گوئٹے مالا کا سیاسی و انتخابی بحران
قادر خان یوسف زئی
پاکستان کی طرح دنیا بھر میں متعدد ممالک کو سخت ترین چیلنجز کا سامنا ہے لیکن وہ ہمارے لئے دلچسپی کا باعث نہیں بنتے کیونکہ بد قسمتی سے ہماری سوچ کنویں کے اس مینڈک کی طرح ہوگئی ہے جو اپنے اطراف کو کل کائنات سمجھتا ہے۔ قرب و جوار اور سات سمندر پار ممالک کی حیران کن خبریں ملتی رہتی ہیں، لیکن اس سے زیادہ حیران کن امر یہ ہے کہ ایسی خبریں ہمارے لئے قطعی عبرت کا باعث نہیں بنتی۔ گزشتہ روز وسطی امریکہ کے ملک گوئٹے مالا کے سیاسی بحران کا جائزہ لینے کا موقع ملا تو مجھے بھی زیادہ حیرانی نہیں ہوئی۔ خیال رہے کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جس کی سرحدیں میکسیکو، بیلیز، ہونڈوراس، ایل سلواڈور اور بحر الکاہل سے ملتی ہیں۔ تقریباً 17.6 ملین افراد پر مشتمل وسطی امریکہ کا سب سے زیادہ آبادی والا اور امریکہ کا 11واں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ گوئٹے مالا کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر گوئٹے مالا سٹی ہے، جو وسطی امریکہ کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر بھی ہے۔ گوئٹے مالا میں صدارتی جمہوریہ کے کثیر الجماعتی سیاسی نظام رائج ہے۔ چار برس کے لئے منتخب ہونے والا صدر مملکت اور حکومت دونوں کا سربراہ ہوتا ہے، یک ایوانی قانون ساز کانگریس کے 158ارکان چار سال کی مدت کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ عدالتی شاخ کئی عدالتوں اور ٹربیونلز پر مشتمل ہے، جس میں سپریم کورٹ اور آئینی عدالت اعلیٰ ترین عدالتی ادارے ہیں۔ گوئٹے مالا کا آئین، 1985میں اپنایا گیا تھا۔
گوئٹے مالا کو بھی بدترین سیاسی بحران کا سامنا ہے کیونکہ اس کے ایک سرکردہ صدارتی امیدوار کارلوس پینیڈا کو ملک کی اعلیٰ عدالت نے ووٹنگ کے پہلے مرحلے سے صرف ایک ماہ قبل دوڑ سے نااہل قرار دے دیا۔ پینیڈا، ایک قدامت پسند تاجر ہیں، جو سوشل میڈیا کے ذریعے مقبولیت کی بلندی تک پہنچے۔ ان پر انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر 25جون میں ہونے والے انتخابات کے لئے نا اہل قرار دے دیا گیا۔ ان کے حامی عدالتی فیصلے کو بدعنوانی کی علامت اور جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ گوئٹے مالا میں پینیڈا واحد امیدوار نہیں جنہیں انتخابی دوڑ سے روکا گیا بلکہ اس سال کے شروع میں، دو دیگر دعویداروں میں قدامت پسند رابرٹو آرزو، اور بائیں بازو کی مقامی رہنما تھیلما کیبریرا کو بھی نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ناقدین نے الزام لگاتے ہیں کہ عدالتی نظام کو سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے لیے خطرہ بننے والے امیدواروں کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ عدالتی نظام کے سیاسی مخالفین کے لئے استعمال کی وجہ سے مبینہ نااہلیوں نے وسطی امریکی ملک گوئٹے مالا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی حالت کے بارے میں تشویش ناک صورت حال کو جنم دیا ہے۔ موجودہ صدر،Alejandro Giammattei پر اختلاف رائے کو دبانے اور قانون کی حکمرانی کو کمزور کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔
انتخابی دوڑ میں شامل باقی امیدوار زیادہ تر روایتی جماعتوں سے ہیں جنہوں نے برسوں سے گوئٹے مالا کی سیاست پر غلبہ حاصل کیا ہوا ہے۔ سب سے آگے جوری ریوس ہیں، جو ایک سابق فوجی آمر کی بیٹی ہیں جنہیں نسل کشی کا مرتکب ٹھہرایا گیا تھا، اور ایک سابق خاتون اول سینڈرا ٹوریس جو بدعنوانی کے الزام میں جیل میں بند تھیں۔ ان دونوں پر جرائم پیشہ گروہوں سے تعلقات رکھنے اور مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ انتخابات 25 جون کو ہونے والے ہیں، لیکن امکان ہے کہ یہ اگست میں رن آف میں جائے گا، کیونکہ پہلے رانڈ میں کسی بھی امیدوار کے 50فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی توقع نہیں یہ انتخابات گوئٹے مالا کی جمہوریت کی لچک کو بھی آزمائیں گے، جو کہ 1996میں ختم ہونے والی 36سالہ خانہ جنگی سے ابھری تھی۔ ملک کے سیاسی بحران کی حقیقی وجہ گوئٹے مالا کے عدالتی نظام کو سمجھا جاتا ہے۔ جسے قانونی حیثیت اور مبینہ طور پر سیاسی مداخلت اور جوڑ توڑ کا آلہ کار سمجھا جاتا ہے۔ ملک کی عدالتوں پر متعصب، بدعنوان اور غیر فعال ہونے، شہریوں اور امیدواروں کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا ہے۔ عدالتی بحران نے بدعنوانی اور استثنیٰ کے خلاف جنگ کو بھی نقصان پہنچایا، اور گوئٹے مالا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے بگاڑ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ گوئٹے مالا کا عدالتی نظام کئی عدالتوں اور ٹربیونلز پر مشتمل ہے، جس میں سپریم کورٹ اور آئینی عدالت اعلیٰ ترین عدالتی ادارے ہیں۔ 1985کے آئین نے ایک آزاد عدلیہ اور انسانی حقوق کے محتسب کو قائم کیا، اور حکومت کی ایگزیکٹو، قانون سازی اور عدالتی شاخوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے طریقہ کار کو طے کیا۔ تاہم، عملی طور پر، عدلیہ صدر، کانگریس، فوج، کاروباری اشرافیہ، اور منظم جرائم کے گروہوں سمیت مختلف کرداروں کے سیاسی دبائو اور اثر و رسوخ کا شکار رہی ہے۔ گوئٹے مالا میں عدالتی بحران کا ایک اہم ذریعہ ججوں کے انتخاب اور تقرری میں شفافیت اور احتساب کا فقدان ہے۔ سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے ججوں کا انتخاب کانگریس کی طرف سے پانچ سال کی مدت کے لیے کیا جاتا ہے، جو کہ معاشرے کے مختلف شعبوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک نامزد کمیشن کی طرف سے تجویز کردہ امیدواروں کی فہرست پر مبنی ہے۔ تاہم، یہ عمل اقربا پروری، رشوت ستانی اور سیاسی مداخلت کے الزامات سے متاثر ہوا ہے، جس کے نتیجے میں ایسے ججوں کی تقرری ہوتی ہے جو قانون کی حکمرانی کے بجائے بعض مفادات یا جماعتوں کے وفادار ہیں۔
عدالتی بحران کے گوئٹے مالا کی جمہوریت اور ترقی پر سنگین نتائج مرتب ہوئے ہیں۔ عدالتوں کا استعمال سیاسی مخالفین، جیسے صدارتی امیدواروں یا انسانی حقوق کے محافظوں، اور سیاسی اتحادیوں، جیسے سابق صدور یا فوجی افسران کے تحفظ یا حمایت کے لیے کیا گیا ہے۔ عدالتیں شہریوں کے آئینی حقوق کو برقرار رکھنے اور مناسب عمل اور منصفانہ ٹرائل کی ضمانت دینے میں بھی ناکام رہی ہیں۔ عدالتی بحران نے بدعنوانی اور استثنیٰ سے نمٹنے اور 1996میں ختم ہونے والی خانہ جنگی کے دوران ہونے والے جرائم کے خلاف کارروائی کی کوششوں کو بھی کمزور کر دیا ہے۔ گوئٹے مالا میں عدالتی بحران نہ صرف عدلیہ کے لیے بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک چیلنج ہے جس کے لیے زیادہ جمہوری اور شفاف عدالتی نظام کا مطالبہ اور حمایت کرنے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے۔