سپیشل رپورٹ

کتنے ممالک اسرائیل کو اسلحہ بیچتے ہیں؟ کس کس نے سپلائی روک دی؟

امریکا نے اسرائیل کے لیے بڑے، بنکر شکن بموں کی شپمنٹ روک دی ہے۔ یہ ہتھیار اسرائیلی فوج نے غزہ میں جاری اُس فوجی آپریشن میں استعمال کیے ہیں جس کے نتیجے میں اب تک 35 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔

سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں صدر جو بائیڈن نے پہلی بار اسرائیل کو براہِ راست انتباہ کیا کہ غزہ سٹی یا رفح پر حملے کی صورت میں اسرائیل کے لیے امریکی ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان کی فراہمی روک دی جائے گی۔

اب تک امریکا ہی اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک رہا ہے۔ اس کے بعد جرمنی ہے جس نے طویل مدت تک اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھی ہے۔ اٹلی بھی اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے کا ایک نمایاں ملک رہا ہے۔

رواں سال کینیڈا اور ہالینڈ نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روک دی ہے۔ دونوں ممالک کا کہنا ہے کہ ان کے فراہم کردہ ہتھیار اسرائیلی فوج کی ایسی کارروائیوں میں استعمال ہوسکتے ہیں جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر مبنی ہوں
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی بمباری اور زمینی کارروائیوں میں نصف سے زائد ہلاکتیں نہتے، غیر متحارب شہریوں کی ہیں۔ ان میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

امریکا نے اسرائیل کے لیے 907 کلوگرام کے 1800 اور 500 کلو گرام کے 1700 بموں کی شپمنٹ روک دی ہے۔ ویسے اسرائیل کے لیے اربوں ڈالر کے ہتھیاروں کی فراہمی کے کئی منصوبے پائپ لائن میں ہیں۔ ان میں قطعیت کے ساتھ نشانہ بنانے والے میزائل اور بم بھی شامل ہیں۔ امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی بیرونی تعلقات کی کمیٹی کے رکن جم رِش کہتے ہیں کہ اسرائیل کے لیے ہتھیاروں کی فراہمی کی منظوری کا عمل سُست پڑگیا ہے۔

ایگزیوز نے 9 مئی کو بتایا کہ امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے کانگریس کے لیے مرتب کی جانے والی ایک رپورٹ میں اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دینے میں ذرا سی کسر چھوڑی ہے۔ اسرائیل سب سے زیادہ امریکی فوجی امداد وصول کرنے والا ملک بھی ہے۔ امریکا نے اسرائیل کو جدید ترین ٹیکنالوجیز کے حال 36 F-35 لڑاکا طیارے فراہم کیے ہیں۔ مزید 39 طیاروں کی ڈلیوری باقی ہے۔ امریکا نے اسرائیل کو فضائی دفاعی نظام آئرن ڈوم تیار کرنے میں بھی مدد کی ہے۔

جرمنی بھی اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والا ایک بڑا ملک ہے۔ غزہ آپریشن کے حوالے سے اسرائیل اور اس کے حلیف ممالک پر دنیا بھر میں شدید تنقید کے باعث جرمنی نے رواں سال اسرائیل کے لیے ہتھیاروں کی برآمد خاصی محدود کردی ہے۔ 2019 سے 2023 کے دوران اسرائیل کو ملنے والی فوجی امداد میں جرمنی کا حصہ 30 فیصد تھا۔
اٹلی نے بھی ہتھیاروں کی فراہمی محدود کردی ہے۔ اطالوی قانون کے تحت ان ملکوں کو ہتھیار نہیں بیچے جاسکتے جنہوں نے جن چھیڑ رکھی ہو اور عالمی سطح پر تسلیم بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہوں۔

برطانیہ بھی اسرائیل کو اسلحہ بیچتا ہے تاہم اس کا شمار اسرائیل کو بڑے پیمانے پر ہتھیار فراہم کرنے والے ممالک میں نہیں ہوتا۔ برطانوی حکومت دفاعی سودوں میں براہِ راست شریک نہیں ہوتی۔ غزہ کی صورتِ حال کے تناظر میں برطانوی حکومت نے اسلحے کی فروخت کے حوالے سے اسرائیل کے لیے پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔

غزہ میں شہریوں کے زیادہ جانی نقصان کے پیشِ نظر برطانیہ میں بائیں بازو کی تین بڑی جماعتوں نے حکومت سے کہا ہے کہ اسرائیل کو اسلحے کی برآمد کے لائسنس کے اجرا پر نظرِثانی کی جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button