لیکن حرام ہے اگر ایمانداری کی رتی بھی کہیں پائی جاتی ہو۔ رویوں میں فراڈ ، دھوکہ، غلط بیانی اور جھوٹ یہی اوڑھنا بچھونا اور یہی ذریعہ روزگار۔ کالم لکھنے بیٹھا ہی تھا کہ ایک دوست بچوں کے ساتھ تشریف لے آئے۔ آتے ہی وجہ بیان کی کہ بچوں نے خریدوفروخت کی ایک سائٹ سے گیمنگ مشین پلے سٹیشن پسند کیا ہے۔ ابتدائی بات کر چکے ہیں لیکن آپ ذرا بات کرکے ڈیل کر لیں گے تو تسلی رہے گی۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں کالم کو ایک طرف رکھا لیپ ٹاپ بند کیا اور فون پکڑ لیا۔ اشتہار دیکھا۔ تصاویر دیکھیں تو واہ واہ کیا خوبصورت مشین تھی اور قیمت اتنی مناسب کہ ناقابل یقین۔ میں نے صاحب کو کال ملائی تو انہوں نے لمبا سا سلام کیا۔ دھیمہ لہجہ، خوش گفتار ماشا اللہ۔اپنا تعارف کروایا کہ دینی مدرسے میں پڑھاتا ہوں۔ میں نے پوچھا مشین کہاں دیکھی جاسکتی ہے، بولے اٹک میں۔ میں حیران ہواکہ لوکیشن میں تو لاہور کا فلاں علاقہ آپ نے لکھ رکھا ہے۔ گویا ہوئے وہ اس لیے کہ آپ کو معلوم ہے پلے سٹیشن کی مارکیٹ تو بڑے شہر ہوتے ہیں، ہم ٹھہرے چھوٹے سے شہر میں، تو اس لیے لاہور لکھا، کہ گاہک جلدی مل جاتاہے۔ بات تھوڑی منطقی لگی کہ آج کل آن لائن تجارت کا زمانہ ہے تو کوئی بات نہیں، مزید دریافت کرتے کہ وہ فوری بولے حضرت واٹس ایپ پر آئیے یا میں آپ کو ویڈیو بھیجتا ہوں آپ دیکھ لیں پھر میں یہاں سے کوریئر کردوں گا، کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ واٹس ایپ نمبر دیا تو حضرت نے چار پانچ خوبصورت ویڈیوز بھیج دیں۔ میں نے دیکھا۔ انتہائی خوبصورت مشین کی ویڈیو اور تصاویر۔ بات دل کو لگی میں نے دوست سے کہا کہ خریدنے میں کوئی حرج نہیں چیز اچھی ہے بچے خوش ہوجائیں گے۔ حضرت کو کال کی کہ یہ چیز آپ کی ہے۔ بولے نہیں جس گھر میں قرآن پڑھانے جاتا ہوں ان کی ہے۔ میں نے کہا چلیں مجھے ان کا نمبر دے دیں میں بات کر لوں۔ بولے نہیں بالکل نہیں وہ خاتون تو انتہائی باپردہ ہیں، ان کے شوہر بیرون ملک ہیں، انہوں نے وہاں سے بھیجی تھی لیکن ان کے بچے چھوٹے ہیں، ان کا گیمز میں کوئی لگائو بھی نہیں ہے، اس لیے بیچ رہے ہیں۔ میں بھی ٹھہرا تفتیشی اور تحقیقاتی صحافی۔ تھوڑا مزید کریدنے کی خاطر کہا کہ اچھا آپ ان کے گھر جاکر ایک ویڈیو کال واٹس ایپ پر کرکے وہاں مشین لائیو چلا کر دکھا دیں۔ فوری بولے کیوں ؟، اس کی کیا ضرورت ہے، میں آپ کو ویڈیو بھیج تو رہا ہوں، یہی کچھ ہے۔ میرا ماتھا ٹھنکا۔ میں نے کہا کہ نہیں آپ لائیو کال کریں۔ انہوں نے کہا کہ کیوں پریشان ہوتے ہیں، میں کہہ رہا ہوں نا مجھ پر اعتبار کر لیں، میں آپ کو اپنا شناختی کارڈ بھیج دیتا ہوں۔ آپ ایسے کریں میں کوریئر سروس پر جاکر آپ کے نام کا پیکٹ بُک کرواتا ہوں، آپ کوریئر والے سے تصدیق کر لینا، موقع پر اور یونہی آپ کے نام کا آرڈر بُک ہوجائے، آپ مجھے آدھے پیسے بھیج دینا، باقی آدھے مشین ملنے پر دے دینا۔ میں نے کہا کہ آپ بھیج دیں، میں وصول کرنے کے ساتھ ہی کوریئر والے کو پورے پیسے دے دوں گا۔ بولے چلیں آپ آدھے نہ دیں، دس ہزار ٹوکن دے دیں، میں مشین بھیج دیتا ہوں۔ میں نے واٹس ایپ میں لگی تصویر کھولی۔ ماشا اللہ کیا نورانی چہرہ۔ منہ پر لمبی داڑھی اور سراپا ایمان۔ پھر فون کیا تو ویسے ہی گفتگو کا آغاز السلام علیکم و رحم اللہ و بارک۔ میں نے کہا سادہ سلام بھی کافی ہے، بولے نہیں مسلمان ہیں تو پورا کہنا چاہئے، میں نے کہا چلیں اگر ایسا کریں کہ اٹک سے کسی دوست کا بندوبست کرکے آپ کے پاس بھیج دوں تو وہ آپ سے وصول کر لے اور موقع پر ہی آپ کو ادائیگی کر دے تو کیسا رہے گا۔ فوری بولے ہاں بھیج دیں۔ ان کو معلوم نہیں تھا کہ ایسا ممکن ہوسکتا ہے، اس لیے راضی ہوگئے۔ میں نے چینل کے ایک نمائندہ دوست کو اٹک میں فون کیا۔ انہیں بتایا، انہوں نے پہلی ہی فرصت میں کہا یہ فراڈ ہوگا۔ یہ دھندہ عام ہے۔ آپ اس کو میر انام بتائیں کہ میں آرہا ہوں، یہ نام سن کر بھاگ جائے گا۔ اگر فراڈیا نہ ہوا تو میں اس کے پاس چلا جائوں گا۔ میں نے دوبارہ حضرت کو فون کیا۔ میں نے کہا اچھا آپ اپنی لوکیشن شیئر کر دیں۔ جھنجلاکر بولے کیوں؟، آپ کوریئر دیکھیں اور کام ختم کریں ۔ مجھ پر بھروسہ نہیں ہے میں کونسا پورے پیسے وصول کر رہا ہوں۔ میں نے کہا آپ لوکیشن بھیجیں میرے فلاں دوست جو صحافی ہیں وہ آپ کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ انہوں نے نام سنا اور بولے۔ میں نی وہ بیچ دیا ہے۔ میں نے کہا فراڈ کرتے شرم نہیں آتی۔ بولے آپ سمجھدار تھے۔ لالچ میں نہیں آئے اور عقل سے کام لیا، میں پکڑا گیا۔ ورنہ ایک لاکھ کی مشین کی آدھی قیمت لگی دیکھ کر لوگ لالچ کی پٹی باندھ کر اپنی عقل ہمارے ہاتھ میں پکڑا دیتے ہیں۔ آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اب تک دس ہزار تودے ہی چکا ہوتا۔ میں نے کہا تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے؟۔ حضرت نے کہا کون پوچھے گا؟، فراڈ کا اپنا ایک سسٹم ہے۔ جب تک لالچ زندہ ہے ٹھگ بھوکے نہیں مریں گے۔ میں نے فون بند کیا۔ دوست سے کہا اللہ نے بچا لیا۔ میں سوچنے لگا کہ اس کا کیا کروں ؟ کس سے شکایت کروں۔ سوچا پی ٹی اے کو شکایت کروں ۔ پھر سوچا وہ کیا کرے گا زیادہ سے زیادہ اس کی سم بلاک کر دے گا۔ ایسے لوگوں کے پاس سیکڑوں سمیں۔ پھر سوچا ایف آئی اے ؟، پھر سوچا ایف آئی اے اگر کام کر رہا ہوتا تو ایسے لوگ پیدا ہی کیوں ہوتے؟، ایف آئی اے کے لوگ اس دھندے میں برابر کے شریک۔ ایف آئی اے کو سرکار نے اپنے سیاسی مخالفین کے پیچھے لگا رکھا ہے، ان کے پاس کہاں فرصت اپنا اصل کام کرنے کی۔ ایف آئی اے میں انسداد انسانی سمگلنگ کا پورا ونگ موجود لیکن دنیا کے کسی بھی حصے میں غیرقانونی تارکین وطن کی کشتی ڈوبے، پاکستان کا نام لازمی شامل ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کے ساتھ ایک ہمسایہ بھی ہے۔ اس کو جتنا بھی برا کہیں لیکن سمندر میں کشتیاں ڈوبنے میں ان کے کتنے لوگ شامل ہوتے ہیں؟، چار دن پہلے یونان میں کشتی ڈوب گئی۔ پاکستان کے سیکڑوں لوگوں کے اس میں ڈوبنے کی اطلاع۔ ایک ایک گائوں سے درجنوں لوگ۔ ہر گھر میں صف ماتم۔ حکومت کی اوقات صرف یوم سوگ منانے کی تھی سو منا لیا۔ ریاستیں اپنے شہریوں کی موت کے صرف ماتم اور سوگ نہیں مناتیں اپنے شہریوں کو مرنے سے بچاتی ہیں۔ یہاں ایف آئی اے نے انسانی سمگلروں کو روکنا ہے لیکن سمگلروں سے اپنا حصہ وصول کرنے کے بعد اس سسٹم میں برابر کے حصے دار بنے بیٹھے ہیں۔ اس ملک کی سرحد سے باہر کوئی جائے تو ذمہ دار ایف آئی اے۔ زمینی راستے سے باہر نکلے۔ سمندری راستہ لے یا ہوائی راستہ لے جب تک ایف آئی اے کی مہر پاسپورٹ پر نہ لگ جائے کوئی شہری ملک سے نہیں نکل سکتا لیکن یہ ایجنٹ شہریوں سے پچاس پچاس لاکھ روپے لے کر ان کو سمندر میں پھینک دیتے ہیں۔ یونان میں کشتی ڈوب گئی۔ لاکھوں روپے تو ڈوبے ہی لواحقین لاشوں کے منہ دیکھنے کے بھی روادار نہیں؟، ایسے فراڈیے سسٹم کو ڈوب مرنا چاہئے۔ آپ ڈوبنے والوں کے لواحقین کی کہانیاں سن لیں، سب کو ایجنٹوں کا بھی معلوم اور ایجنٹوں کے آگے سہولت کاروں کا بھی معلوم لیکن یہ دھندہ رکنے والا نہیں۔ وزیراعظم نے یوم سوگ کے ساتھ ایک تحقیقاتی کمیٹی بنادی۔ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے پہلے سے معلوم کچھ ایجنٹ پکڑ کر میڈیا کو دکھا دئیے۔ لاشوں کی گرد بیٹھتی ہی ان سب کی عدلیہ کی مہربانی سے ضمانتیں ہوجائیں گی اور یہ ایجنٹ پھر اگلے بیچ سے پیسے پکڑکر انہیں سمندر میں ڈالنے میں جُت جائیں گے۔ یہی ہمارا سسٹم ہے اوپر سے نیچے تک فراڈیا۔ یہی کچھ قانون میں ہے یہی کچھ جمہوریت میں۔ سب فراڈیے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button