ColumnImtiaz Aasi

سیاسی جماعتوں میں انتخابات

امتیاز عاصی

ملکی سیاست میں عدم استحکام کی ایک وجہ سیاسی جماعتوں میں آزادانہ انتخابات کا فقدان بھی ہے۔ اس کے برعکس مغربی ملکوں میں سیاسی جماعتوں کے ارکان کو اظہار کی آزادی ہوتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں میں کوئی اپنی جماعت کی پالیسیوں پر تنقید کرے تو اسے پارٹی چھوڑنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے جو ہماری سیاست کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں میں انتخابات خانہ پری کے لئے کرائے جاتے ہیں حالانکہ یہ انتخابات الیکشن کمیشن کی نگرانی میں ہونے چاہئیں جو اس امر کا جائزہ لے کسی نے پارٹی کی رکنیت کب لی ہے، اسے پارٹی میں کتنا عرصہ ہو گیا ہے۔ حال ہی میں مسلم لیگ نون کی جنرل کونسل کے اجلاس میں پارٹی عہدوں کی جس طرح بندر بانٹ ہوئی ہے، جمہوریت پر سیاہ دھبہ ہے۔ دو ہزار سے زائد جنرل کونسل کے ارکان میں سے بہت کم ارکان نے شرکت کی، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے پارٹی میں اندرونی اختلافات زوروں پر ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں اختلافات کرنے والے دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو کھل کر سامنے آجاتے ہیں، دوسرے پس پردہ اختلاف رکھنے والے ہوتے ہیں۔ پارٹی عہدوں کی بندر بانٹ خاندان کے اندر ہو تو اختلافات کا ہونا قدرتی امر ہے۔ کے پی کے میں سردار مہتاب خان جو ایک مضبوط گروپ رکھتے ہیں، نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ راجہ ظفر الحق جو ایک عرصہ سے سائیڈ لائن تھے اجلاس میں نظر آئے۔ شاہد خاقان عباسی، جن کے والد خاقان عباسی نے مری کہوٹہ کے قومی اسمبلی کے الیکشن میں راجہ ظفر الحق کو تاریخی شکست سے دوچار کیا تھا، وہ اپنے علاقے کی ہر دلعزیز سیاسی شخصیت تھے۔ جنرل ضیاء الحق سے ان کی دوستی کا آغاز تب ہوا جب دونوں اردن میں ڈیپوٹیشن پر تھے اور ایک ہی فلیٹ میں مقیم تھے۔ سانحہ اوجڑی کیمپ میں خاقان عباسی کی شہادت کے بعد ان کے چھوٹے بیٹے شاہد خاقان نے سیاسی میدان میں قدم رکھا۔ شاہد خاقان پیشے کے لحاظ سے سول انجینئر ہیں، امریکہ سے تعلیم یافتہ ہیں اور اچھی شہرت کے مالک ہیں۔ ان کے سسر میجر جنرل ریاض جو آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل تھے، خاقان عباسی کے کزن تھے۔ ہمیں شاہد خاقان عباسی کی یہ ادا پسند ہے نیب میں ریفرنس بنا تو انہوں نے نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے سے انکار کر دیا بلکہ مقدمہ کی سماعت کی خواہش ظاہر کی، ورنہ تو سیاست دان نیب مقدمات سے کسی نہ کسی طریقہ سے جان بخشی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ جماعت اسلامی ملک کی واحد جماعت ہے جہاں امیر اور دیگر عہدے داروں کا انتخابات خفیہ رائے شماری سے کیا جاتا ہے۔ نواز شریف جو کبھی عورت کی حکمرانی کے بڑے ناقد تھے، وزیراعظم بنے تو پیرس سے مشہور مذہبی سکالر ڈاکٹر محمد حمید اللہ کو پاکستان بلا کر عورت کی حکمرانی کے خلاف فتویٰ دلوایا تھا۔ آج وہی نواز شریف اپنی ہونہار بیٹی مریم نواز کو وزارت عظمیٰ پر دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ دراصل آمریت کی پیداوار مسلم لیگ نون بادشاہت کے عنصر سے الگ نہیں ہو سکی ہے۔ مریم نواز کے آئے روز بیانات اس بات کے شاہد ہیں، وزیراعظم شہباز شریف، نواز شریف کی مرضی کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتے ہیں، جو اس امر کا عکاس ہے مسلم لیگ نون جمہوری روایات سے کوسوں دور ہے۔ جمہوری پارٹیوں میں ہر ایک کو آزادی اظہار کی اجازت ہوتی ہے، نہ کہ پارٹی رہنمائوں کی تنقید پر قدغن ہوتی ہے۔ درحقیقت جب سے مریم نواز کو پارٹی کا سنیئر نائب صدر بنایا گیا ہے لیگی رہنمائوں میں خاصا اضطراب پایا جاتا ہے۔ تعجب ہے پنجاب میں مسلم لیگ کا اہم عہدہ رکھنے والے حمزہ شہباز اجلاس سے غائب تھے، جو اس بات کا ثبوت ہے لیگی رہنمائوں کی بڑی تعداد مریم نواز کو پارٹی کا اہم عہدے دینے سے ناخوش ہے۔ سانحہ نو مئی میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات کے بعد بظاہر پی ٹی آئی کے حصے بخرے ہو چکے ہیں اور مسلم لیگ نون کے لئے میدان خالی دکھائی دے رہا ہے، اس کے باوجود پنجاب میں الیکشن جیتنے کے لئے لیگی رہنمائوں کو بہت زیادہ محنت کرنی پڑے گی ۔ اگرچہ وقتی طور پر تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم کو کھڈے لائن کر دیا گیا ہے، تاہم عوام کے دلوں سے اسے نکالنا مشکل ہو گا۔ عمران خان کو نااہل اور اس کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا معاملہ ابھی تک سوچ بجار کا متقاضی ہے، حکومتی اتحاد میں اس سلسلے میں اتفاق رائے نہیں پایا جا رہا ہے۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف کو اس بات کا ادراک ہے ایسا وقت ان کی جماعت پر بھی آسکتا ہے اور حالات کسی وقت بھی پلٹا کھا سکتے ہیں اور فوجی عدالتوں کا انہیں بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق جونہی اس بارے کوئی حتمی فیصلہ ہوا عمران خان کی گرفتاری عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ سوال یہ ہے تحریک انصاف کی تھوڑ پھوڑ اور عمران خان کے خلاف مقدمات کی بہتات کیا عمران خان کے بارے میں عوام کی رائے بدل سکتی ہے؟۔ پاکستانی قوم کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے یہاں نہ سیاسی جماعتوں میں شفافیت سے الیکشن ہوتے ہیں اور نہ عام انتخابات منصفانہ ہوتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آتے وقت انتخابی اصلاحات کرنے کا اعلان کیا تھا جو دھری کی دھری ہیں۔ جن سیاسی جماعتوں میں انٹرا پارٹی الیکشن میں جمہوری روایات کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا، کیا ایسی جماعتیں شفاف اور منصفانہ انتخابات کی متحمل ہو سکتی ہیں؟۔ مان لیا تحریک انصاف کو گزشتہ الیکشن میں مقتدرہ کی حمایت حاصل تھی تو کیا آنے والے انتخابات میں مقتدرہ کی حمایت کے بغیر کوئی جماعت برسراقتدار آجائے گی؟۔ ہم سے بعد میں وجود میں آنے والے ملک ترقی کی دوڑ میں کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں، ہم ہیں کہ لوٹ مار ہمارا مطمع نظر ہے۔ ملک جائے بھاڑ میں مقروض ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔ آج جو ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کی جا رہی ہیں، اس کے ذمہ دار ملک کے عوام ہیں یا سیاست دان؟۔ کھربوں روپے قرض لے کر معاف کرانے والوں کو کسی نے پوچھا تک نہیں۔ کوئی عام آدمی قرض لے لے تو عدم ادائیگی کی صورت میں اسے جیلوں کی ہوا کھانی پڑتی ہے۔ سیاست دان ہوں تو انہیں ضمانت پر رہائی مل جاتی ہے، جس کے بعد مقدمہ کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہوتا۔ جن سیاسی جماعتوں کے انتخابات میں غیر جمہوری طور پر عہدے داروں کا انتخابات ہو، وہ جماعتیں کبھی ملک اور عوام سے مخلص نہیں ہو سکتیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button